آج تم بھی ڈھیروں مٹی تلے جا سوۓ۔
آج دوپہر جب میں واٹس اپ پر آۓ پیغامات دیکھ رہی تھی کہ آرٹس کونسل سے آنے والا نماز جنازہ کا پیغام فون کے پردے پر جھلملایا میں نے عادت کے مطابق پیغام کھولا کسی ممبر کی زوجہ کے گزر جانے اور نماز جنازہ کا اعلانیہ تھا۔ اسے پڑھتے
ہوۓاحساس ہوا کہ ایک پیغام اور بھی ہے۔ پردہ فون کو آگے بڑھانے پر جو پیغام سامنے آیا اس نے مجھے ہلا دیا۔
وہ مشکور رضا کے دنیا سے گزر جانے اور تدفین کے پروگرام کا اعلانیہ تھا۔
مشکور!
تم کئ برسوں سے ڈائیلیسس کروا رہے تھے اس سلسلے میں ہفتے میں تین بار حاضری لگوانے ہسپتال جاتے تھے۔ اس ایک دن آرام کرنے کے بعد دوسرے دن تم پھر رنگوں اور برش کی دنیا میں گم ہوجاتے تھے کہ رنگ،برش،کینوس اور ایزل ہی تمہاری دنیا تھی۔
آج دوپہر سے مجھے تمہاری وہ شکل بار بار یاد آرہی ہے ،جب ہماری پہلی ملاقات ہوئ تھی۔
وہ ۱۹۷۸یا ۱۹۷۹ کی ایک نرم گرم سی صبح تھی۔ تم سفید کرتے پاجامے میں ملبوس، بالوں کو سلیقے سے جماۓ، ناظم آباد کے ایک گول برآمدے والے گھر میں ہمارے منتظر تھے۔ باتوں کا سلسلہ شروع ہوا لیکن تھوڑی دیر بعد مجھے احساس ہواکہ بات بن نہیں رہی کیوں کہ میرے پانچ منٹ کی طوالت پر محیط سوال کا جواب تم آدھے منٹ میں نمٹا دیتے تھے۔ انٹرویو کا دورانیہ ایک گھنٹے کا تھا۔ مجھے ایک گھنٹے کا پیٹ بھرناتھا اور مشکور کو جلدی اس بات کی تھی کہ کسی طرح جان چھوٹے—-
ہم دونوں ہی ایک عجیب سی کشمکش کا شکار تھے۔ ریکارڈنگ روک کے میں نے مشکور کا جائزہ لیاوہ سر تاپا پسینے میں شرابور تھا۔ میری طرف دیکھتے ہوۓ اس نے بہت معصومیت سے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ یہ اس کی زندگی کا پہلا انٹرویو ہے۔
ان دنوں مشکور کی پینٹگنز کینیوس پر سفید بیک گراؤنڈ میں گہرے رنگوں کی Sami abstract ہوتی تھیں۔ اصل میں وہ اپنی استاد لبنی آغا سے بہت متاثر تھے۔ جس کا اظہار ان کے کام میں چیخ چیخ کر نظر آ تا تھا۔
ان کی زندگی کے اسُ پہلے انٹرویو کے کچھ عرصے بعد میں نے ان کو رسالے کے لئے انٹرویو کیا تو ان میں خاصہ اعتماد نظر آیا۔ ان کے جوابات کی طوالت بڑھ گئ تھی۔ وہ اپنے ہم عصروں کے متعلق بات کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے سے بڑوں کے بارے میں بھی بات کر رہے تھے——- پھر کچھ یوں ہوا کہ ہماری دوستی سی ہوگئ۔ برسوں بعد بھی کسی نمائش میں یا ادھر ادھرُ ملتے تو گزرے وقت کا اپ ڈیٹ کر لیتے۔ مثلا کون کہاں رہ رہا ہے، کیا کر رہا ہے، بچے کتنے ہوگۓ، کہاں پڑھتے ہیں، کب نمائش ہوگی وغیرہ وغیرہ
مشکور نے اپنا اسکول آف آرٹ کھولا چند سالوں بعدبند کر دیا، کسی کو بھی مورد الزام ٹھہرا ۓبغیر کہتے اسکول چلانا میرے بس کی بات نہیں۔ میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ بس اب گھر سے کام کروں گا اور جو سیکھنا چاہتے ہیں وہ میرے گھر ہی آئیں گے۔
اس بیچ ان کے کام نے بھی کئ رخ بدلے،گھوڑے بنانے شروع کئے تو ہر ہر طرح کا گھوڑا اور گھوڑے بنا ڈالے،پھر ان گھوڑوں کو انسانی اجسام کے ساتھ ملا کے کئ کئ رنگ روپ دئیے۔ اس بیچ کیلی گرافی سے بھی شوق فرماتے رہے۔ اسی درمیان انھوں نے صرف خطوط نسواں پر بھی کافی کام کیا۔ پھر جانے کیا سمائ کہ چاند کے ساتھ کھیلنا شروع کردیا اور چندا کی چاندنی کو روپ بہروپ دیتے دیتے اس میں بھی گھوڑے شامل کر دئیے۔ گھوڑوں کے اصطبل کو انھوں نے نیا رنگ یہ دیا کہ پولو کھیل کی ہر ہر زاویے سے سینکڑوں تصاویر بنا ڈالیں۔
ایک وقت یہ آیا کہ وہ ملک میں سب سے زیادہ بکنے اور کام کرنے والے آرٹسٹ کہلاتے تھے۔ ان کی نمائش کے لئے بننے والی پینٹگنز نمائش سے پہلے ہی فروخت ہوجاتی تھیں۔ ان کا کام نہ صرف ملک میں ،ملک سے باہر بھی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتا تھا۔
چند سال پہلے تک وہ کبھی آسٹریلیا توکبھی امریکہ،کبھی مڈل ایسٹ ہوتے تھے۔ میں اکثر کہتی تھی مشکور تم تو بس ہوا ہی میں رہتے ہو۔
اس بیچ ان کی بچیاں بڑی ہوگئیں۔ ہر چند سال بعد کسی نہ کسی کے پیا دیس جانے کی خبر سناتے۔
ان میں تصنع بالکل نہ تھا، دھیمے لہجے میں مسکرا مسکرا کے بولتے، جب بھی پینٹگ کے مول تول پر میری بحث ہوتی تو آخری جواب ہوتا ایسے ہی لے جاؤ،پتہ تھا کہ میں ایسے ہی کبھی نہیں لے جاؤنگی۔
میں اکثر کہتی مشکور آپ کو اندازہ ہے نا کہ میر ے خاندان میں آپ کی پینٹگنز اتنی ہیں کہ ہم سب ملاکے آرام سے ایک گیلری کھول سکتے ہیں، دھیمے سے ہنس کے کہتے میں مانتا ہوں۔
کوئ پندرہ سال پہلے کی بات ہوگی مشکور سے فون پر بات ہو رہی تھی تو میں نے محسوس کیا ان کی سانس بہت پھولی ہوئ ہے، میرے توجہ دلانے پر جواب دیا “ مجھے بھی کبھی کبھی احساس ہوتا ہے”۔ میں نےان سے پوچھا بلڈ پریشر ٹھیک رہتا ہے؟ کچھ رک کے کہا “ کبھی کبھی بڑھ جاتا ہے”۔ میں نے زور سے کہا کبھی کبھار تو آپ چیک کرتے ہوں گے،دوا کھاتے ہیں، جواب انکار میں ملا۔ میں نے بہت ڈرایا، دھمکایا اور کہا کہ آپ فورا کسی کارڈیو لوجسٹ ملیں۔
چند ہفتوں بعد بات ہوئ آواز سنتے ہی کہا” شور مت کرنا،ڈاکٹر سے ملاتھا، اس نے کچھ ٹیسٹ کرواۓ ہیں اور کہا کہ آپ کے گردوں کا مسلہ لگتا ہے”۔ میں نے آہستہ سے کہا اسی بات کا ڈر تھا تو جواب ملا لیکن میں اب دوا برابر کھاتا ہوں۔ میں نے دل میں کہا” دیر کردی مہرباں”۔
اب بات پینٹگنز اور نمائشوں سے زیادہ دواؤں اور ڈاکٹروں کی ہونے لگی۔
چند سال پہلے ان کے گھر گئ کہ انھوں نے آدھے گھر کو اسٹوڈیو اور گیلری بنا لیا تھا۔ چند باتوں کے بعد کہنے لگے” تم کو پتہ ہے میرے ساتھ کیاہوا” میں نے ہنس کر کہا کیا “ اغوا ہوگۓ تھے” زور سے قہقہ لگا کے جواب دیا” کچھ ملتی جلتی واردات ہوئ تھی”۔
کیا مطلب؟
سہج سہج انھوں نے ڈی ایس پی راؤ انوار کا دوتین پولیس موبائلز کے ساتھ گھر آنے ،گیلری میں دھما چوکڑی کرنے، مختلف پینٹگنز کے آٹھانے ،بنا ادائیگی گاڑیوں میں ڈالنے اور مطالبہ کرنے پر زرداری کی پسندیدگی کا حوالہ دینے کا مکمل قصہ سنایا۔
میں نے بے چینی سے پوچھا “کمبختوں نے کچھ نہیں دیا”۔ دھیمے سے کہا بہت حجت کے بعد ساڑہے تین لاکھ ، میری پینٹنگز تو پندرہ سولہ لاکھ کی لے گۓ۔
میں نے غصے سے کہا تم نے پریس کانفرنس کرنی تھی۔
میں یہ سب کام نہیں کر سکتا بس میں نے گارڈ بٹھا دئیے ہیں اور بنا اطلاع آنے والوں سے نہیں ملتا، گارڈ کہے دیتے ہیں میں گھر پر نہیں ہوں ، گیلری بند ہے۔
باتیں اور یادیں ہیں کہ پرے باندھے چلی آرہی ہیں۔
مشکور بہت ہی منکسر المزاج انسان تھے۔ کبھی کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہتے تھے۔
میرے خیال میں وہ پاکستان کے واحد مصور تھے جن کے ہاں ہر آرٹسٹ کاکام آویزاں نظر آتا ہے۔ وہ بہت فخریہ کہتے تھے میں اپنے ہم عصروں کاکام خریدتا ہوں اگر ہم ایک دوسرے کی حوصلہ افزائ نہ کریں گے تو پھر کون کرے گا۔
گزشتہ چند سالوں سے گردہ کی صفائی کے عمل سے گزرنے کے باعث ان کے کام کی رفتار خاصی متاثر ہوئ تھی۔ پینٹنگز کا سائیز چھوٹا ہوگیا تھا، رفتار دھیمی ہوگئ تھی، نیا کام کم کر رہے تھے۔
مشکور کا کام مشکور ہی کا تھا، پاکستان کے سینکڑوں خوش حال گھروں کی دیواریں ان کے کام سے مزین ہیں۔
موت برحق ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ہم پیدا ہی مرنے کے لئے ہوتے ہیں۔
پھر بھی کچھ کا مرنا عجیب سا خلاء چھوڑ جاتا ہے۔
مشکور رضا تم بھی ان ہی میں سے ایک ہو۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں