غالب کی شاعری اور معنی کی افزائش پیہم/ناصر عباس نیّر

غالب کا شعری تخیل کسی ایک اسلوب کی تنگنائے میں قید ہوناپسند نہیں کرتا تھا ۔ان کی شاعری کا سب سے بڑا امتیاز،معنی کو گردش ِپیہم میں رکھنا ہے۔

اس کے لیے کوئی ایک اسلوب ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ایک ہی طرح کا اسلوب صرف تازہ کاری کی آرزو کا قتل نہیں کرتا،بلکہ معنی کی مسلسل افزائش کو بھی محال بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غالب کے یہاں ایک طرف حد درجہ مفرس ، ملا جلا اور عام فہم اسلوب ہے تو دوسری طرف تازہ استعارے ، نئی لفظی رعایتیں اور نسبتیں اور تمثالیں ہیں۔نیز” مماثل حقیقتوں کی تلاش اوران سے حسب دل خواہ نتائج کا استنباط، دقتِ نظری اور معنی آفرینی “۔

اکثرنقاد غالب کے مفرس اسلوب کو غالب کے نو مشقی کے زمانے کی ندامت آمیز یاد کی صورت دیکھتے ہیں۔ وہ غالب کے اپنے بیان کو بہ طور دلیل پیش کرتے ہیں: “ابتدا ے فکر سخن میں بیدل اور اسیر وشوکت کے طرز پرریختہ لکھتاتھا “۔،

لیکن بعد میں وہ سب قلم زد کردیا اور دس پندرہ اشعار نمونے کے باقی رکھ لیے۔بلاشبہ غالب ، بیدل کی طرف بہ طور خاص متوجہ ہوئے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان کے ابتدائی کلام میں بھی عام فہم اردو میں اشعار مل جاتے ہیں
۔
یہی نہیں ان کی مشہور غزلیں ،جیسے :” عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا “، “جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں “، “حسد سے دل اگر افسردہ ہے ،گرمِ تماشا ہو” 1816 کی لکھی ہوئی ہیں جب ان کی عمر فقط انیس برس تھی ۔ آخر ی زمانے میں بھی، اگرچہ فارسیت کم ہو گئی ہو، مگر وہ انداز مل جاتاہے جسے پیچیدہ گوئی کہاجاتا ہے۔غالب کے یہاں اسالیب کے اس تنوع کو افزائش ِ معنی اور گردشِ معنی کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

غالب نے اپنے اشعار میں اس جانب اشارے کیے ہیں۔ اپنی شاعری میں آنے والے ہر لفظ کے بارے میں دعویٰ کیا کہ وہ گنجینہ ء معنی کا طلسم ہے۔ صاف لفظوں میں کہا کہ لفظ اور معنی میں رشتہ ایک اور ایک کا نہیں ہے؛ ایک لفظ ،ایک معنی کو پیش نہیں کرتا۔ یعنی الفاظ کم اور معانی زیادہ ہیں۔کم الفاظ میں زیادہ معنی پیش کریں گے تو طلسم ظہور کرے گا۔ طلسم صرف شاعر کی خلاقیت کا مظہر نہیں، خود معنی کی گردشِ پیہم کا ایک ناقابل ِ یقین ، حواس کو معطل کر دینے والا مظاہرہ بھی ہے۔ غالب جانتے تھے کہ معانی کے اس طلسم کو سہارنا آسان نہیں ہوتا۔

اکثریت کے لیے ان کی روزمرہ دنیا اور اس کی سچائیاں ایک پناہ گا ہ (مگر حقیقتاً زندان) ہوتی ہیں؛ وہ معانی جو ان سچائیوں کو پلٹادینے کی صلاحیت رکھتے ہوں ، یا ان پر سنجیدہ سوال قائم کرتے ہوں ، انھیں سہارنا آسان نہیں ہوتا ۔ اس لیے غالب نے تجویز کیا کہ اگر معنی کا ادارک ممکن نہیں تو صورت کے نیرنگ ہی کو تماشا کرلو۔ آج بھی بہت سے لوگ شاعری کو معنی کی بجائے ، اس کے آہنگ و جمال ہی کو کافی سمجھتے ہیں۔

نہیں گر سرو برگ ادارک معنی
تماشائے نیرنگ صورت سلامت
اور اشعار میں بھی غالب ،معنی کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔
حسرتِ کشِ یک جلوہ معنی ہیں نگاہیں
کھینچوں ہوں سویدائے دل چشم سے آہیں
سرمعنی بہ گریبان شق خامہ اسد
چاکِ دل شانہ کشِ طرہ تحریر آوے

جب معانی زیادہ ہی نہیں ، پیچیدہ ، نامانوس اور تازہ بھی ہوں اور ان کی تخلیق کا عمل مسلسل ہو تو زبان ایک اہم مسئلے کے طور پر سامنے آتی ہے۔ مخصوص طرز یا اسلوب کا مسئلہ ضمنی ہوجاتا ہے۔

زبان کا مسئلہ ، اپنے مافیہ کے اظہار کے مسائل تک محدود نہیں۔ ایک عام لکھنے والے کے لیے رائج زبان اور اس کے محاوروں پر قدرت کافی رہتی ہوگی لیکن غالب جیسے شاعر کے لیے خود زبان ایک مسئلہ ہوتی ہے ۔ غالب ،جس ہندوستانی روایت سے تعلق رکھتے تھے،وہ زبان کو اظہار کے وسیلے سے بڑھ کر ایک بنیادی ،انسانی مسئلے کے طور پر دیکھتی تھی۔ کچھ باتوں کی طرف ہم ابتدا میں اشارہ کرآئے ہیں۔

اصل یہ ہے کہ غالب ، ابتدا ہی سے زبان اور خیال یا معنی کے باہمی فصل کا احساس رکھتے تھے ؛ لفظ کو معنی کی ترسیل کے وسیلے سے زیادہ ، معنی کی ترسیل میں ایک کش مکش میں دوچار ہونے کی صورت دیکھتے تھے ۔لفظ سے مفر نہیں اور معنی کاسیل ہے۔ یہ احساس ہی غالب کو بیدل کی طرف لے گیا۔ غالب نے انیس برس کی عمر میں ایک غزل لکھی جس میں وہ کہتے کہ اگر انھیں بیدل کی لوح ِ مزار کا خط دیکھنے /پڑھنے کو ملے تو ان کی خواہش ہوگی کہ کیسے معانی ، آئنہ بنتے اور کثیر ہوتے ہیں۔

گر ملے حضرت بیدل کا خطِ لوح ِ ِ مزار
اسد، آئنہ پرواز ِ معانی مانگے

آگرہ میں نظیر اکبر آبادی موجود تھے ، غالب ان سے اور ان کی شاعری سے بے خبر نہیں ہوں گے۔ 1812 کے آس پاس دہلی آئے، جس کی گلیوں میں میر (جن کا انتقال صرف د وسال پہلے ہو اتھا)کے ریختے مقبول تھے، وہاں بیدل کی نام نہاد پیچیدہ گوئی میں ان کی دل چسپی کا یقیناً ایک گہرا نفسیاتی سبب تھا۔

تقدیر ہمارے والدین کا فیصلہ کرتی ہے مگر اپنے اپنے خضر کا فیصلہ ہم اپنے گہرے داخلی میلان کے تحت کرتے ہیں اور اپنی تقدیر خود بناتے ہیں۔

غالب کے یہاں اوّل زبان و خیال کے باہمی پیچیدہ رشتے کا احساس موجود تھا اور یہی چیز انھیں بیدل کی طرف لے گئی۔مثلاً بیدل نے کہا ہے: ’حرف بے رنگ از کشادلب دوپہلو می شود ۔ یعنی جیسے ہی حرف بے رنگ زبان سے ادا ہوتا ہے، دو پہلو ہوجا تاہے؛ دو طرفوں کا حامل ہو جاتاہے۔ شعری اظہار، عام سے لفظ کو معنی کے لحاظ سے کثیر اطراف کا حامل بنادیتی ہے۔

لفظ سے مفر نہ ہو اور معنی کا سیل ہو تو شاعر کیا کرے ؟ یہ حالت محض ابلاغ کی نہیں ،بنیادی انسانی صورتِ حال سے اس کا تعلق ہے۔ اسے غالب نے اپنے ایک مشہور شعر میں پیش کیا ہے:
ہاتھ دھو دل سے، یہی گرمی گر اندیشے میں ہے
آبگینہ تندی صہبا سے پگھلا جائے ہے

جسے غالب اندیشے کی گرمی کہہ رہے ہیں ،وہ خیال ومعنی کی حدت ہے، جس کی تاب نہ تو لفظ لاپارہاہے اور نہ آدمی کاوجود۔ لفظ اور وجود کا آبگینہ ، معنی کی تیز شراب سے پگھل رہاہے۔ جیسا کہ ہم پہلے کہہ آئے ہیں ،غالب کے لیے لفظ و معنی کا مسئلہ ، انسانی وجود کی بنیادی حالت کا مسئلہ ہے۔ وہ اندیشے یا معنی کی گرمی کو انسان کے حسی وجود سے الگ نہیں کرتے۔ معنی ،خیالی چیز نہیں ہے ، اس کا انسان کے وجود کے حسی پہلوئوں سے راست تعلق ہے۔نفسِ ناطقہ کو انسان کا حقیقی وجود سمجھنے میں بھی یہی رمز چھپی ہے۔حالی اور ان کے ہم عصرووں نے غالب کو مغربی کینن کی روشنی میں پڑھا تو اندیشے سے متعلق غالب کے اشعار کو تنقید کا نشانہ بنایا؛ انھیں غیر حقیقی کہا۔ مثلاً جو ہر اندیشہ کی گرمی سے متعلق اس شعر کو غلو سے عبارت قراردیا۔

عرض کیجے جوہرا ندیشہ کی گرمی کہاں
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا

نو آبادیات کے ابتدائی عرصے میں جس یورپی ادبی کینن کو ہمارے ادیبوں نے بسر وچشم قبول کیا ،وہ روزمرہ مشاہدے اور عام تجربے میں آنےو الی حقیقت کی عکاسی کو ادب میں تلاش کرنے پر زور دیتا تھا۔ غالب ، اس کینن کی رو سے شاعر ہی قرار نہیں پاتا،لیکن عجیب بات یہ ہے کہ غالب ہی کو سب سے زیادہ توجہ ملی36۔اس زمانے میں غالب تحسین و اعتراض میں معلق نظر آتا ہے۔یوں لگتا ہے جیسے اس زمانے کی تنقید روایت وجدیدیت کی جنگ، غالب کی شاعری کے میدان میں لڑ رہی ہے۔

مذکورہ بالا شعر میں اندیشے کے جوہر کی گرمی اور اسے عرض کرنے کی مشکلوں پر زور ہے۔ صرف معنی نہیں، معنی کی اصل وماہیت کی گرمی کو کیسے معرض ِ اظہار میں لایا جائے جس کا منبع انسانی وجود ہے؟(آگے ہم اس پر بحث کریں گے کہ انسانی وجود کو معنی کا منبع سمجھنے سے ،کیسے ایک اور دنیا میں درکھلتا ہے اور غالب اسے کیسے پیش کرتے ہیں)۔ اس مشکل کو غالب نے نئے انداز میں پیش کیا ہے۔

وحشت کا خیال یا معنی ذہن میں آیا ہی تھا کہ ہم نے وحشت میں جس صحرا کا رخ کرنا تھا ،وہ جل گیا۔ وحشت کے خیال سے صحرا کو کیسے آگ لگ سکتی ہے؟ حالی نے تو سیدھا سادہ جواب دیا کہ مرزا سے چوک ہوگئی ۔اصل یہ ہے کہ غالب مقابلہ کررہے ہیں کہ ہم کیسے معنی و خیال کی اصل کو اپنے وجود میں لیے پھرنے کا حال بیان کریں ؛معنی کی گرمی برداشت سے باہر تھی کہ یہ کشف ہوا کہ معنی کا منبع بھی یہی وجود ہے ، یعنی آگ کہیں باہر سے نہیں آرہی ، اندر ہی سے آرہی ہے، اسے کیسے سہیں؟

یہ آگ ایسی ہے کہ صحرا میں اس کے خیال کی بھی تاب نہیں۔ اس امانت کا بار آدمی ہی نے اٹھانا ہے ۔
یک قطرہ ء خون و دعوتِ صد نشتر
یک وہم و عبادت ِ ہزار اندیشہ

غالب اور دوسروں میں فرق یہ ہے کہ دوسرے اس بار امانت کے سبب تفاخر محسوس کرتے ہیں ،غالب اس کی مشکلیں بیان کرتے ہیں۔د وسرو ں کے یہاں فقط خیال ہے، غالب کے یہاں خیال کو دل وجسم میں جھیلنے کا بیان ہے۔اندیشےکی گرمی کےساتھ نفسِ سوختہ، غالب کی مرغوب ترکیب ہے۔

julia rana solicitors

(جدیدیت اور نوآبادیات ،مطبوعہ اوکسفرڈ، ۲۰۲۱ء میں شامل مضمون سے مقتبس)
ناصر عباس نیّر
۱۵ فروری ۲۰۲۵ء

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply