یہ جرنل ان حالا ت میں کشمیر کے روز مرہ کے واقعات دہلی کے مختلف حلقوں تک پہنچانے میں خاصا مدد گار ثابت ہوا۔اس کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق جگموہن کے آفس سنبھالنے کے پہلے دن ہی سری نگر کے حبہ کدل علاقے میں رات کے بارہ بجے سے لے کر اگلی صبح تک سکیورٹی فورسز نے چھاپے مارے اور تلاشیاں لیں۔تقریباً چار سو نوجوان، جن میں مسلمان اور ہندو دونوں شامل تھے کو، گھروں سے گھسیٹ کر نکالا اور بے رحمی سے مارا پیٹا گیا ۔ ان چھاپوں سے قبل مقامی سول انتظامیہ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔21 جنوری 1990کو غیر قانونی گرفتاریوں اور تلاشیوں کے خلاف احتجاج کرنے کیلئے بیس ہزار افراد سڑکوں پر تھے۔ جب یہ جلوس بسنت باغ، گاؤ کدل علاقے میں پہنچا تو نیم فوجی دستوں نے ان پر گولی چلا دی۔ مقامی پولیس کے مطابق کم از کم ساٹھ لاشیں جائے وقوعہ سے برآمد ہوئیں اور پولیس کنٹرول روم پہنچائی گئیں، جبکہ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق مرنے والوں کی تعداد دو سو سے تجاوز کر گئی تھی۔ ایک جشم دید گواہ فاروق احمد وانی، جو جموں و کشمیر حکومت کے محکمہ صحت عامہ (پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ) میں اسسٹنٹ ایگزیکٹیو انجنیئر تھے، نے اس ٹیم کو بتایا:’’میرا گھر راج باغ میں ہے۔ اس روز مجھے ایک واٹر ٹینکر کے ڈرائیور نے بتایا کہ کرفیو کی وجہ سے ٹینکرز کو شہریوں تک پانی پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ میں نے سپرنٹنڈنٹ انجنیئر سے رابطہ کیا، جنہوں نے مجھے ہدایت کی کہ میں پولیس سے کرفیو پاسز حاصل کر کے ڈرائیوروں میں تقسیم کر دوں۔ میں اپنے کرفیو پاس اور شناختی کارڈ کے ساتھ روانہ ہوا۔جب میں جہانگیر چوک (ہائی کورٹ کمپلیکس کے قریب) پہنچا تو میں نے ایک سی آر پی ایف اہلکار کو اپنا کرفیو پاس دکھایا اور بتایا کہ میں پولیس کنٹرول روم جا رہا ہوں، مگر اس نے میرا پاس چھین کر پھاڑ دیا۔ میں نے اب طے کیا کہ میں بڈشاہ چوک میں اپنی بہن کے گھر چلا جاؤں۔ راستے میں، میں نے ایک جلوس کو گاؤ کدل کی طرف بڑھتے دیکھا۔ میں نے سوچا کہ اگر میں خواتین کے ساتھ جلوس میں شامل ہو جاؤں تو محفوظ رہوں گا۔ جیسے ہی ہم گاؤ کدل پل پر پہنچے، گولیاں چلنے کی آواز آئی۔میں جان بچانے کے لیے دریا میں کودنا چاہتا تھا، مگر زمین پر گر گیا۔ جیسے ہی میں اٹھنے لگا، میں نے چھوٹے بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنتے اور دریا میں گرتے دیکھا۔ میں زمین پر بے حس و حرکت لیٹ گیا۔ کچھ دیر بعد میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ ایک نیم فوجی افسر زخمیوں کی لاشوں میں مزید گولیاں داغ رہا تھا۔ایک بچہ، جو پل کے پلیٹ فارم کے نیچے چھپنے کی کوشش کر رہا تھا، اسے بھی قتل کر دیا گیا۔ میں نے دوبارہ سر اٹھایا تو ایک سی آر پی ایف اہلکار نے چلا کر کہا: ’یہ اب بھی زندہ ہے‘!‘‘ رپورٹ کے مطابق وانی نے فریاد کی کہ وہ ایک سرکاری افسر ہے۔ مگر ایک فوجی افسر نے اس پر گالیوں کی بوچھاڑ کی اور پھر گولی چلا دی۔’’ میری کمر اور ہاتھ زخمی ہو گئے اور میں گر پڑا۔اس کے بعد ایک اور افسر میرے قریب آیا اور چلایاکہ یہ ابھی زندہ ہے۔ اس نے اسٹین گن میری چھاتی پر رکھ دی۔ مگر پہلے والے افسر نے کہا کہ یہ زخمی ہے اور بچ نہیں سکتا ہے، اس لئے گولیاں ضائع نہ کرو۔ جاتے ہوئے اس نے میری پیٹھ پر ٹھوکر ماری۔‘‘ کچھ دیر بعد ایک ٹرک لایا گیا اور وانی سمیت لاشوں کو اس میں ڈال دیا گیا۔ ٹرک میں تقریباً 30-35 لاشیں موجود تھیں۔ جب مزید جگہ نہیں بچی تو افسر نے ڈرائیور کو حکم دیا: ”باقیوں کو نالے میں پھینک دو!” کچھ دیر بعد ٹرک ایک جگہ رکا، جہاں کشمیری زبان میں گفتگو کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ہمارے ساتھ ایک اور زخمی کراہنے لگا۔ہم نے دیکھا کہ ایک کشمیری کانسٹیبل ہمیں زندہ پا کر حیرت سے چیخ اٹھا:’’یا اللہ! یہاں کچھ لوگ ابھی زندہ ہیں!‘‘ہم نے التجا کی: ’’براہ کرم ہمیں بچا لو!‘‘ پولیس کنٹرول روم میں موجود ڈاکٹر نے تین مزید زخمیوںکو دریافت کیا اور ہمیں ایمبولینس میں اسپتال لے گئے۔بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ وہ ہیڈ کانسٹیبل، جس نے ہمیں زندہ پایا تھا، دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتقال کر گیا ۔‘‘فاروق احمد وانی کے جسم میں چھ گولیاں لگی تھیں۔قدرت کو منظور تھا کہ اندرونی حساس اعضا کو چھوئے بغیر وہ جسم کے دوسری طرف نکل گئی تھیں۔ اس طرح کے کئی چشم دید واقعات اس رپورٹ میں درج تھے۔ بالی ووڈ کی فلم حیدر کا ایک سین اسی رپورٹ سے لیا گیا ہے۔ اگلے روز 22 جنوری کواس قتل عام کے خلاف وادی کے تمام حصوں سے بڑی تعداد میں لوگ باہر نکلے اور سری نگر میں جمع ہو گئے۔ یہ جلوس جب شہر کے حو ل علاقے میں واقع عالمگیری بازار پہنچا تو سی آر پی ایف جوانوں نے آگے اور پیچھے سے اس کو گھیرکرفائرنگ کی اور غیر سرکاری ذرائع کے مطابق تقریباً 100 افراد مارے گئے۔ ہلاک شدگان میں 32 سالہ اجلال حسن بھی شامل تھا، جو ایک مشہور کشمیری محقق تھا اور گاندھی کے عدم تشدد کے موضوع کے علاوہ چار کتابوں کا مصنف تھا۔معلوم ہوا کہ سی آر پی ایف نے مقامی پولیس اہلکاروں پر بھی فائرنگ کی تھی، جس کے نتیجے میں جموں و کشمیر آرمڈ پولیس کے اہلکاروں نے پولیس لائن میں احتجاجی نعرے بلند کیے اور ان میں سے کئی نے اپنی پوسٹیں چھوڑ دیں۔ اسی طرح رپورٹ کے مطابق یکم مارچ1990 کو نصف ملین سے زیادہ افراد سری نگر کی سڑکوں پر تھے ۔ اس دن تین مختلف مقامات ،زکورہ، ٹینگ پورہ،بمنہ بائی پاس، اور شالیمارپر بھارتی نیم فوجی دستوں نے لوگوں پر گولی چلائی، جس سے بڑی تعداد میں لوگ جاں بحق اور زخمی ہوئے۔بچ جانے والوں میں سے ایک، 30 سالہ محمد اسلم نے اس ٹیم کو آنکھوں دیکھا حال سناتے ہوئے کہا کہ فوجی گاڑیوں نے ان کی بس روکی، مسافروں کی تمام منت سماجت نظر انداز کرتے ہوئے اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ دعویٰ کیا گیا کہ مظاہرین نے فوجی اہلکاروں کے بچوں کو لے جانے والی ایک گاڑی پر پتھراؤ کیا تھا۔ تاہم، مقامی لوگوں نے اس رپورٹ کو سراسر جھوٹ قرار دیا، کیونکہ اس وقت وادی میں تمام سکول سرمائی تعطیلات کے باعث بند تھے۔ مزید برآں، فائرنگ کے مقام کے قریب کوئی فوجی سکول موجود نہیں تھا۔ زخمیوں میں شامل 22 سالہ بشیر احمد نے اس ٹیم کو بتایا کہ فوجی گاڑیاں زبردستی جلوس میں گھس آئیں اور سب مشین گنوں سے فائرنگ کی۔ (جاری ہے)

بشکریہ 92 نیوز
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں