مائنڈ سیٹ/ اختر شہاب

ہمارے دو مہربان ہیں،دونوں ہی ڈاکٹر ہیں اور دونوں ہی فلاحی کام کرتے ہیں اور اتفاق یہ ہے کہ دونوں ہی دوسرے کاموں کے ساتھ ساتھ عوام کو پانی کی فراہمی کے سلسلے میں اپنی اپنی این جی او سے کام کرنے میں پیش پیش ہیں۔ ان میں سے ایک عسکری ادارے سے ریٹائر ہوئے ہیں جبکہ دوسرے کسی ادارے میں نہیں گئے اورخاموشی سے پانی کی فراہمی کے علاوہ بھی دوسرے فلاحی کاموں میں مصروف رہتے ہیں جن میں نادار مریضوں کا خیال رکھنا بھی شامل ہے ۔ وہ جتنی ضرورت ہوتی ہے اتنا ہی بتاتے ہیں جبکہ دوسرے مہرباں ڈاکٹر فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ کتابی کام بھی کرتے ہیں اور اس کے علاوہ شاید خود نمائی کے لئےسوشل میڈیا پر فلاحی اور کچھ ذاتی اور التجائی پوسٹیں بھی ڈالتے رہتے ہیں۔اب  ہوتا یوں ہے کہ جو سول سائیڈ کے ڈاکٹر ہیں ان کی پوسٹ پر گنتی کے چند ایک کمنٹس ہی آتے  ہیں جبکہ عسکری ادارے والے ڈاکٹر صاحب کی پوسٹ پر تعریفی کلمات بہت ہوتے ہیں۔

پچھلے دنوں انہوں نے ایک التجائی پوسٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ڈاکٹر ، انجینئر، بیوروکریٹس اور جج صاحبان سب 60 سال کے ہو کر ریٹائر ہو جاتے ہیں مگر سیاستدان اور مولوی ہیں کہ کبھی ریٹائر نہیں ہوتے ۔ اس پہ ایک اور ستم کہ سینئر فوجی خود کو کبھی ریٹائر سمجھتے نہیں۔ ان سب سے صرف تب جان چھوٹتی ہے جب یہ قتل ہو جائیں ۔ کسی جلسے میں بم دھماکے میں شہید ہو جائیں ۔ طبعی موت مر جائیں ۔ نامعلوم افراد ان کو غائب کردیں یا غدار کے لیبل کے ساتھ ملک سے کوچ کر جائیں ۔

کیا کوئی طریقہ ، کوئی قانون ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ سب بھی ایک عمر کے بعد ہمیشہ کیلئے ریٹائر ہو جائیں اور نئی نسل کو موقع ملے کہ وہ ملکو قوم کی باگ دوڑ سنبھال لے ۔ اس سے ایک اضافی فائدہ یہ بھی ہوگا کہ جو واقعی چور اُچکے ہیں وہ منظر سے بتدریج غائب ہوتے جائیں گے ۔ کہ یہ تو سب ریٹائر ہو جاتے ہیں لیکن سیاست دان اور مولوی کبھی ریٹائر نہیں ہوتے ۔ محکموں کے سربراہ ایکسٹینشن لینا بند کر دیں ۔ ریٹائرڈ فوجی   دوبارہ نوکریاں نہ لیں تو نوجوان نسل سامنے آئے  گی جو اس ملک اور قوم کو بہتر طریقے سے چلا سکے گی، وغیرہ وغیرہ۔

اس پر ہمارے ایک دوست نے ان کی اس التجا کی تعریف کرتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ یہ تو بعد  کی باتیں ہیں ابھی تو سب سے پہلے آپ اپنے نام کے ساتھ عسکری عہدہ لکھنا بند کر دیں، تبھی آپ کو ریٹائر سمجھا جائے گا۔
“کیوں چھوڑ دوں ۔ مجھے یہ حق آئین نے دیا ہے اور کورٹ مارشل کے بغیر میں عہدے لکھنا نہیں چھوڑ سکتا۔ آپ مجھے پریشان حال لگتے ہیں ۔” یہ بات ان صاحب کو بہت بری لگی اور انہوں نے جواب دیا۔

جواباً انہیں یہ بات کہی گئی کہ۔۔ مجھے آپ کے رینک سے مسئلہ نہیں آپ کی سوچ سے مسئلہ ہے۔ آپ یہ عہدہ لکھ کر لاشعوری طور پر سامنے والے  پر رعب یا دہشت ڈالتے ہیں اور یوں ریٹائر ہونے کے باوجود بھی آپ ریٹائر نہیں ہوتے۔ تو انہوں نے یہ عرض کرنے والے کو ہی بلاک کر دیا۔ یوں بھی وہ اپنی پوسٹوں میں دھڑلے سے ہیش ٹیگ لگا کر اپنا فوجی عہدہ لکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ریٹائرڈ لکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔(شاید آئین نے انہیں اس کی بھی اجازت دی ہوئی ہے۔)

یہ رعب ڈالنا بعض لوگوں کی نفسیات میں اس طرح رچ بس جاتا ہے کہ وہ تو مرنے کے بعد بھی اپنے کتبے پر اپنا عہدہ یا ڈگریاں لکھوانا پسند کرتے ہیں۔

انہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ دنیا میں دو ہی پروفیشن ہیں جو اپنے نام سے پہلے وضاحتی عہدہ لکھتے ہیں جن میں ڈاکٹر اور عسکری عہدے دار شامل ہیں۔ ملک بھر میں بہت سی پوسٹوں سے بہت سے پروفیسر انجینیئر اور صاحبان علم و ادب ریٹائر ہوتے ہیں لیکن   ریٹائرمنٹ کے بعد ان میں سے کوئی بھی اپنا عہدہ اپنے نام کے ساتھ نہیں لگاتا الّا یہ کہ اس کی ضرورت ہو۔ ہاں! کبھی کبھار کچھ جلن اور حسد میں لوگ اپنے نام سے پہلے انجینئر وغیرہ لگا لیتے ہیں لیکن یہ کوئی اکا دکا مثال ہی ہوتی ہے۔

ویسے اس بات پرسوال تو بنتا ہے کہ وہ ڈاکٹر بھی ہیں اور فوجی عہدے دار بھی اور اگر انہیں قوم کا اتنا ہی درد ہے تو  بجائے اس کے کہ وہ “ڈاکٹر”کا سابقہ اپنے نام کے ساتھ لگاتے انہوں نے عسکری عہدے کا سابقہ لگانا ہی کیوں پسند کیا۔؟

اس کی بنیادی وجہ وہی ہمارا مائنڈ سیٹ ہے کہ اگر وہ ڈاکٹر کا عہدہ ساتھ لگاتے تو انہیں بعد میں اپنےعسکری عہدے کی بھی وضاحت کرنا ہوتی ۔ یا وہ دونوں عہدے بھی ساتھ لکھ سکتے تھے جیسے ہمارے پرانے محلے میں ایک کیپٹن (ر) ڈاکٹرصفدر ابدالی ہو اکرتے تھے لیکن شاید ان کے علم میں تھاکہ لوگ عسکری عہدوں سے جلدمرعوب ہو جاتے ہیں اور ویسے بھی یہ ہماری  قومی نفسیات بن گئی ہے کہ ہم دوسروں پر اپنے عہدے کا اور اپنی حیثیت کا رعب ڈال کر انہیں مرعوب کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔سو انہوں نے اپنے نام میں سے ڈاکٹر ہٹا دیا۔ یا پھراس کی ایک اور وجہ ان کی عسکری نفسیات بھی ہو سکتی ہے جس کے سحر سے وہ ابھی تک باہر نہیں نکلے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس موضوع پر ہم نے اپنے ایک دوست سے بات کی اور کہا کہ جب آپ ایک انگلی کسی دوسرے کی طرف اٹھاتے ہیں تو باقی تین آپ کی طرف اٹھی ہوتی ہیں۔
“اسی لیے میں ایک کے بجائے چاروں انگلیاں دوسرے کی طرف اٹھا دیتا ہوں تاکہ اس قسم کا سوال ہی نہ پیدا ہو۔”وہ ہنسے اور انہوں نے جواب دیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply