بلاول اور فخر دونوں دوست بھی تھے اور ایک گاؤں کے رہنے والے بھی۔دونوں اسی بدقسمت کشتی میں سوار تھے جس میں بحیرہ ِروم کے خونی گھاٹ پر چوالیس نوجوان جاں بحق ہوئے ۔انہی چوالیس میں یہ دونوں دوست بھی شامل تھے۔فخر کو تشدد کر کے سمگلرز نے پانی کی نذر کر دیا اور بلاول کسی طرح بچتا بچاتا واپس منڈی بہاؤالدین پہنچ گیا ہے۔بلاول اور فخر اسی ہیومن کارگو کا شکار تھے جس میں باقی چوراسی افراد شامل تھے۔
یہ دلدوز کہانی سات آٹھ سال قبل اس بارات سے شروع ہوتی ہے جو انہی کے گاؤں سے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے شادی ہال پہنچی تھی یہی نہیں انہی ہیلی کاپٹروں سے سارے راستے پھول بھی برسائے گئے اور ہزار ہزار کے نوٹوں کی دتھیاں بھی۔ اسی پر بس نہیں گلیوں گلیوں بڑی کوٹھیاں اور کل کے غریب غربا کی ان بڑی بڑی کوٹھیوں میں پراڈو اور دو تین ملازمین کو دیکھ کر ساتھ والے گھر اور گلی اور گاؤں کے لڑکے بالے کیسے متاثر نہ ہوتے۔اس پر ان کے پاس نہ تعلیم کے وسائل اور نہ گھر اور اپنے اخراجات اٹھانے کی استطاعت۔ نہ ملازمت کے مواقع اور اگر چھوٹی موٹی ملازمت مل بھی جائے تو اخراجات کہاں سے پورے ہوں۔
صدیوں کی محرومی کا ازالہ ہر جائز اور ناجائز طریقوں سے یورپ پہنچ کر انہی ہیلی کاپٹروں پراڈو اور ویگو ڈالوں کی صورت میں نکلنا تھا۔پورے ضلع میں
اب شادیوں پر پراڈو اور ویگو ڈالوں کا رواج ہے۔ کاروں کا زمانہ لد گیا۔اٹلی، یونان، فرانس اور یو کے کے زر مبادلہ نے اہل علاقہ کو مالامال کر دیا ہے۔مین سڑکوں پر شادیوں کے بینر لگوائے جاتے ہیں اور بڑے بڑے شہروں سے ٹک ٹاکرز منگوائے جاتے ہیں۔
بلاول کا کہنا ہے کہ ان کا روٹ کراچی سے موریطانیہ اور مراکش تھا۔مراکش کے کس شہر میں ہم نے وقت گزارا اس کا مجھے علم نہیں۔جب دو تین ہفتے ایک گھر میں رہ کر تنگ آ جاتے تو ایجنٹس دو تین گھنٹے اسی شہر میں گھما پھرا کر کسی اور گھر میں چھوڑ آتے۔وہاں ہمارا قیام چھ ماہ کے لگ بھگ تھا۔ہمارا گھر والوں سے بھی رابطہ ہو جاتا تھا اور چونکہ زیادہ تر لڑکے اسی ضلع کے تھے اس لیے ایک دوسرے کا خیال بھی رکھا جاتا تھا۔چھ ماہ کے لگ بھگ عرصہ گزارنے کے بعد بالاخر ایجنٹس بلکہ سمگلرز نے اچانک ہمیں جانوروں کی طرح ہانکتے ہوئے بتایا کہ ہمیں سپین جانے کے لیے کشتی میں سوار کیا جا رہا ہے۔ہمیں علم تھا کہ یہ سفر دو ہزار کلومیٹر سے زیادہ ہے اور اگر آرام سے بھی جائیں تو چار دنوں میں وہاں پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ ایک عام سی کشتی تھی جس پر چھ سات نیگرو نسل کے لوگ تھے جو بوٹ چلانے والے بھی تھے اور اس کا انتظام کرنے والے بھی۔لبیا سے یہ فاصلہ ساٹھ کلو میٹر بھی ہے۔ہمارے لیے وہاں حالات زیادہ موافق ہوتے ہیں کہ لبیا میں کوئی مرکزی حکومت نہیں ہے۔طالبان کی طرح مختلف علاقوں میں مختلف گروہوں کا کنٹرول ہے۔اسی لیے وہاں سے ہمیں آسانی سے سمندر پار کروایا جا سکتا تھا مگر مراکش لے جایا گیا۔اس کشتی پر چوالیس آدمیوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی مگر اس پر اسی سے زیادہ لوگ تھے اور اس کو چلانے والے اور ایجنٹس سات آٹھ لوگ تھے۔کشتی تین یا چار دن ہی چلی ہو گی کہ اسے عین سمندر کے بیچ کھڑا کر دیا گیا اور ہم پر تشدد شروع کر دیا گیا۔ہم لوگ تعداد میں بھی زیادہ تھے اور جسمانی طور پر بھی ان سے کسی طرح بھی کمزور نہیں تھے۔وہ جس کو مرضی ہوتی بلکہ جو ان کے سامنے ہوتا اس پر تشدد کرتے اور سمندر میں پھینک دیتے۔یہ بہت تکلیف دہ عمل تھا ایک اک کر کے لڑکوں کا مار مار کر پانی کی نذر کر دیا جاتا تھا۔ایک آدمی کو ہتھوڑوں سے مارا گیا اور اس کی آنکھیں نکال دی گئیں۔ہم سب خوفزدہ ضرور تھے مگر ان کو روک بھی سکتے تھے ان سے دوبدو ہاتھا پائی کر کے انہیں سمندر میں پھینک سکتے تھے۔مگر ہمارا مسئلہ یہ تھا کہ اگر ان کو سمندر میں پھینک بھی دیں تو بوٹ کون چلائے گا اور ہم یہیں غرق ہو جائیں گے۔ہماری آنکھوں کے سامنے اتنے لوگوں کو ہلاک کر دیا گیا اور ہم بے بس اور مجبور ہو کر ان کو دیکھتے رہے۔جب وہ چالیس پچاس لوگوں کو سمندر پھینک چکے تو ہمیں عین سمندر میں اسی کشتی میں چھوڑ کر وہ ایک اور کشتی میں سوار ہو کر وہاں سے غائب ہو گئے۔اب ہم تھے اور سمندر تھا اور کھلا آسمان۔ ہمارے پاس جو کچھ بھی تھا جس میں ہمارے کپڑے اور موبائل وغیرہ تھے وہ سب کچھ ساتھ لیتے گئے۔اب نہ کچھ کھانے کا سامان تھا اور نہ کچھ اپنے جسم کی حفاظت کے لیے کوئی چیز باقی تھی۔کشتی کو وہ لاک کر گئے تھے بس وہ سمندر پر ڈولتی رہتی تھی۔ہمیں نہیں معلوم تھا یہ عرصہ کتنے دنوں تک طویل ہو سکتا ہے۔وہاں ہم نے بارہ دن گزارے۔اب ہم سب میں بولنے اور ہلنے جلنے کی بھی طاقت نہیں تھی۔سمندر کا پانی پینے کے لیے ہاتھ تک نیچے نہیں جاتا تھا۔بالاخر ایک دن قدرت مہربان ہوئی اور وہی سمگلرز جو ہمیں اس کشتی میں چھوڑ گئے تھے ایک اور کشتی میں بٹھا کر ایک ویران جگہ پر چھوڑ دیا۔اس کی کہانی دل دہلا دینے والی تھی۔
اب وہ واپس پہنچ کر جیسے اپنے حواس پر قابو پا چکا ہے مگر اس کی کہانی جان کر بھی اور اس کی اور اس کے والدین کی حالت دیکھ کر بھی لڑکوں کا یورپ جانے کا جنون دماغ سے اترنے کا نام نہیں لے رہا۔
یہ بات ارباب ِسیاست کو معلوم ہونی چاہیے کہ غیر قانونی طریقوں سے یورپ کے ممالک میں پہنچ کر ہی گلی گلی بڑی بڑی کوٹھیاں بنی ہیں۔کل کے امرا بے حیثیت ہو چکے ہیں۔ بڑی بڑی کوٹھیوں میں بلیک ویگو ڈالے اور پراڈو کھڑی ہیں۔ان کوٹھیوں اور کالے ویگو ڈالوں کی موجودگی، شادیوں پر موبائل فون تقسیم کرنے اور بیجا اسراف کے مظاہروں نے بیس اکیس سالہ نوجوان نسل میں اپنے ملک میں کسی قسم کی تعلیم، اس اہمیت اور چھوٹی یا بڑی کسی بھی قسم ملازمت کے حصول کو (Irrelevant) غیر متعلق کر دیا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں