ایک دور تھا جب تقریباً ہر گھر میں زیادہ نہیں تو ایک اخبار ضرور آتا تھا جن گھروں میں کوئی اخبار نہیں آتا تھا ان کے مرد دفتروں میں آنے والے اخبار ات سے استفادہ کر لیتے تھے ان کے نوجوان پبلک لائبریریوں میں جا کر اخبار پڑھ لیتے تھے ،ان دنوں تھوڑی سی اقلیت کو چھوڑ کر تقریباً سب لوگ ملکی حالات سے با خبر رہتے اور آپس میں تبادلۂ خیالات کرتے رہتے تھے اس وقت کے اخبارات ہماری معاشرتی زندگی کا اہم حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ علم و آگہی کا گہوارہ تھے چھوٹی سے چھوٹی خبر دن تاریخ نیوز ایجنسی اور رپورٹر کے نام کے ساتھ شائع ہوتی تھی جس کی صحت پر کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا تھا الفاظ انتہائی محتاط اور زبان شستہ ہوا کرتی تھی کبھی کسی خبر کی تردید کی نوبت نہیں آتی تھی صحافتی معیار اپنی معراج پر تھا
اخبارات کے صفحات پر شائع ہونے والے نئے پرانے صحافیوں کے تجزیاتی کالم اور تبصرے معاشرے کے لئے مشعل راہ کا درجہ رکھتے تھے کیونکہ یہ لوگ جو لکھتے تھے پوری سچائی اور ایمانداری سے لکھتے تھے ان کے نظریات سے اختلاف تو ہوسکتا تھا لیکن ان کی حب الوطنی مسلمہ تھی اس وقت مالی فائدہ اٹھا کر کسی کے حق میں اور کسی کے خلاف لکھنے کا تصور ابھی پیدا نہیں ہوا تھا اور ملکی مفاد کے خلاف لکھنے کا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ذیادہ سے زیادہ تقسیم دائیں اور بائیں بازو کی تھی لیکن سب بحث مباحثہ اور سیاسی و نظریاتی اختلاف ملکی مفاد کے دائرے کے اندر ہوا کرتا تھا۔
الیکٹرانک میڈیا بھی جب تک پاکستان ٹیلی ویژن نیٹ ورک کی حد تک تھا تو صاف ستھری صحافت معیاری خبریں اور صحتمند تفریح اس کا طرۂ امتیاز رہا لیکن جیسے ہی الیکٹرانک میڈیا کو وسعت ملی بے شمار چینل کھمبیوں کی طرح اُگ آئے جن پر کنٹرول رکھنے والوں نے انہیں اطلاعات کی کمرشل مارکیٹ بنا دیا۔
سوشل میڈیا نے تو خبر کا رہا سہا اعتبار بھی ختم کر دیا ،چاروں طرف جھوٹی خبروں کا ایک بحر ذخار ٹھاٹھیں مار رہا ہے کہ اس میں سے سچ کے موتی ڈھونڈ نکالنا مشکل ترین کام ہے جسے قلم پکڑنا آتا ہے وہ صحافی بن بیٹھا ہے اور فیک نیوز کا ایک طوفان برپا ہے جھوٹ کا دور دورہ ہے اور سچ اپنی عزت بچائے بیٹھا ہے۔
اس ماحول میں پلنے والی نسل کو اوّل تو ملکی معاملات سے کوئی خاص سروکار نہیں اگر ہو بھی تو ان کی ذہنی تربیت کے لئے سچائی کہاں سے ملے گی وہ تو وہی سیکھیں گے جو دیکھیں گے ویسا ہی سوچیں گے جیسا سنیں گے اور وہی کریں گے جو سمجھیں گے ابن الوقت اور مفاد پرست گروہ ایسے منتشرالذہن نوجوانوں کو اپنے مقاصد کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔
خود غرضی کے اس دور میں معاشرے کو سوچنا ہے کہ اپنی نسلوں کو جھوٹ کے اس سمندر میں غرق ہونے دینا ہے یا اس سے دامن بچا کر حقیقت تک رسائی کے ذرائع تلاش کرنے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ جھوٹ میں بڑی کشش ہے نا پختہ ذہنوں کو بہت جلد اپنی جانب کھینچ لیتا ہے لیکن سچ کی کھوج میں اس جھوٹی کشش کے پاس بھی نہیں پھٹکنا چاہیے ،تبھی اس سے بچ سکتے ہیں ایک بار اس بھنور میں پھنس گئے تو نکلنا محال ہوگا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں