افسانہ: اللہ اکبر /محمد ہاشم خان

وہ ٹیوشن سے نکلا، کتابیں بغل میں دبائے سڑک پر آیا اور اپنے گھر کی جانب رواں ہوا ۔ ابھی اس نے تھوڑی ہی مسافت طے کی تھی کہ تین چار چرسی آپس میں جھگڑا کرتے ہوئے سامنے آن کھڑے ہوئے، یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا تھا، بلکہ اکثر اس طرح کے مناظر آئے دن رونما ہوتے رہتے تھے۔ اس نے بچ کر نکلنے کی کوشش کی کہ عین اسی لمحے پیچھے سے آ رہی ایک گاڑی نے ٹھوکر مار دی۔۔۔ایک ہی بچہ ہو اور جوان ہوتے ہی یوں ایک دن اچانک مر جائے تو پیغمبرانہ صفات کے حامل افراد بھی ٹوٹ جاتے ہیں وہ تو خیر نہ پیغمبر تھا اور نہ ہی پیغمبروں جیسی کوئی ایک آدھ صفت اس کے اندر تھی۔ اوسط ذہن سے قدرے اوپر کا ایک انسان جس کے شب و روز جینے میں کم اور مرنے میں زیادہ صرف ہو رہے تھے- سو وہ ٹوٹ گیا اور جب اس کی بیوی نے کہا کہ میرا بیٹا مر ا نہیں ہے بلکہ اس نے تمہارے گناہوں کا کفارہ ادا کیا ہے تو وہ اور زیادہ ٹوٹ گیا۔ کفارہ؟ گناہوں کا؟ کون سا گناہ؟ یہ کیا بات ہوئی ۔ ایک عام سی زندگی ملی۔ اب تک وہی جی ہے، بغیر کسی شکوے شکایت کے۔ اس کے علاوہ تو اور کوئی گناہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دونوں کو ایک دوسرے کی شدید ضرورت تھی دونوں دو مخالف سمتوں میں کھڑے تھے۔۔۔ یہ مڈلائف کرائسس کے بعد کا پیریڈ تھا۔ جوان بیٹے کی بے وقت موت نے دونوں کو توڑ دیا تھا اور اب ہر طرف سوگ کا سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ گھر میں دو زندہ لاشیں بچی تھیں جو بھولے بھٹکے سے ایک دوسرے سے ٹکرا جاتی تھیں جیسے دو آتمائیں دو منسلک قبروں سے نکلی ہوں اور ۔۔۔۔

اس کی بیوی دوہرے غم سے دوچار تھی، اس کو یہ خوف بھی لاحق تھا کہ اس کا شوہر کہیں دوسری شادی نہ کر لے، اس طرح کے حالات میں عموماً ایسا ہی ہوتا ہے اور یہی بات تعزیت کرنے والی کئی خواتین بھی دہرا چکی تھیں۔شادی وہ آرام سے کر سکتا تھا۔ابھی تو اس کی عمر پڑی ہوئی تھی۔ لیکن اس نے نہ تو ایسا سوچا اور نہ ہی ایسا کیا۔ رات کے بیٹھکوں میں اس کے کئی دوستوں نے سمجھایا بھی لیکن وہ راضی نہیں ہوا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں قیامت کے دن اپنے بیٹے سے ایسے نہیں ملنا چاہتا کہ اس کی آنکھوں میں سوال ہو اور میرے اندر آنکھ ملانے کی ہمت نہ ہو۔ اب جو ہوا سو ہوا۔اللہ کی یہی مرضی تھی یہی سہی۔
اس کی بیوی ڈپریشن میں چلی گئی۔ اب بیٹے کی موت کا غم اتنا بڑا غم نہیں رہ گیا تھا جتنا یہ خوف کہ اگر اس کے شوہر نے دوسری شادی کر لی تو میرا کیا ہوگا۔میرا تو اس دنیا میں اب کوئی نہیں بچا، کہاں جاؤں گی پہاڑ سی یہ زندگی کیسے سر ہوگی؟ وہ جتنا زیادہ سوچتی عبادات میں مصروف ہونے کا اس کا دورانیہ بڑھتا جاتا۔ وقت گزر رہا تھا لیکن وہ دونوں اپنی اپنی جگہ پر منجمد ہو گئے تھے۔جب ضرورت ہوتی خامشی ٹوٹ جاتی لیکن جو بعد پیدا ہوا تھا وہ برقرار رہا۔ یونہی ایک رات اس کی بیوی نے دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کی تصویریں دیکھ رہا ہے اور زار و قطار روئے جا رہا ہے۔ پہلی بار اس کو احساس ہوا کہ صرف میں نے ہی سب کچھ نہیں کھویا ہے اس نے بھی کھویا ہے، اس نے بھی اپنا جوان بیٹا کھویا ہے، تنہا صرف میں نہیں ہوئی ہوں یہ بھی ہوا ہے۔ وہ بھی آگئی، ضبط کا بند ٹوٹ گیا، تصویر ایک ، پکڑنے والے ہاتھ دو تھے، پکڑے رہے، روتے رہے، اس دوران کسی اور شے نے کلام نہیں کیا، غبار چھٹ چکا تھا، واہموں کا بت پاش پاش ہوگیا تھا۔
زندگی معمول کی طرف لوٹ رہی تھی، اب اس نے باقاعدہ مسجد جانا، وہاں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا، دین کی باتیں سیکھنا شروع کر دیا تھا۔ امام صاحب، موذن اور متولیوں کے ساتھ اس کا ربط ضبط بڑھ گیا، اب وہ دینی معاملات اور اجتماعات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا، قرب و جوار میں واقع تین مسجدوں میں اس نے ایصال ثواب کے لیے اپنے بیٹے کے نام مصلے خرید لیے تھے۔ داڑھی رکھ لی تھی، چہرے پر نور آ گیا تھا،طمانیت قلب اب پہلے سے زیادہ تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ بطور انسان وہ اب اور زیادہ اچھا ہو گیا ہے۔ جب وہ دونوں حج کرکے واپس آئے تو اسے معلوم ہوا کہ جماعت کے امیر کا انتخاب ہو رہا ہے۔موجودہ امیر سے لوگ خوش نہیں تھے لیکن یہی بات اعلانیہ کہنے سے ڈرتے تھے۔ اس نے مکہ اور مدینہ سے امام صاحب کے لیے لایا ہوا تحفہ دیا، امام صاحب بہت خوش ہوئے اور ڈھیر ساری دعائیں دی۔اس نے انتخاب کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امام صاحب سنا ہے آپ الیکشن لڑ رہے ہیں یہ تو بہت ہی اچھا فیصلہ ہے۔ امام صاحب فرمانے لگے کہ اللہ کے بندے کسی نے غلط خبر اڑا دی ہے، یہ امارت وغیرہ میرے بس کی بات نہیں، آپ شریف انسان ہیں ان سب جھمیلوں میں نہ پڑیں، اللہ اللہ کریں اور جو ہو رہا ہے اسے اللہ کے حوالے کردیں۔ اس نے امام صاحب کو حق گو اور بہادر پایا تھا اور ان سے یہ بالکل امید نہیں کر رہا تھا کہ وہ اس قدر اہم مسئلے سے خود کو لا تعلق رکھیں گے۔اس نے کہا کہ شیخ بیس سال ہو گئے، ان بیس سالوں میں ایک بھی قابل ذکر تعمیری کام نہیں ہوا ہے، ہماری کمیونٹی کو مسجدوں کے علاوہ اچھے اسپتال، اسکول اور کالجوں کی بھی ضرورت ہے۔اب کسی اور کو آگے آنا چاہئے، کم از کم نوجوانوں کو تو آگے آنا چاہئے، اب حالات اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ کوئی انتہائی خراب بندہ آ جائے تو بھی چلے گا یہ جو بیس سال سے فوکٹ میں کرسیاں توڑ رہے ہیں یہ تو جائیں۔ امام صاحب کہنے لگے کہ افضل بھائی، ہم دنیاوی جماعت نہیں ہیں، ہم صحابہ کی جماعت ہیں، یہ اسپتال، اسکول، کالج یہ سب بنانا ہمارا کام نہیں ہے، ہاں اگر کوئی خود بناتا ہے تو جماعت سے جو ہوسکے گا وہ جماعت کرے گی، لیکن اگر آپ ہم سے یہ امید کرتے ہیں کہ یہ کام ہم خود کریں تو یہ ہمارا کام نہیں۔ ہمارا کام دعوت و تبلیغ کا ہے، اپنا عقیدہ پھیلانے کا ہے اور ماشاء اللہ وہ کام ہم بحسن و خوبی کر رہے ہیں۔
افضل بھائی کہنے لگے کہ شیخ اس کام لیے تو ہماری مسجدیں اور مدرسے کافی ہیں، اس کے لیے تنظیم کی کیا ضرورت؟ امام صاحب نے موضوع سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ عشا کا وقت ہوا چاہتا ہے اس پر پھر کبھی تفصیلی بات کریں گے ویسے میرا مشورہ تو یہ ہے کہ آپ کو جماعت و جمعیت کے مسائل میں نہیں پڑنا چاہئے۔
عشا کا وقت ہو گیا، نماز ہوگئی، امام صاحب اپنے حجرے میں چلے گئے اور وہ اپنے گھر چلا آیا، تفصیلی گفتگو کا موقعہ واپس کبھی نہیں آیا۔
وہ امام صاحب کی وضاحت سے مطمئن نہیں ہوا، جماعت کی مقصدیت کے حوالے سے انہوں نے جو کچھ کہا تھا وہ دل میں نہیں اتر سکا۔ وہ یہی سوچ رہا تھا کہ آخر کیا بات ہے، کچھ دن قبل تک تو یہی امام صاحب امیر جماعت کے پیچھے پڑے تھے اور اب کہہ رہے ہیں جو چل رہا ہے چلنے دو، کہیں ایسا تو نہیں کہ امام صاحب نے سمجھوتہ کر لیا ہو، ایسا ہو سکتا ہے مگر ایسا ہونا نہیں چاہئے۔ وہ اپنی انہیں سوچوں میں غرق تھا کہ اس کی بیوی کھانا لے کر آگئی اور اسے متفکر دیکھ کر پوچھ بیٹھی کافی پریشان لگ رہے ہیں خیریت تو؟ ہاں سب ٹھیک ہے امام صاحب سے ملنے گیا تھا۔ انہیں تحفے بہت پسند آئے۔ پھر تو آپ کو خوش ہونا چاہئے۔
فکر کی بات یہ ہے کہ امام صاحب نے اپنے ضمیر کا سودا کرلیا ہے، پہلے وہ جس شخص کے سب سے زیادہ مخالف تھے اب اسی کو سب سے اچھا کہہ رہے ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ اپنی قوم کی ضرورتوں کے بارے میں سوچنا جماعت کا کام نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ قوم ہے تو عقیدہ ہے جب قوم ہی نہیں رہے گی تو عقیدہ کیا کرے گا، یا یوں کہہ لو کہ جب قوم کمزور ہوگی تو اس کا عقیدہ بھی کمزور ہوگا۔ اتنی سی بات یہ لوگ کیوں نہیں سمجھ رہے ہیں۔

julia rana solicitors london

اس کی بیوی نے کہا کہ یہ سب سمجھتے ہیں بس چاہتے نہیں کہ قوم ترقی کرے کیوں کہ پھر سماج میں ان کی اپنی اہمیت ختم ہو جائے گی۔ جب تک بحران ہے تب تک ان کی اہمیت ہے، بحران ختم اہمیت ختم۔
اب مسجد کے ساتھ اس کا تعلق کم ہوتا جا رہا تھا کیوں کہ اس نے محسوس کیا کہ سارے نمازیوں کا رویہ بدل گیا ہے۔ جب اس نے حالات کا تنقیدی جائزہ لیا تو اسے بہت سارے تضادات نظر آئے اور ان تضادات نے اس کے اندر شکوک و شبہات کو جنم دیا۔
امام صاحب کہتے ہیں کہ سچ بولو اور جب آدمی سچ بولتا ہے تو اسے خاموش کر دیا جاتا ہے۔یہ صحابہ کے واقعات اتنے رقت آمیز انداز میں سناتے ہیں کہ آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں لیکن جب انہیں صحابہ کے نام پر ان کا احتساب کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ کیا تمہیں ہم پر بھروسہ نہیں ہے تم ہمیں چور اور خائن سمجھتے ہو۔جب ہم کوئی غلط کام کرتے ہیں تو وہ غلط ہوتا ہے اور جب وہی کام یہ کرتے ہیں تو وہ درست ہو جاتا ہے۔ امیر صاحب نے کہا کہ سود حرام ہے لیکن ان کا بیٹا سود کے پیسے سے بلڈنگ بنا رہا ہے، امیر صاحب کہتے ہیں کہ ان سے زیادہ ذہین متقی اور پرہیزگار کوئی نہیں کیوں کہ اگر کوئی ہوتا تو وہ امارت اسے سونپ چکے ہوتے۔ جب امیر صاحب سے کہا جاتا ہے کہ بیس سال میں اگر آپ اپنا جانشین نہیں تیار کر سکے ہیں تو یہ آپ کی ناکامی ہے، جس پر ان کے چمچے کہتے ہیں کہ امیر صاحب ہیں ہی اس قابل کہ ان کا کوئی جانشین نہیں ہو سکتا۔ المیہ یہ ہے کہ جب یہ ذمہ داری اٹھانے کے لیے کوئی بندہ آگے بڑھتا ہے تو اسے اٹھوا لیا جاتا ہے۔اے میرے اللہ تونے ان کے خمیر میں یہ کیا تضاد رکھ دیا ہے، یہ تضاد بھی نہیں یہ تو صریح منافقت ہے تو کیا یہ سب منافق ہیں؟ خدا معلوم۔ اس کی الجھنیں بڑھتی جا رہی تھیں، موٹی موٹی بات یہ سمجھ میں آئی کہ مذہب کے اندر جتنا زیادہ وہ گھستا جائے گا اتنی ہی اس کی بے چینی، الجھن اور کنفیوزن بڑھتا جائے گا لہٰذا بہتر یہی ہے کہ صرف کام سے کام رکھا جائے۔
اب اس نے اپنی سرگرمیاں محدود کر لی تھیں،اس کے لیے اب مذہب میں اتنی کشش نہیں رہ گئی تھی، اب اس کا دل اچاٹ ہو گیا تھا اور تذبذب بڑھتا جا رہا تھا۔ دوسری جانب مقامی جمعیت کی انتخابی مہم زوروں پر تھی، مساجد میں روز اجتماعات ہو رہے تھے ، امیر محترم کی بیس سال کی مساعی جمیلہ کا یوں تذکرہ کیا جا رہا تھا گویا وہ مہدی موعود ہوں۔اگر وہ نہ آتے تو قعر مذلت میں قوم کا ڈوبنا طے تھا۔بر سر اقتدار جماعت کے مخالفین برائے نام تھے، چند نوجوان تھے بس۔ سب کو معلوم تھا کہ کوئی تبدیلی نہیں آنے والی ہے، یہ انتخاب وغیرہ رسمی خانہ پری ہے بس۔ کچھ لوگوں کے بارے میں یہ گمان تھا کہ وہ امیر صاحب کو کانٹے کی ٹکر دے سکتے ہیں ، لیکن جب دم اٹھا کر دیکھا گیا تو وہ مادہ نکلے۔ وہ سوچنے لگا کہ اتنی بڑی جماعت اور کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھ رہی ہے یہ جماعت درست کیسے ہوسکتی ہے۔
اس نے اپنی سرگرمیاں تو محدود کر لی تھیں لیکن کچھ نہ کچھ واقعات بیچ میں ایسے ہو جاتے تھے جہاں اسے جمعیت کی شدید ضرورت محسوس ہوتی تھی۔
رات دیر جب وہ گھر پہنچا تو اس نے بیوی کو منتظر پایا۔ بیوی کے چہرے پر لکھا سوال پڑھ لیا۔اسپتال گیا تھا، تمہیں یاد ہے وہ لڑکی زینب کچھ دن قبل جو نیم مردہ حالت میں کچرے کے ڈھیر پر پائی گئی تھی؟ ہاں دل دہلا دینے والا یہ واقعہ بھلا کون بھول سکتا ہے۔آٹھ سال کی بچی کے ساتھ۔۔۔سن کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ تم سے ایک اور بچی کا ذکر کیا تھا میں نے، کون سی بچی ؟ ارے وہی فاقے کی وجہ سے جس کی انتڑی سوکھ گئی تھی۔ وہ بچی بھی مر گئی۔ دو جنازوں کو کندھا دے کر آ رہا ہوں۔۔۔
زینب کا قاتل پکڑا گیا؟ اس کی بیوی نے پوچھا
ہاں وہ تو پکڑا گیا لیکن دوسری کا نہیں۔ دوسری کے قاتل کو کیسے پکڑیں وہ تو ہم سب ہیں۔
کون ہے قاتل؟ ہے ایک چرسی۔ وہ جو اپنے حاجی مختار سیٹھ نہیں ہیں انہیں کا بھانجا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج بہت دنوں بعد وہ اپنے بیٹے کی قبر پر فاتحہ پڑھنے آیا تھا۔ اس کی آنکھیں آنسووں سے خالی اور ویران تھیں، دعاؤں میں کوئی رقت نہیں، وہ خود اپنے اس رویے پر حیران تھا کہ کوئی کیفیت کیوں نہیں پیدا ہو رہی ہے، یوں ہی خیال گزرا کہ اس کا بیٹا اس سے ناراض ہے۔ قبرستان سے نکلنے کے بعد وہ سیدھا امام صاحب کے پاس گیا اور حجرے میں داخل ہو گیا۔
اس کا یوں دندناتے ہوئے حجرے میں داخل ہونا اچھا نہیں لگا لیکن انہوں نے اس کا اظہار نہیں کیا۔
بہت دنوں بعد آپ کا دیدار ہو رہا ہے، سب خیریت تو۔ امام صاحب نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
خیریت ہی تو نہیں ہے شیخ اور یہی بتانے میں یہاں آیا ہوں۔
شیخ میں یہ کہنے آیا ہوں کہ قیامت کے دن آپ کا گریبان ضرور پکڑوں گا۔آپ نے دھوکہ دیا ہے، ہم کو قوم کو سب کو۔
کیا بکواس کرتے ہوئے
بکواس نہیں کر رہا ہوں شیخ۔ ایک چھوٹا سا محلہ، چھوٹی سی آبادی اور پانچ سے زائد مساجد، روز کی نمازیں اور جمعہ کے خطبے علاوہ ازیں دینی جلسے الگ سے۔یہ سب کہاں جا رہے ہیں ہمارا معاشرہ کیوں نہیں سدھر رہا ہے شیخ۔زینب کا ریپ ہو گیا، آٹھ سال کی بچی، ہمارے ہی محلے میں۔ریپ کرنے والا ہمارے حاجی صاحب کا بھانجا، سوچیں آپ، کلثوم مر گئی، سات سال کی بچی۔باپ کی غیرت نے اسے بھوکا رکھا، انتڑی سوکھ گئی۔ اس کا باپ روز نماز پڑھنے آتا تھا لیکن اسے یہ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ اس کے گھر میں بھکمری چل رہی ہے۔ وہ سب سے نہیں تو کم از کم آپ سے کہہ سکتا تھا، لیکن آپ سے بھی نہیں کہا کیوں کہ آپ نے اپنے اور عوام کے درمیان ایک فاصلہ قائم کررکھا ہے۔
ایک سات سال کی اور ایک آٹھ سال کی بچی۔۔۔دونوں کا قصور کیا تھا شیخ، جاکر ان کے ماں باپ سے ملیں اور پوچھیں کہ ایمان مزید پختہ ہوا ہے یا نہیں۔ان کا یہی جواب ہوگا کاش یہی سوال ہم آپ سے پوچھ سکتے۔ وہ فلاں کی لڑکی جانتے ہیں شیخ ارے وہی اپنے ٹنگو مولوی کی بیٹی،اس کی شادی نہیں ہو رہی تھی، عمر نکلی جا رہی تھی، وہ کسی ہندو کے ساتھ بھاگ گئی ہے، شیخ آپ کو بتاؤں کہ ہر ماہ تین چار لوگ چرس پی کر مرتے ہیں۔ شیخ جو پہلے سے مسلمان ہیں انہیں مزید مسلمان بنانے کے عمل یا کاوش کو تبلیغ نہیں وسائل کی بربادی یا ترجیحات کا فقدان کہتے ہیں۔ شیخ اس دن سے ڈریں جب آپ کے اعضا آپ کے خلاف گواہی دیں گے۔وہ یہ کہتے ہی جھٹکے سے اٹھا اور دعا سلام کیے بغیر چلا آیا۔ امام صاحب اسے جاتا ہوا دیکھتے رہے، ایک جملہ بار بار ان کے ذہن میں گونجتا رہا، ایمان مزید پختہ ہوا یا نہیں، کاش یہی سوال ہم آپ سے پوچھ سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔
جمع کا وقت ہو گیا تھا، مسجد کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ امام صاحب، حجرے سے نکلے، منبر پر چڑھے، خطبہ مسنونہ پڑھنے کے بعد بیٹھ گئے، دیر تک بیٹھے رہے، ان کے ذہن میں افصل بھائی کی کہی ہوئی باتیں گونج رہی تھیں، ایک چھوٹا سا محلہ، چھوٹی سی آبادی ، پانچ سے زائد مساجد، روز کی نمازیں اور جمعہ کے خطبے ، علاوہ ازیں دینی جلسے الگ سے، کوئی اثر کیوں نہیں ہو رہا ہے، زینب مر گئی، کلثوم بھی، عابدہ نے بھاگ کر کسی ہندو سے شادی کر لی،مختار سیٹھ کا بھانجا ضمانت پر آزاد گھوم رہا ہے۔۔۔
۔ لوگوں نے کھنکھار کر یاد دلانا شروع کر دیا ۔ شیخ صاحب اٹھے اور بہت ہی رقت آمیز لہجے میں گویا ہوئے۔میرے دینی بھائیو! تقریروں کا کوئی فائدہ نظر نہیں آ رہا ہے، آج کوئی خطبہ نہیں ہوگا،اپنی صفیں درست کر لیں، کندھے سے کندھا ملا لیں۔ اللہ اکبر۔

Facebook Comments

محمد ہاشم خان
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں (مصنف افسانہ نگار و ناقد کے علاوہ روزنامہ ’ہم آپ‘ ممبئی کی ادارتی ٹیم کا سربراہ ہے) http://www.humaapdaily.com/

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply