خان پور سے چاچڑاں جانے والی دربار لائن کی بربادی کا قصہ/ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

1991 کی بات ہے جب پاکستان ریلویز نے ٹرانسپورٹ مافیا اور مختلف سیاسی و سازشی عناصر کی بدولت بہاولپور ریجن کا ایک خوبصورت اور بہترین جنکشن ختم کر کے اسے بے آسرا کر دیا۔

یہ بات ہے خان پور جنکشن کی جو رونق، سہولیات اور مسافر بردار ریلوں کے حوالے سے پوری ریاست بہاولپور کا سب سے بڑا جنکشن ہوا کرتا تھا۔
افسوس کے آج اسے یاد کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔
لاہور اور کراچی کے تقریباً وسط اور ریاست بہاولپور کے جنوب مغرب میں واقع خانپور شہر، کبھی ایک ضلع ہوا کرتا تھا جس کی آبادی، ضروریات اور نواحی علاقوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسے جنکشن بنایا گیا تھا۔
1932 میں خان پور کی ضلعی حیثیت تو ختم کر دی گئی لیکن خان پور تا چاچڑاں شریف ریلوے لائن کی بدولت اس کے جنکشن کا سٹیٹس باقی رہا جو بعد میں ختم ہوا۔

ماضی کا ایک خوبصورت جنکشن؛

جیٹھہ بھٹہ اور سہجہ نامی قصبوں کے بیچ واقع خانپور، ایک وقت میں ریاست بہاولپور کا ضلع اور اُس ضلع کا واحد ریلوے جنکشن ہوا کرتا تھا۔ پھر رحیم یار خان کے ضلع بننے پر بھی یہ اس ضلع کا اکلوتا اور روہڑی و خانیوال کے بیچ سب سے بڑا و پُر رونق جنکشن رہا۔

اس اسٹیشن کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ اسٹیشن ریلوے کے ملتان اور سکھر ڈویژن کے سنگم پر واقع ہے۔ اس کا عملہ سکھر ڈویژن سندھ کا ہے جبکہ ریلوے پولیس چوکی اور وہاں کا عملہ ملتان ڈویژن کا ہے۔ اسٹیشن پہ چیکنگ کے لیئے بھی دونوں جانب سے ٹیمیں آتی ہیں۔ یوں یہ پنجاب کا واحد ریلوے اسٹیشن ہے جو سندھ – پنجاب دونوں کی ریلوے حدود میں واقع ہے۔ سِٹی پارک خان پور کے سامنے ہی ملتان ڈویژن کے آغاز کا بورڈ آویزاں ہے۔

1871 میں انڈس ویلی سٹیٹ ریلوے تعمیر کی گئی جو کوٹری کو ملتان سے جوڑتی تھی۔ اس سے پہلے، کراچی سے کوٹری تک 1861 میں ریلوے لائن بچھائی جا چکی تھی۔ یعنی خان پور کا اسٹیشن 1870 کی دہائی میں تعمیر کیا گیا ہو گا (غالباً بہتر سے پچھتر کے درمیان کیونکہ سمہ سٹہ کا اسٹیشن 1878 میں تعمیر کیا گیا تھا)۔ اس کی قدامت کی گواہی گورا قبرستان میں انگریز انجینیئروں کی قبریں بھی دے رہی ہیں جو یہاں ریلوے ٹریک بچھانے پر کام کرتے کرتے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ضلعی صدر مقام ہونے کی حیثیت سے ریلوے اسٹیشن بننے کے بعد یہاں بہت سی سہولیات فراہم کی گئیں۔ ایک ریلوے کالونی، زبردست ڈاک بنگلے و رہائشی کوارٹرز، ریلوے کلب، ہاکی گراؤنڈ، ریلوے اسپتال، سکول، ، ڈرائیورز رننگ روم ، گودام وغیرہ جو اب کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں۔
ملکہ وکٹوریا کی صد سالہ تقریبات پر اسٹیشن کے باہر قیمتی فوارے بھی نصب کیئے گئے۔

1911 میں جنکشن بننے کے بعد اس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی۔ ٹرینوں میں پانی بھرنے کا نیا سسٹم لگایا گیا اور انتظار گاہوں میں نیا فرنیچر رکھا گیا۔ پلیٹ فارم پہ خوبصورت گھڑیال بھی لگائے گئے۔
اسی اور نوے کی دہائی میں یہاں کا ریلوے کلب بہت فعال تھا۔ والی بال سمیت ہاکی، ٹینس اور کرکٹ کے میچ باقاعدہ ہوا کرتے تھے۔ کیفے اور اکھاڑے کی سہولت بھی تھی۔ نامی گرامی ہستیاں یہاں کی ممبر تھیں۔ یہاں پہلوانوں کی کشتی دیکھنے دور دور سے لوگ آتے تھے۔ لیکن افسوس، اب ماضی کی صرف یادیں ہی باقی ہیں۔
میری اسٹیشن سے منسلک یادوں میں ریلوے گراؤنڈ کا خانپور اور بھارتی پنجاب کی ٹیموں کے مابین ہونے والا ہاکی میچ اور وہ روشنیوں والی کھلونا ٹرین اب تک شامل ہے جو ہر جشنِ آزادی پر اسٹیشن کی عمارت پہ چلائی جاتی تھی۔ ہم بچے خاص طور پہ اسے دیکھنے آتے تھے۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ وہ کھلونا ٹرین ”جناب رشید احمد مرحوم” شوقیہ بنا کر چلایا کرتے تھے۔ وہ یہاں بطور الیکٹرک چارج مین تعینات تھے۔ کاش وہ آج زندہ ہوتے تو میں ان کے ہاتھ چوم لیتا۔ کیسا خوبصورت شخص تھا وہ جو ہم بچوں کی زندگی میں اتنے رنگ بھر گیا۔

موجودہ حالت و مسائل ؛
اسٹیشن کی مرکزی عمارت سادہ ہے جس میں ایک لمبا برآمدہ اور کئی کمرے بشمول انتظار گاہیں و دفاتر شامل ہیں جہاں برطانوی طرز کا پرانا فرنیچر اور آرام کرسیاں اب بھی موجود ہیں۔ مرکزی عمارت نیچے اور پلیٹ فارم اونچائی پر واقع ہے۔ مرکزی عمارت کے مشرق میں برطانوی دور کا مال گودام اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کی چھت چوکور ہے جبکہ گول روشن دان اور محراب نما دیواریں اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی نظر آتی ہیں۔

جاڑے کی ایک خنک صبح میں چلتا چلتا ”ڈرائیور رننگ روم” دیکھنے جا پہنچا وہاں موجود چوکیدار اسلم جاوید صاحب (جو 1985 میں یہاں آئے تھے اور اب ریٹائر ہو چکے ہیں) نے مجھے بتایا کہ؛

”ڈہرکی و صادق آباد سے کھاد اور بنولہ وغیرہ مال گاڑی پہ آتا تھا تو اس مال گودام پہ اتارا جاتا تھا جہاں سے تاجر حضرات گاڑیاں اور چھکڑے بھر کے لے جاتے تھے۔ تب یہ گودام بہت خوبصورت تھا۔ اندر بیٹھنے کی جگہیں تھیں۔ اب بھی اس پہ کام کریں تو اسے خوبصورت بنایا جا سکتا ہے۔”

پلیٹ فارم نمبر تین کے سامنے لوکوموٹو ورکشاپ ہے جو اب بھی کام کر رہی ہے۔ یہاں انجنوں کی مرمت کی جاتی ہے۔ اس کے مغرب می 1938 کا بنایا گیا پاور ہاؤس ہے جو ریلوے اسٹیشن سمیت کالونی کے لیئے ڈی سی بجلی پیدا کرتا تھا اور اب کافی عرصے سے بند پڑا ہے۔

اس کے مشرق میں ایک بڑی ٹینکی ہے جس کے پیچھے ایک زمین میں دھنسا ہوا، بغیر چھت کے تالاب نما کمرہ دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ کبھی آئل ڈپو ہوا کرتا تھا۔

چاچا اسلم نے بتایا کے یہ 1988 میں بنایا گیا آئل ڈپو ہے جس میں کالے انجنوں کے لیئے تیل محفوظ کیا جاتا تھا۔ اس تیل کو پھر آئل ڈپو سے ٹینکی میں ڈالا جاتا تھا جہاں سے یہ انجنوں میں بھرا جاتا تھا۔ اور یہ سارا سسٹم ریلوے کی نا اہلی کے باعث اب کھنڈر بن چکا ہے۔ ڈپو کے اوپر ٹین کی چھت ٹوٹ چکی ہے جبکہ ٹینکی کا اوپری حصہ بھی غائب ہے۔

ڈپو کے پیچھے ڈرائیورز رننگ روم ہے۔ یہاں ٹرین ڈرائیور حضرات کے آرام کے لیئے سونے کے کمرے، کھانے کا کمرہ، ہال، غسل خانے، مسجد اور کپڑے دھونے کا سسٹم موجود ہے۔ یعنی یہ ان کا ہاسٹل ہے۔ یہاں انگریز دور کی لکڑی سے بنی جالیاں، فرنیچر اور تصاویر دیکھ کر میں کئی سال پیچھے چلا گیا جب ریلوے ایک عظیم ادارہ ہوا کرتا تھا۔

خان پور ریلوے اسٹیشن کے پانچ پلیٹ فارم ہیں جن میں سے تین زیرِ استعمال ہیں جبکہ پلیٹ فارم نمبر چار اور پانچ (جو چاچڑاں والی لائن کے ساتھ ہیں جنہیں چاچڑاں سائیڈںگ کہتے ہیں) اب خالی پڑے ہیں۔ یہاں چاچڑاں پسنجر میں پانی بھرنے والے پائپ اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ پانچ نمبر پلیٹ فارم سے کچھ آگے بائیں طرف ”ٹرن ٹیبل” ہے جہاں سے انجن کا رُخ بدلا جاتا ہے۔
16 دسمبر 1991 کو خانپور کا جنکشن اسٹیٹس تو ختم کر دیا گیا لیکن روہی ایکسپریس اور روہڑی پسنجر کی بدولت کچھ سہولیات باقی رہیں۔
روہی ایکسپریس روہی اور چولستان کی وہ خاص ریل گاڑی تھی جو خانپور سے بھر کے راولپنڈٰی تک جاتی تھی اور وسیب کے ہر ایک اسٹیشن پہ اس کا سٹاپ تھا۔ مگر افسوس کہ اسے ریلوے کے ایک کرپٹ منسٹر نے 2008 میں بند کر دیا۔
اس کے بعد خان پور سے روہڑی تک جانے والی روہڑی پسنجر بھی بند ہوئی اور اس جنکشن کی رونقیں ماند پڑنا شروع ہو گئیں۔
گاڑیاں بند ہوئیں تو مسافر کم ہوئے اور ساتھ ہی پلیٹ فارم پہ لگے اسٹال بھی ختم ہوتے چلے گئے۔ میرے بچپن میں جس اسٹیشن پہ کئی چائے و اخبارات کے اسٹال ہوا کرتے تھے آج وہاں دو چار ہی باقی ہیں۔ ان کے ساتھ ہی لال وردی والے قلی بھی گھروں کو چل دیئے۔ اب تو بچپن کا وہ منظر کوئی فلمی سین لگتا ہے جب اس اسٹیشن پہ قلیوں کا شور اور چائے و شامی کباب کی خوشبو ہوا کرتی تھی۔

خان بیلہ سے تعلق رکھنے والے اسٹیشن ماسٹر جناب ”ملک غلام عربی” ایک قابل شخص ہیں۔ وہ اس سے پہلے ترنڈہ، رحیم یار خان، نوابشاہ، گھوٹکی اور پڈ عیدن میں فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی کا دور یادگار تھا۔ اسی کی دہائی میں ایک کراچی ایکسپریس چلا کرتی تھی جو کراچی سے لاہور کے درمیان صرف خان پور جنکشن پہ سٹاپ کرتی تھی۔ اس کا رننگ ٹائم کافی کم تھا۔ کاش کہ وہ آج بھی چلتی۔ آج کے دور میں پسنجر سے زیادہ منافع بخش مال و تیل بردار گاڑیاں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ عوام الناس کی سہولت کے لیئے روہی اور روہڑی پسنجر جیسی گاڑیوں کو دوبارہ چلنا چاہیئے نیز حکومت کو یہاں رحمان بابا اور نائٹ کوچ جیسی ریل گاڑیوں کا سٹاپ بھی منظور کرنا چاہیئے۔

ریلوے لائن کا کتبہ یا انگریز کی قبر؛
خان پور کٹورہ شہر کے مغرب میں ”سردار گڑھ” نام کا ایک قصبہ ہے، اگر خانپور سردار گڑھ روڈ پر سفر کریں تو چند کلومیٹربعد، بائیں ہاتھ پر ایک چبوترے پہ ایستادہ خوبصورت، سفید پتھر نظر آئے گا۔ یہ پاکستان ریلوے کے زوال کا وہ ثبوت ہے کہ جس پہ آج بھی اس کے زوال کی داستان پڑھی جا سکتی ہے۔

یہ خانپور سے چاچڑاں شریف جانے والی ریلوے لائن کا سنگِ بُنیاد ہے جسے سادہ لوح مقامی لوگ کسی انگریز کی قبر سمجھتے رہے ہیں (کچھ تو اب بھی سمجھتے ہیں)۔
یہ سنگِ بُنیاد 1911 میں اس وقت کے انگریز گورنر ”لیفٹیننٹ سر ولیم لوئیس” نے رکھا تھا۔ اس ریلوے لائن کی بنیاد 1910 میں نواب آف بہاولپور سر صادق محمد خان عباسی (پنجم) کی تجویز پر رکھی گئی تھی تبھی اسے دربار لائن بھی کہا جاتا ہے۔
نواب صاحب عوام کی سہولت کےلیئے اپنے مرشد حضرت خواجہ غلام فرید رح کے شہر چاچڑاں شریف کو ریل سے ملانا چاہتے تھے۔ 14
جولائی 1911 کو اس لائن کو ٹرینوں کی آمد و رفت کے لیئے کھول دیا گیا۔

اس کُتبے پر مندرجہ ذیل تحریر درج ہے؛

“TO COMEMORATE THE SITE OF CUTTING THE FIRST SOD OF THE KHANPUR-CHACHRAN RAILWAY BY HIS HONOUR SIR WILLIAM LOUIS DANE LIEUTENANT GOVERNOR OF THE PUNJAB AND ITS DEPENDENCIES ON 14 JANUARY 1910 AND THEOPENING OF THIS RAILWAY FOR TRAFFIC IN 14 JULY 1911”.

خان پور چاچڑاں شریف ریلوے لائن ؛
خان پور جنکشن سے شروع ہو کر چاچڑاں شریف تک جانے والی اس ریلوے لائن کی کل لمبائی پاکستان ریلویز کے مطابق 33 کلومیٹر تھی جسے جولائی 1911 میں کھولا گیا تھا۔ اس ٹریک پر 1908 میں کام شروع کر دیا گیا تھا۔
اس ریلوے ٹریک کو بچھانے کا مقصد دراصل مرکزی ریلوے لائن کو دریائے سندھ کے اُس پار لے جا کر گوادر سے منسلک کرنا تھا۔ یعنی یہ لائن لاہور و ملتان کو بزریعہ خانپور، چاچڑاں،راجن پور، روجھان اور جیکب آباد، گوادر سے جوڑتی لیکن افسوس کچھ مفاد پرستوں نے یہ ہونے نہ دیا۔

دنیا نیوز کے مقامی صحافی ملک اطہر فاروق اعوان کی ایک رپورٹ کے مطابق ؛

”1911 میں سابق ریاست بہاولپور اور برٹش حکومت نے گوادر کو ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور کوٹ مٹھن سے ملانے کے لیئے چاچڑاں شریف کے راستے ابتدائی طور پر خانپور تا چاچڑاں 42 کلومیٹر کی ریلوے لائن بچھائی۔ 1998 تک اس ٹریک پر پسنجر ٹرین چلتی رہی لیکن 1999 میں میاں نواز شریف کے دورِ حکومت میں اس ٹرین کو بند کر کہ ریلوے ٹریک کو اکھاڑنے کا ٹھیکہ 8 روپے فی کلو کے حساب سے لاہور کی ایک فرم کو دیا گیا”۔”

اسٹیشن ماسٹر جناب ملک غلام عربی کے بقول یہ ٹریک 1991 میں ہی بند کر دیا گیا تھا۔
خانپور سے چاچڑاں کے درمیان موجود یہ ٹریک چار قصبوں سے گزرتا تھا۔ اگرچہ کچھ عرصہ تک اس ٹریک پہ سمہ سٹہ سے بھی ٹرین چلائی گئی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکی اور بند کر دی گئی۔ خان پور سے ریلوے ٹریک عباسیہ کینال پر سے گزرتا ہوا کوٹلہ پٹھان تک جاتا تھا۔ نہر کے بیچ میں منہدم شدہ پل کا مضبوط ستون اب بھی موجود ہے۔

اسٹیشنوں کا احوال پیشِ خدمت ہے۔

خان پور ؛

اس لائن پر پہلا اور مرکزی اسٹیشن خان پور شہر تھا جو ان دنوں ضلعی صدر مقام ہوا کرتا تھا۔ یہ شہر کپاس اور مرچوں کی بڑی منڈی تھا جبکہ آج یہ شہر پیڑوں، گنے، گڑ، رسیلے آم اور کھجور کی پیداوار کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ یہاں کے دھاتی کٹورے برصغیر بھر میں مشہور تھے اور کہا جاتا ہے کہ گاندھی جی کی ٹرین یاترہ کے دوران خان پور پہنچنے پر مقامی تاجروں نے انہیں یہاں کے بنے کٹورے بطور تحفہ پیش کیئے تھے۔

کوٹلہ پٹھان ؛

یہ خان پور کے شمال مغرب میں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو جنکشن سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر اس لائن کا دوسرا اسٹیشن ہوا کرتا تھا۔ کوٹلہ پٹھان کا اسٹیشن اب نجی تحویل میں ہے اور اِسے مرغی خانے کے طور پہ استعمال کیا جا رہا ہے۔
یہ کوٹلہ پٹھان کے مرکزی چوک سے ذرا دور ایک کنارے پرواقع ہے جس کے اندر اب بھی ٹرینوں کے نام، اوقات، کرایہ نامہ اور مختلف اسٹیشنوں کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ اس کے ماتھے پر لکھا نام اب بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ اسٹیشن کی عمارت کے پاس ایک کوارٹر کی پرانی عمارت بھی موجود ہے۔

ججہ عباسیاں ؛

اس ٹریک پر تیسرا اسٹیشن خان پور سے 17 کلومیٹر دور ججہ عباسیاں کا تھا جو1908 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ ججہ کی ایک وجہ شہرت یہاں موجود کھجوروں کے وہ باغات ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ محمد بن قاسم کے لشکر کی طرف سے پھینکی گئی کھجور کی گٹھلیوں سے وجود میں آئے اور پھر پھیلتے چلے گئے۔ چونکہ سندھ سے ملتان کی طرف پیش قدمی کرتے محمد بن قاسم کے لشکر نے اس جگہ قیام کیا تھا تو یہ بات درست خیال کی جا سکتی ہے۔ اس علاقے کی کھجور اب بھی بہت مشہور ہے۔

یہاں نواب آف بہاولپور کا ایک محل بھی موجود تھا۔ وہ جب قریب واقع جھیل ڈھنڈ گاگڑی پر شکار کی غرض سے آتے تو یہاں قیام کیا کرتے تھے۔
اکبر کے نو رتنوں میں سے ایک، بیربل کا تعلق بھی یہیں سے بتایا جاتا ہے لیکن کسی تاریخی کتاب میں اس کا حوالہ موجود نہیں۔ ججہ کے پرانے اسٹیشن کی عمارت اب بھینسوں کی قیام گاہ کے طور پہ استعمال ہو رہی ہے۔ گول روشن دانوں اور محرابی دروازوں پر مشتمل یہ عمارت پرانے برطانوی طرز تعمیر کی حامل ہے اور کوٹلہ و ظاہر پیر کے ریلوے اسٹیشنوں سے قدرے بڑی ہے۔

ظاہر پیر ؛

طاہر پیر، اس سفر کا چوتھا پڑاؤ تھا۔ یہ خان پور کے شمال میں اب ایک مرکزی شہر بن چکا ہے جو سکھر ملتان موٹروے (ایم 5) اور نیشنل ہائی وے 5 کے بیچ آباد ہے۔ اس وجہ سے اس کی جغرافیائی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ ظاہر پیر کا اسٹیشن جو شہر کے بیچ میں واقع ہے، آج کل بند ہے۔ اسے اب کوئی خاندان رہائش کے طور پہ استعمال کر رہا ہے۔ بغور دیکھنے پر عمارت پہ ظاہر پیر کا نام مل جاتا ہے۔ اس کی عمارت سادہ ہے۔

چاچڑاں شریف ؛
سرائیکی وسیب کے مشہور صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید کوریجہ رح کی جائے پیدائش چاچڑاں شریف، اس ٹریک پر آخری اسٹیشن تھا جو جنکشن سے 34 کلومیٹر دور دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے۔
اگر یہ ریلوے ٹریک آگے بڑھایا جاتا تو عوام یہاں سے خواجہ صاحب کے جائے مدفن کوٹ مٹھن اور پھر ڈی جی خان و روجھان تک باآسانی سفر کر سکتی تھی۔
یاد رہے کہ اسی جگہ ماضی میں ”انڈس کوئین” نامی بحری جہاز بھی چلا کرتا تھا جس پر راقم کا ایک تفصیلی مضمون موجود ہے۔ بھلے وقتوں میں یہ بحری جہاز زائرین کو چاچڑاں سے کوٹ مٹھن تک لے کر جاتا تھا۔

یہ ٹریک جہاں ختم ہوتا تھا پہلے وقتوں میں دریا اُس مقام سے بہت دور تھا لیکن اب کافی قریب آ چکا ہے۔ ٹریک کے اختتام سے اب چاچڑاں کو کوٹ مٹھن سے ملانے والا ”بے نظیر شہید پُل” شروع ہوتا ہے۔
چاچڑاں شہر کے بالکل شروع میں واقع اس کا قدیم اسٹیشن اب ایک بڑا موٹر گیراج بن چکا ہے جس کی پیشانی پر چاچڑان کا نام اب بھی واضح نظر آتا ہے۔ اس عمارت کی خوبصورت محرابوں اور روشن دان کو اینٹوں سے بند کر دیا گیا ہے۔ کبھی جہاں مسافروں کی چہل پہل اور انجن کی سیٹی گونجتی تھی اب وہاں مکینک کے اوزاروں کی دھم دھم سنائی دیتی ہے۔

یادِ ماضی؛
خان پور ریلوے اسٹیشن کے سب سے پرانے گارڈ اور گارڈ ایسوسی ایشن کے صدر جناب ممتاز علی نے راقم کو بتایا کہ ؛

”میں نے چاچڑاں تک جانے والی ٹرین چلتے دیکھی ہے۔ اُس دور میں کالا انجن (اسٹیم انجن) چلتا تھا جسے چار بوگیاں لگائی جاتی تھیں۔ دن میں دو بار ریل چاچڑاں جایا کرتی تھی۔ ایک صبح آٹھ بجے جبکہ دوسری دوپہر تین بجے۔ اور یہی ریل چاچڑاں سے مسافروں کو لایا کرتی تھی۔
ٹرانسپورٹ تو زیادہ تھا نہیں اس لیئے ٹرین میں بہت رش ہوتا تھا۔ خان پور کے بعد چاچڑاں ہی سب سے بڑا اسٹیشن تھا جہاں دریا کے دوسرے کنارے (کوٹ مٹھن) سے مسافر اور سامان انڈس کوئین پہ آتے تھے اور پھر ٹرین میں سوار ہوتے تھے۔ یہاں بھی ایک ٹرن ٹیبل تھا جو اب نہیں ہے۔ اسٹیم کے بعد پھر ڈیزل انجن کا دور آیا تو 48 پاور کا انجن اس ریل کو کھینچتا تھا۔ اچھا دور تھا وہ ریلوے کا۔”

یہ تھا اس ٹریک کا احوال جسے ہمارے ایک ”مخلص” اور کاروباری ذہنیت کے حامل حکمران نے اپنی لالچ کی وجہ سے اکھاڑ کر سکریپ کے بھاؤ بیچ دیا۔

سوچیں اگر یہ ریلوے ٹریک موجود ہوتا تو کسی اچھے وقت میں ضلع ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کو خان پور کے ذریعے کراچی-لاہور- پشاور کے مرکزی ریلوے ٹریک سے ملایا جا سکتا تھا۔ کوہِ سلیمان کے دور دراز علاقوں سے مرکزی شہروں کا سفر کم وقت میں ہو جاتا۔ پسنجر نہ سہی مال گاڑیاں اور تیل گاڑیاں چلا کر معیشت کو کچھ سہارا ہی دیا جا سکتا تھا۔ اور پھر کسی وقت یہ لائن گوادر سے بھی باآسانی لنک کی جا سکتی تھی مگر حیف اس کی قسمت۔
افسوس ہوتا ہے کے یہ وہ ملک ہے جہاں کچھ نیا بنانے کی بجائے پرانی چیزوں کو بھی ختم کر دیا جاتا ہے۔ اب یہ ٹریک تو بالکل ختم ہو چکا ہے لیکن پرانے نقشوں اور کتابوں میں اب بھی ایک کالی لکیر خانپور سے چاچڑاں تک جاتی دکھائی دیتی ہے۔

julia rana solicitors london

*ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بُخاری*

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply