بہارنگ/حسان عالمگیر عباسی

یہ بہار ہے۔ یہ گلابی رنگ ہے۔ یہ تصویر بذات خود طاقت سے لیس ہے کیونکہ یہ خوشبو ہے۔ خوشبو ہے تو ظاہر ہے پھیلے گی اور جب پھیلے گی تو ناک میں جائے گی, جب ناک میں آئے گی تو دماغ میں جائے گی اور جب دماغ معطر ہو گا تو سگنلز دے گا, جسمانی و روحانی ترقی ہو گی۔

یہ بہار ہے۔ گلابی رنگ ہے۔ رنگ کا اثر ہوتا ہے۔ آنکھیں رنگ کا اثر قبول کرتی ہیں۔ جب آنکھ دیکھی گی تو پلکے جھپکے گی شرمائے گی۔ جب آنکھوں کو ایسی خوراک ملے گی تو آنکھ آنکھ نہیں رہے گی چشمِ بشر ہو جائے گی سیر ہو جائے گی! جب آنکھ ایسا دیکھی گی دیگر اعضائے انسانی کو پیغام بھیجے گی۔ جب اثر متاثر کن ہو گا تو باقی اعضاء کو قبول کر لینے میں قباحت بھی نہیں محسوس ہو گی۔ اسی لیے کہتے ہیں خوبصورتی باہر نہیں ہوتی آنکھوں میں ہوتی ہے۔

یہ بہار ہے۔ گلابی رنگ نمایاں ہے۔ رنگوں کی آواز بھی ہوتی ہے۔ سماعت والے جانتے ہیں۔ جب کان میں جائے گی۔ کان کھڑا ہو جائے گا۔ خرگوش کی طرح نظر آئے گا۔ یہ آواز دماغ سے ہوتے ہوئے جسم میں سرایت کر جائے گی۔ اچھا اثر پڑے گا۔ دیگر حصے بھی اثر انداز ہوں گے۔ اسی طرح دیگر حواس بھی یہ اثر قبول کرتے جائیں گے۔

ایک زمانہ یاد آتا ہے جب یہی رنگ نمایاں ہوا کرتے تھے۔ ان فطری میکانکیوں کے براہ راست بالترتیب تجربات ہوتے تھے۔ ہر موسم کو ایک حساب سے دیکھتے تھے۔ اس وقت شعور سے بڑھ کر لا شعور اور تحت الشعور کا واویلا تھا۔ کم عمری کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں۔ اب جب شعور یہ سب دیکھنے سننے اور محسوس کرنے کے لیے تیار ہوا تو فطرت نے کاسا لیسی کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا ہے:

اب یہی سب جب تحت الشعور میں ہے تو اس کا مطلب ماضی سے تعلق و انسلاک ہے۔ جب شعور میں ہے تو یہی سب حال سے منسلک ہے۔ جب حال بے حال ہوگا اور تحت الشعور میں موجود یہی خوشبو اور رنگ حال سے منسلک ہی نہیں ہو پائے گا تو نفسیاتی کشمکش پیدا ہو گی۔ حال میں رہنے کی بجائے ماضی سے رجوع کرنا ہوگا اور نتیجتاً ماضی سے واپس پلٹنا مشکل ہو جائےگا اور اگر مستقبل کی طرف گامزن ہونے کا خیال آئے گا تو حال میں یہی رنگ درکار ہو گا جس رنگ سے انرجیز برآمد ہوں گی جس کی نصرت سے آگے بڑھنا آسان ہو گا لیکن بدقسمتی سے میکانکی یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ فطرت کروٹ لے رہی ہے۔ انسان فطرت سے غالباً بے ہنگم تجربات کر رہے ہیں یا مافوق البشر ہو رہا ہے بہرحال تبدیلی رونما ہو رہی ہے:

اب اس تبدیلی کو سمجھنا ہو گا۔ چونکہ ہمارے دماغ پیچھے کی بارہا مشق کر چکے ہیں۔ مشق کے مطابق نومبر دسمبر جنوری فروری مارچ برف باری کے مہینے ہیں۔ جب ایسا نہیں ہو گا تو بہار ہی نہیں آئے گی اور جو آئے گی وہ بے موسمی حالات کی نظر ہو جائے گی۔ کسان روئے گا۔ عام لوگ ذہنی نفسیاتی کشمکش سے دو چار ہوں گے۔ جنھیں سمجھ آ جائے گی وہ کوشش کریں گے۔ ایڈجسٹمنٹ کریں گے۔ جنھیں سمجھ ہی نہیں آئے گی وہ زیادہ مشکلات کاٹیں گے۔ ان کی زندگی ٹرک سے ٹریکٹر اور موٹر سائیکل سے سائیکل ہو جائے گی۔ عام انسان پسے گا!

Advertisements
julia rana solicitors

انسان ان چیزوں سے سیکھتا ہے جو بالتذکیر و الترتیب ہوتی آرہی ہوتی ہیں۔ جب وہ ترتیب یکدم بگڑ جائے تو دماغ کے خلیے بھی یکدم پھرکی کھائیں گے۔ انھیں یا تو اس طرح کی عادت سے گزارا جائے کہ وہ کشمکش کے عادی ہو جائیں یا اس ترتیب کو جگہ پہ آنا ہو گا۔ اس تصویر کو دیکھ کر حواس خمسہ ہلچل مچانے کی کوشش کر رہے تھے تو اس ہلچل کو لفظوں میں تبدیل کرنے کی ناکام سی کوشش کو ہماری لکھت میں بہار کہتے ہیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply