اوّل تو عالمی طاقت یا عالمی دنیا یا ایسی دیگر اصطلاحاتِ انتہائی بے وقعت ہیں بالخصوص نسل کشی کے بعد پوری دنیا بشمول پڑوس اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشیوں نے پردے چاک کیے ہیں اور تہذیب و تمدن و روشن خیالی اور دیگر رنگین اصطلاحات اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کر رہی ہیں۔ اس سارے قضیے میں استعمار اور سرمایہ دارانہ کرداروں کے خلاف اگرچہ ذی روح انسانوں نے تمام تر تعصبات سے بالاتر ہو کر دنیا کے کونے کونے میں ابابیل کا کردار ادا کیا ہے لیکن حالیہ نئی عالمی استعماروں کی ملاقات، پریس کانفرنس، باڈی لینگویج، وربل اور نان وربل گفتگو، اشاروں کنایوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ابھی تک استعمار کا پیٹ نہیں بھر سکا ہے۔
دوسری جانب سب ممالک، جماعتیں، یونی انز، تنظیمیں یکجہتی کی تصویر بننے کی بجائے اپنی سیاسی پوزیشن واضح کرتے پائے گئے ہیں۔ محض خود کے جھنڈے گاڑ کے جھنڈیاں کرائی جا رہی ہیں۔ استعمار کے چند فیصد کارندوں بلکہ درندوں نے پوری دنیا کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس قابل بھی نہیں رہنے دیا کہ یک مشتی یا یک لختی کا مظاہرہ بھی کیا جا سکے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ فطرت کو بہت دیر تک چیلنج نہیں کیا جا سکتا لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دنیا اس نفسیاتی کشمکش سے کبھی بھی نکل نہیں پائی۔ انتقام در انتقام کی اس سیاسی و مذہبی و عسکری استعماریت نے عام انسان کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور رہتی دنیا تک اس کے آثار نمایاں ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اس وقت حل یہی ہے کہ عالمی استعماری طاقتوں کی پراسراریت کو سمجھتے ہوئے ان کے ناجائز ہتھکنڈوں سے بچنے کی حتی الامکان کوشش ہونی چاہیے۔ دجل وفریب اور ان میکانکیوں کا بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ فرداً فرداً اور اجتماعی دانش کو بروئے کار لانا بھی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ اس سے بھی بڑھ کر دنیا میں بسنے والے تمام تر مذاہب کے ماننے والوں، تمام تر زبانوں بولیوں و اہل ثقافت، اور معاشی معاشرتی سیاسی سماجی عمرانی سائنسی مذہبی نفسیاتی و دیگر تمام تر ڈھانچوں سے منسلک حضرات کو اب انسانیت بچانے کی ضرورت ہے۔
دنیا کے تمام تر معاملات کی خرابیوں کی اولین وجہ جنگی ذہنیت ہے اور جنگی ذہنیت ناجائز معاشی ضرورت اور عدم مساوات و تقسیم اور ناانصافی کا ملغوبہ ہے۔ شعوری طور پہ اس رویے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ اس زمین کے چہرے پہ خون کی ہولی کھیلنا اور پھر مذاق بنانا اور پھر جہنم بنانے کی دھمکیاں دینا اور پہلے سے ہی ظلم و استہزاء و بربریت کا نشانہ بنائے جانے والوں کو مخصوص سیاسی نظر سے دیکھنا بہت غیر ذمہ دارانہ سوچ کی عکاسی ہے۔ اب اس دھرتی کو واقعی کسی ذمہ دار عالمی طاقت کی ضرورت ہے۔ غیر ذمہ دار اور دقیانوس خیالات کو گریٹ لٹریچر کا نام دینے سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ عملی طور پہ جو ہو رہا ہے اس کے خلاف خیالات گھڑنا، کمپین کرنا، اور اس کا قلعہ قمع کرنے کی ہر سطح پہ ضرورت ہے۔ آج کی پریس کانفرنس محض دقیانوسیت کی داستان سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ عالمی طاقت کے ذمہ دار کی زبان نہیں تھی بلکہ مقتولین کے ٹھٹھے اڑانے والوں کی ہجو گوئی سے زیادہ کچھ نہیں تھا!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں