(دسویں برسی کے موقع پر ایک خراجِ عقیدت)
ادب کی دنیا میں کچھ نام ایسے ہوتے ہیں جو وقت کے دھارے میں مٹ نہیں سکتے۔ ان کے الفاظ، ان کا جذبہ، اور ان کی فکر، ایک مستقل روشنی کی مانند زندہ رہتی ہے۔ لیہ کے شعری افق پر جگمگانے والا ایک ایسا ہی نام منشی منظور حسین میتلا ہے، جو تھل کی مٹی سے جُڑا رہا، مگر اس کی شاعری کی بازگشت کس کس زمین پہ نہ سنی گئی۔ ہجر و وصال کی وارداتوں، دل کے کرب، اور زندگی کی تلخیوں کو اس سادگی سے شعری قالب میں ڈھالنا کہ سننے والا اس میں خود کو مجسم دیکھے—یہ کمال بہت کم شاعروں کو نصیب ہوتا ہے۔ یہی وہ جوہر تھا جو منشی منظور کو مقبولیت کی معراج تک لے گیا۔
کرسٹوفر مارلو (1564-1593) کا نام انگریزی ادب میں اس لیے نمایاں ہے کہ اس نے الفاظ کو ایسا آہنگ دیا جو نہ صرف دلی جذبات کی گہرائیوں میں اترتا تھا بلکہ زندگی اور تقدیر کے پیچیدہ فلسفے کو بھی ایک عام انسان کی سمجھ میں ڈال دیتا تھا۔ مارلو کی شاعری میں عشق، غم، اور تقدیر کا وہی مثلث موجود ہے، جو منشی منظور (1963-2015) کی شاعری میں جھلکتا ہے۔ مارلو نے “ڈاکٹر فاسٹس” میں انسانی خواہشات، ہجر، اور قسمت کی سختیوں کو موضوع بنایا، تو منشی منظور نے “ڈکھی کرکے ٹر گیا ہیں” جیسے گیتوں میں عاشق کے دل پر گزرنے والے حالات کو وہی شدت دی۔
مارلو نے بہت کم عمری میں اپنی شناخت بنا لی، اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے شیکسپیئر جیسے بڑے نام کو بھی متاثر کیا۔ دوسری طرف، منشی منظور نے بھی کم عمری میں عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی جیسے لیجنڈری گلوکار کو ایسے نغمات دیے، جنہوں نے گائیکی کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ دونوں شعرا نے اپنی فکری بلندی سے ثابت کیا کہ شاعری محض الفاظ کا کھیل نہیں، بلکہ یہ دل کی صدا اور روح کی پکار ہوتی ہے۔
منشی منظور کی شاعری میں جہاں محبت کی گہرائی اور فراق کی اذیت ہے، وہیں سرزمینِ تھل کی ثقافت، درد، اور عوامی جذبات کی بھرپور عکاسی بھی موجود ہے۔ ان کے گیت “اج وی سانول یار نئیں آیا” اور “قرار میڈا توں لٹ گِدا ہے” میں جو دکھ اور سوز ہے، وہ کسی بھی حساس دل کے لیے اشک بار ہونے کے لیے کافی ہے۔
ان کے ملی نغمے “میرے وطن! یہ عقیدتیں اور پیار تجھ پہ نثار کر دوں” میں حب الوطنی کی وہ چنگاری موجود ہے، جو سچے محبِ وطن کے دل سے پھوٹی ہے۔ اسی طرح ان کے انقلابی اشعار:
“ملا ہے سر فروشی دا ساکوں درس کربل توں”
“اساں منظور حق سچ ہن الاون چھوڑ نیں سگدے”
ظلم کے خلاف بغاوت کا اعلان ہیں، جو ان کی انفرادیت کا ایک اور پہلو اجاگر کرتے ہیں۔
ایک سچے فنکار کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ صرف اپنے وقت تک محدود نہیں رہتا بلکہ آنے والی نسلوں کے دلوں میں بھی اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔ منشی منظور کا کلام آج بھی سنا، پڑھا، اور گایا جاتا ہے۔ ان کی شاعری کے الفاظ، ان کے خیالات، اور ان کی نغمگی، ہمیشہ تھل کی ہواؤں میں گونجتی رہے گی۔
ڈکھی کرکے ٹر گیا ہیں۔۔۔ مگر لفظوں کی دنیا میں ہمیشہ زندہ رہے گا!
اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین!
——-
تھل کا کرسٹوفر مارلو: منشی منظور میتلا
(دسویں برسی کے موقع پر ایک منظوم خراجِ عقیدت)
شاعر : فــــــــــــــــــــــــاروق نتکانی
یہ خاکِ تھل کی گود میں، اک شعلۂ آواز تھا
جو حرف کو بخشی حیات، اک زندہ تر اعجاز تھا
دیا جسے فطرت نے سوزِ درد و عشقِ بے قرار
کہیں وصالِ یار کی شب، کہیں ہجَر کی تیز دھار
وہ نغمہ گر، وہ شاعری کا سرفراز افتادۂ خاک
کہ جس کی ہر اک بندگی تھی حسنِ حرف و دردِ چاک
ترانۂ غم کی داستاں، دلوں میں ایسا بس گئی
کہ تھل کی ویرانوں میں بھی، یہ گونج زندہ رہ گئی
زمانے نے پایا اسے، اک درویشِ لفظ و بزمِ نغم
کہ جس کے سازِ دل سے پھوٹے، عشق کے بیدار زمزم
جو باندھتا تھا لفظ میں، صدیوں کی تلخیاں کوئی
جو خاک میں رہ کر بھی تھا، خورشید کا ضیاء کوئی
یہی ہے عزتِ سخن، یہی ہے عظمتِ کلام
جو گر گیا خاکِ فنا میں، مگر رہے گا صبح و شام
منشی منظورِ شاعری! یہ بزم تیری یاد میں
ہے نغمہ گر، ہے محوِ گریہ، تھل کی گونج تیری یاد میں
کہاں وہ شب، کہاں وہ دن، جہاں تھا تیرا بانکپن
مگر ترے نغمے رہیں گے، جاوداں تا حدِ سخن
خدا کرے وہ لَے رہے، وہ سوز زندہ جاوداں
جو تُو نے تھل کی مٹی میں، دیا تھا حرف کی زباں
یہ کائناتِ حرف میں، تیرا نشان باقی رہے
تو خود نہ ہو، تیرا سخن، ہر اک جہان باقی رہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں