اس برس سردی نہیں پڑ رہی تھی۔ لوگ روز اس امید پہ بستر سے نکلتے کہ شائد آج کچھ موسم بدلے گا لیکن چند ٹھنڈی ہوائیں چلنے کے علاوہ دور دور تک سردی کا نام و نشان نہیں تھا۔ ہر برس ان دنوں میں شدید سردی ہوا کرتی تھی مگر اس برس سورج روز اپنی پوری آب و تاب سے ایسے چمکنے لگتا کہ جیسے اپنے سامنے آنے والی ہر شے کو جلا کر ہی جائے گا۔ گھروں میں گرم لباس، گرم بستر الماریوں کے اندرونی خانوں سے نکل تو آئے تھے لیکن بیکار دھرے تھے، کسی کو ان کے استعمال کا موقع ہی نہیں مل رہا تھا۔
سردیوں کی فصلیں بیکار ہوئی جا رہی تھیں۔ مولوی صاحب نے جمعہ کی نماز کے بعد رو رو کر دعا بھی کروائی تھی کہ اللہ ہمیں معاف کر دے اور موسم کو پہلے جیسا نارمل کر دے۔ ان کا کہنا تھا یہ سب ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہے کہ خدا نے اپنا ایک موسم ہم سے چھین لیا ہے۔
سردیوں کا مال دکانوں میں پڑا خراب ہو رہا تھا اور گھروں میں بوڑھی خواتین سردیوں کی سوغاتیں بنانے کی خواہش لیے ہاتھ مل رہی تھیں۔ لوگوں میں روز طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہوتی تھیں۔ کوئی مولوی صاحب کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے اسے اللہ کا عذاب سمجھتا، کوئی اسے عالمی سازش قرار دیتا اور کوئی گلوبل وارمنگ کا نتیجہ کہہ رہا ہوتا۔
بڑے بوڑھے ڈھلتی شام میں حسرت بھری نظروں سے کھیتوں کو دیکھتے کہ جہاں سے ان کی سردیوں کی فصل آنی تھی اور جہاں انھیں سردی میں رات گئے تک آگ کے الاؤ جلا کر حقے کی محفلیں سجانی تھیں۔ لیکن وہ کھیت ویران پڑے تھے اور آہستہ آہستہ سردیوں کے دن گزرتے چلے جا رہے تھے۔ شام ہونے لگتی تو ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا یہ احساس ضرور دلاتی کہ سردیوں کے دن ہیں لیکن اصل سردی شائد ان سب سے روٹھ گئی تھی۔
ایسی ہی ایک شام ایک دور کا مسافر رات گزارنے کے لیے وہاں آ گیا۔ لوگوں نے دیکھا تو بھنویں اچکائیں اور اپنی اپنی راہ چل دیے۔ کسی نے آگے بڑھ کر اس سے کچھ پوچھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ کہیں یہ میرے پلے ہی نہ پڑ جائے۔ سب اپنے گھروں کو چل دیے اور وہ مسافر سارے گاؤں میں کسی مسافر خانے کی تلاش میں پھرتا رہ گیا۔ گاؤں میں کوئی مسافر خانہ نہیں تھا ، کوئی ہوتا تو اسے ملتا، پس جب کچھ نہ ملا تو وہ پریشان سا ایک برگد کے درخت کے نیچے آ بیٹھا۔
کچھ دیر گزری تھی کہ ایک آٹھ دس سال کا بچہ وہاں آیا۔ اس نے تن پہ پرانے اور شکستہ سے کپڑے پہن رکھے تھے۔ اس کے ہاتھ میں کھانے کی ایک ٹوٹی ہوئی ٹرے تھی۔ اس نے سلام کیا اور کھانا مسافر کے سامنے رکھ دیا۔ پریشان بیٹھے مسافر کے چہرے کی رونق لوٹ آئی اور اس نے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کھانا کھا لیا۔
کھانے کے بعد بچہ اسے ساتھ لے گیا اور اپنے گھر کے صحن میں بچھی اک چارپائی پیش کر دی۔ چارپائی پہ کوئی بستر نہیں تھا، بس ایک پتلی سی پرانی چادر تھی، جسے اوپر اوڑھا جا سکتا۔ بچہ کہنے لگا
“امی کہہ رہی ہیں کہ معاف کیجیے گا ہمارے پاس اور کوئی بستر نہیں، ورنہ آپ کو ضرور مہیا کرتے۔ اگر آپ کے ٹھہرنے کا کہیں اور بندوبست ہو جاتا تو ہم کبھی آپ کو یہاں نہ لاتے۔ ہم شرمندہ ہیں کہ ایک مسافر ہمارے پاس آیا ہے اور ہم اس کی خدمت نہیں کر سکتے۔ ”
مسافر بچے کے ادب اور اخلاق سے متاثر ہوا۔ اس نے بچے سے اس کے متعلق سوال کیے تو پتا چلا وہ چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے، ان کے والد وفات پا چکے ہیں اور والدہ لوگوں کے کپڑے سی کر گھر کا گزارا چلا رہی ہیں۔ گرمیوں میں گھر میں آگ لگنے سے گھر کے سارے بستر جل گئے تھے اور اب ان کے پاس کوئی بستر یا سردیوں کے کپڑے نہیں تھے۔ بچہ سوالوں کے جواب دے کر گھر کے اندر چلا گیا اور مسافر ان باتوں پہ سوچتا رات کاٹنے لگا۔
اگلی صبح بچہ باہر آیا تو چارپائی خالی تھی، مسافر جا چکا تھا۔ اس کی والدہ کو افسوس ہوا کہ مسافر ناشتہ کیے بغیر چلا گیا۔ کچھ دیر کے افسوس کے بعد وہ گھر کے کام میں لگ گئی۔ دوپہر کا وقت ہو گا جب وہ مسافر دوبارہ سے گاؤں میں لوٹ آیا۔ چوک میں محفل سجائے لوگوں نے نظریں اٹھا کر اسے بغور دیکھا لیکن اس دفعہ ان کی توجہ مسافر پہ نہیں تھی، اس تانگے پہ تھی، جس میں وہ بیٹھا ہوا تھا۔ تانگے میں سامان بھرا ہوا تھا۔ مسافر اس بچے کے گھر کے سامنے پہنچ کر اترا اور سارا سامان اتار کر گھر کے اندر صحن میں رکھ دیا۔ سامان میں گرم بستر، بچوں کے گرم کپڑے اور جرسیاں تھیں۔ پھر اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کہتا یا سمجھتا، وہ پلٹا اور تانگے پہ بیٹھ کر گاؤں سے نکل گیا۔
اس بچے نے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر جب سامان کھولا تو ان کے چہرے کی خوشی دیدنی تھی۔ ان کی ماں اس طرح سامان ملنے پہ کچھ شرمندہ بھی تھی لیکن بچوں کی ضرورت پوری ہونے کی تسلی اس کے چہرے سے چھلک رہی تھی۔ بچے جوش میں جرسیاں پہن پہن کر دیکھ رہے تھے، تبھی انھوں نے ایک جرسی ماں کی طرف بڑھا دی کہ یہ تو آپ کو پوری ہو گی۔ اس نے دیکھا تو ایک گرم جرسی بڑے سائز کی تھی، اس نے خاموشی سے آسمان کی طرف دیکھا اور پانی کے کئی قطرے اس کی آنکھوں سے نکل کر گالوں پہ بہنے لگے۔
اگلی صبح گاؤں والے اٹھے تو کڑاکے دار سردی پڑ رہی تھی، چاروں طرف دھند چھائی ہوئی تھی۔ ٹھنڈی یخ ہوا گھر سے نکلنے والوں کا جسم چیرتی ہوئی جا رہی تھی۔
گاؤں والوں کا مسئلہ حل ہو چکا تھا۔ ایک ہی رات میں موسم بدل گیا تھا، سردی اپنے پورے جوبن پہ آ چکی تھی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں