نرگسیت کا مارا ادیب(1) -آغر ندیم سحر

نرگسیت،نارسیسسٹک پرسنالٹی ڈس آرڈر (Narcisstistic personality disorder) علم نفسیات میں ایک ایسا مرض ہے جس کا شکار فرد اپنے وقار،طاقت اور کامیابی کے گھمنڈ میں اس قدر کھو جاتا ہے کہ اسے اپنے ارد گرد کا ہوش ہی نہیں رہتا،ایسا مریض جہاں ہمہ وقت اپنی ستائش و تعریف کا متمنی رہتا ہے،وہیں وہ اپنے مقاصد اور کامیابی کے حصول کے لیے دوسروں کا استحصال کرنے کو بھی غلط نہیں سمجھتا۔نرگسیت کا مارا شخص دوسروں کا مضحکہ اڑانا،دوسروں کی کامیابی کو تنقید کا نشانہ بنانا اور انھیں رد کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ایسامریض اپنے ادنیٰ کام اور خدمات کو بھی اعلیٰ درجے کا سمجھتا ہے اور دوسروں کے اچھے کاموں کو بھی وقت کا ضیاع اور فضول سمجھتا ہے۔ایسے فرد سے آپ جب بھی ملیں گے،یہ آپ کو ذہنی ٹارچر کرے گا،آپ کا دکھ سکھ سنے بغیر ،اپنی کامیابی کی داستانیں سنائے گا اور جب آپ اسے ٹوکیں گے یا جواب دیں گے تو یہ آپ کو گستاخ اور نااہل کہے گا۔نرگسی مرض کے شکار افراد مسلسل توجہ اور ستائش چاہتے ہیں،انھیں یہ گھمنڈ ہوتا ہے کہ انھیں صرف اعلیٰ درجے کے افراد ہی سمجھ سکتے ہیں،حسد اور کم تر خیالات کی وجہ سے ایسے افراد کا حلقہ احباب بہت مختصر ہوتا ہے۔

نرگسیت کی علامتوں میں چند ایک واضح ہیں،اپنی برتری کا ذبردست احساس،نرگسی مریض ہر وقت لامحدود کامیابیوں، اہلیتوں، قوت، خوبصورتی اور مثالی محبت میں کھویا رہتا ہے،وہ اپنے آپ کو خاص اور بے مثال سمجھتا ہے،وہ تعلقات بھی خاص اور بڑے لوگوں سے قائم کرتا ہے تاکہ وہ خود کو بڑا ثابت کر سکے۔ایسا مریض متکبر ہوتا ہے،وہ خودپسندی کی انتہا کو پہنچا ہوتا ہے،اسے لگتا ہے کہ دوسرے اس سے حسد کرتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے،لوگ اس سے حسد نہیں کرتے بلکہ وہ خود ہر اس شخص سے حسد کرتا ہے جو اس سے آگے نکل رہے ہوتے ہیں۔نرگسی مریض دنیا کی ہر کامیابی،ہر ایوارڈ اورعہدے کا صرف خود کو اہل سمجھتا ہے،اسے لگتا ہے کہ یہ ساری کامیابیاں،صرف میری ہیں،دنیامیں کوئی دوسرا شخص میرا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ایسا مریض استحصال پسند ہوتا ہے،وہ عہدوں،ایوارڈزاور کامیابیوں کے لیے صرف اپنا اور اپنے چند دوستوں کا نام تجویز کرتا ہے،یہ مریض ہر دوسرے کامیاب فرد کا حق مارتا ہے،اسے محفلوں میں نااہل اور نالائق کہتا ہے۔

ہمارے ارد گرد ایسے مریضوں کی بہتات ہے مگر میں صرف شعبہ ادب کو دیکھوں گا،اس عظیم اور خوبصورت شعبے میں ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد احساس ہوا کہ میرے ارد گرد کتنے ہی ایسے مریض موجود ہیں جنھیں باقاعدہ علاج کی ضرورت ہے،انھیں کسی اچھے نفسیات دان سے ملنا چاہیے یا پھر ہمیشہ کے لیے ’’فاونٹین ہائوس‘‘ منتقل کر دینا چاہیے۔یہاں کا ادیب نرگسیت کی انتہا کو پہنچا ہوا ہے،فکشن لکھنے والا شاعروں کو فارغ سمجھتا ہے اور شاعر،فکشن لکھنے والوں کو،نقادوں کی مہربانی کہ وہ سب کو رگڑا لگا دیتے ہیں،ان کی نزدیک اردو میں ’’اعلیٰ ادب ‘‘نہ ہونے کے برابر ہے۔صحافتی تحریریں اور ڈرامہ لکھنے والے تو ویسے ہی قلم کاروں کے طبقے سے باہر کر دیے جاتے ہیں کہ ان کا ادب سے کیا کام۔اب سوال یہ ہے کہ پھر اعلیٰ صنف کون سی ہے اور اعلیٰ ادب کون سا؟ہر آدمی اپنی لکھی تحریر کو الہام سمجھتا ہے اور دوسروں کو چربہ یا نقل،تو پھر اعلیٰ کون اور ادنیٰ کون۔نرگسیت کا مارا ادیب ،صرف اپنے لکھے کو مانتا ہے،باقی سب کو رد کرتا ہے کیونکہ رد میں ہی اسے اپنی بقا دکھتی ہے،اگر وہ دوسروں کو رد نہیں کرے گا تو خود کو تسلیم کیسے کروائے گا۔نرگسی مریض کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے ہر بڑی کانفرنس اوربڑے ایوارڈ شو میں اپنا نام چاہیے،وہ تقریبات کے انتخاب کے معاملے میں بھی بہت حساس ہوتا ہے،وہ تقریب میں شرکت کا فیصلہ میزبان کے قد کو دیکھ کر کرتا ہے،اسے اگر کسی عام دعوت میں محض اس لیے شریک نہیں ہوتا کہ اس کا خودساختہ وقار مجروح نہ ہو جائے،لوگ یہ نہ سمجھنے لگ جائیں کہ یہ تو آسانی سے میسر آ جاتا ہے،یہ کیسے بڑا ادیب ہو سکتا ہے۔اس بیماری کا شکار ادیب تقریب میں شرکت سے پہلے میزبانوں کو تاکید کرتا ہے کہ مجھے اسٹیج پر بٹھایا جائے،مجھے بطور صد یا مہمان خاص مدعو کیاجائے،مجھے سینئرز مقررین میں رکھا جائے،میں بھلے تقریر مختصر کروں مگر تعارف طویل ہونا چاہیے۔نرگسی مریض اپنے تعلقات بھی بڑے لوگوں سے قائم کرتا ہے،معاصرین یا جونیئرز سے سلام لینا بھی پڑے تو ایک انگلی یا آدھے ہاتھ پر اکتفا کرتا ہے،پورا ہاتھ بھی اس لیے نہیں ملاتا کہیں یہ بے تکلفی اس کے قد کو کم نہ کر دے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نرگسیت کا مارا ادیب،ہمہ وقت مایوس دکھائی دے گا،ادب کے معاملے میں تشویش میں مبتلا رہے گا،آپ سے جب بھی ملے گا،شاعری ،فکشن اور تنقید کے معاملے میں پریشان ہوگا کہ مستقبل میں ان اصناف کا کیا بنے گا،میرے بعد اس سماج کو کوئی بڑا اور زیرک ادیب ملے گا بھی یا نہیں،وہ اپنے معاصرین اور جونیئرز کے کام کو چھان بورا کہے گا ،ایسا شخص سینئرز کو بھی مجبوری میں تسلیم کرتا ہے۔نرگسی ادیب ہر اس مشاعرے کو فضول سمجھے گا جس میں اس کا نام نہیں ہوگا،ہر اس کانفرنس یا فیسٹیول کو غیر اہم سمجھے گا جس میں اس کا مقالہ یا گفتگو نہیں ہوگی،ہر ایسے مذاکرے اور مکالمے کو وقت کا ضیاع سمجھے گا جس میں اس کا اپنا نام نہیں ہوگا۔نرگسی ادیب صرف اسی صنف کو تسلیم کرتا ہے،جس میں وہ خود رواں ہے،باقی تمام اصناف اس کے نزدیک غیر اہم ہیں،یہی وجہ ہے کہ دیگر اصناف میں لکھنے والوں کو وہ ایک لائن میں کھڑا کر کے گولی مارنے کا قائل ہوتا ہے۔
جاری ہے

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply