محبت:ایک سرمایہ دارانہ الجھن/کامریڈ فاروق بلوچ

محبت ایک ایسا جذبہ ہے جسے انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے مقدس، لازوال اور نفع و نقصان کی حد بندیوں سے ماورا سمجھا گیا ہے۔ مگر کیا یہ سچ ہے؟ جدید دنیا میں، جہاں ہر چیز کی قیمت لگائی جاتی ہے، وہاں کیا محبت بھی ایک قابلِ خرید و فروخت شے بن چکی ہے؟ مجھے تمہاری انگلیوں کے لمس کو اپنے اعصاب پر شراب کی مانند سوار کرنے کی تمنا ضرور ہے، لیکن میں اس محبت کے ساتھ امر ہونے کا طلبگار نہیں ہوں۔ میں تمہارے عشق میں دیوانہ نہیں، نہ ہی کوئی پروانہ، میں صرف محبت کو ایک عام انسانی جذبے کے طور پر محسوس کرنا چاہتا ہوں۔

یہ دنیا محبت کو غیر معمولی بنانے پر اصرار کرتی ہے، حالانکہ محبت کوئی طلسماتی شے نہیں، کوئی الہامی راز نہیں، بلکہ ایک سادہ، عام انسانی کیفیت ہے۔ یہ کوئی آگ کا دریا نہیں جسے پار کرنا پڑے، نہ ہی کوئی تکلیف دہ آزمائش۔ محبت ایک سکون ہے، ایک معمولی سی راحت، جو کسی پر بھی وارد ہو سکتی ہے۔ مگر سرمایہ دارانہ معیشت نے اس سادگی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس نے محبت کو ایک نفع و نقصان کے پیمانے میں تولنا شروع کر دیا ہے، یہاں تک کہ اب شوہر اور بیوی کے رشتے بھی بازار کے اصولوں کے تحت چلنے لگے ہیں۔

یہ کیسا نظام ہے جو محبت کو جنسِ بازار میں تبدیل کر دیتا ہے؟ جو تحائف اور ڈیٹ کے اخراجات کو محبت کی سچائی کا پیمانہ قرار دیتا ہے؟ میں نہ آسمان سے تارے توڑ کر لا سکتا ہوں، نہ تاج محل تعمیر کر سکتا ہوں، مگر میں پھر بھی محبت کر سکتا ہوں۔ میرا دل، میرے احساسات، میری چاہت کیا کسی مال و دولت کے محتاج ہیں؟ مگر یہ دنیا اس سوال کو سننے کے لیے تیار نہیں۔ یہاں محبت کا خالص ہونا بھی اسی وقت ممکن ہے جب آپ کے پاس خرچ کرنے کے لیے مناسب رقم ہو۔

کیا کسی فقیر کو سچی محبت کا حق نہیں؟ اگر محبت دولت کی دسترس میں آ چکی ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ایک عام انسانی جذبہ نہیں رہا؟ ہم نے محبت کو ایک غیر فطری شے بنا دیا ہے، ایک ایسا خواب جس کے پورا ہونے کے لیے پیسوں کی شرط لگا دی گئی ہے۔ یہ عجیب تماشا ہے کہ محبت جیسے سادہ جذبے کو بھی تجارتی اصولوں کے مطابق تولا جاتا ہے۔

کبھی محبت خلوص کی علامت تھی، اور اب یہ ایک لین دین میں بدل چکی ہے۔ میں تحفہ نہ دے سکوں تو میری محبت پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔ کیا میں پیسہ خرچ نہ کر سکوں تو میری محبت سچی نہیں؟ اگر میرے پاس دولت نہیں تو میں اپنی محبت کا اظہار کیسے کروں؟ سرمایہ داری کا یہی کھیل ہے، جو ہر رشتے کو خرید و فروخت میں تبدیل کر دیتا ہے، اور انسان کی سب سے خالص خواہش کو بھی مادی ضرورتوں کے ساتھ جوڑ دیتا ہے۔

یہ سوال صرف محبت کا نہیں، بلکہ انسانی جذبات کے زوال کا بھی ہے۔ جب ہر احساس کی قیمت لگنے لگے، جب ہر تعلق ایک معاہدہ بن جائے، تو محبت کہاں جائے گی؟ یہ کیسی دنیا ہے جہاں محبت صرف اسی وقت معتبر ہوتی ہے جب وہ مہنگے ہوٹلوں، قیمتی تحائف اور پرتعیش لمحات میں گزرے؟ یہ محبت نہیں، یہ سرمائے کا کھیل ہے، جس میں جذبات کو بھی ایک صارف کی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے۔

محبت ایک داخلی کیفیت تھی، جو دلوں میں بستی تھی، جو خاموشی سے محسوس کی جاتی تھی۔ مگر اب یہ بھی ایک پروڈکٹ بن چکی ہے، ایک ایسی شے جسے بیچا اور خریدا جا سکتا ہے۔ اب سوال یہ نہیں کہ محبت کیا ہے، بلکہ سوال یہ ہے کہ محبت کی قیمت کیا ہے؟ اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو آپ کی محبت سچ ہے! ہاں، یہی سرمایہ دارانہ نظام ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس سودے بازی کو تسلیم کر لیں؟ کیا محبت کو سرمایہ دارانہ دائرے میں قید ہونے دیں؟ یا پھر اسے اس کی اصل سادگی میں قبول کریں، بغیر کسی قیمت، بغیر کسی شرط، بغیر کسی بازار کی مداخلت کے؟ شاید یہی وہ سوال ہے جو ہر محبت کرنے والے کو خود سے پوچھنا چاہیے۔

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply