تیسرے اور چوتھے شعر کا مضمون اگرچہ ایک ہی ہے لیکن معنویت کے لحاظ سے دونوں کافی مختلف ہیں۔غور کیجیے تو تیسرے شعر میں وجود کی کم مائیگی اور بےثباتی کا مضمون باندھا گیا ہے۔اس میں کوئ کلام نہیں کہ یہ مضمون بہت پرانا ہے، لیکن شعر میں الفاظ کا انتخاب اور استعمال ایسا ہے کہ شعر کی گہری ساخت میں داخل ہوتے ہی شعر کا مضمون رنگ بدلتا ہے۔مثلاً، جب قاری شعر کے دوسرے مصرع میں لفظ “سوچیے” پر وقفہ لیتا ہے تو اسے اس لفظ میں تکرار(Stress) اور استعجابی کیفیت کا فوری احساس ہوتا ہے۔یہی احساس شعر کو استفہامیہ بنا کر معنی کی نئ صورتوں کو جنم دیتا ہے۔ظاہر ہے معنی کی یہ نئ صورتیں شعر کے ابتدائ مضمون کی مرکزیت کو چیلنج کرتی ہیں۔مثلاً؛ شعر کی پہلی قرات اس تناظر میں ہوسکتی ہے کہ ہماری حیثیت محض اس خاک کی ہے جسے بالآخر ہوا اڈا لے جاتی ہے یعنی ہم کوئ مستحکم یا پائیدار وجود نہیں رکھتے۔لیکن دوسرے مصرعہ کے شروع میں لفظ “سوچیے” پر اگر استعجابی وقفہ لیا جائے تو ہماری قرات فوراً استفہامی بن جاتی ہے جو شعر کی پہلی قرات کی مرکزیت کو چیلنج کرتی ہے۔جیسے؛
سوچیے! کہاں اس کی نگہبانی میں تھے؟
یہاں سوال “اس” یعنی “نگہبان” پر اٹھتا ہے کہ اس نے متکلم کو نگہبانی میں رکھا ہی کب تھا۔گویا اب مضمون صرف بےثباتی کا نہیں ہوگا بلکہ لایعنیت کا بھی ہوگا۔یعنی وہ جس کی نگہبانی میں ہونے کا ہمیں یقین تھا، اس کے ہونے پر بھی سوال کھڑے ہوں گے۔
لیکن اب اگر شعر کی قرات اس طرح کی جائے کہ “سوچیے” کے علاوہ لفظ “خاک” پر بھی زور (Stress) دیا جائے تو ایک نیا بلکہ استہزائ مفہوم نکلے گا۔جیسے فرض کیجیے آپ سے کوئ پوچھے کہ کیا آپ اس کی نگہبانی میں تھے؟ اور آپ زور دے کر کہیں “خاک”۔گویا “خاک” بہ معنی “نہیں” صرف نفی کا اظہار نہیں ہوگا بلکہ اس میں ایک طرح کا طنز بھی شامل رہے گا۔لفظوں کا یہی کھیل اس شعر کی مضمون آفرینی کا باعث ہے، ورنہ بےثباتی جیسے گھسے پٹے مضمون کو کسی نئے انداز میں پیش کرنا لگ بھگ محال ہے۔
اچھا! اس شعر میں لفظوں کے اس کھیل کا یہ جادو اس قدر چونکا دینے والا ہے کہ آپ شاعر کے فنی کمال کی داد دئے بغیر نہیں رہیں گے۔آپ پوچھیں گے کیسے؟ تو چلیے شعر دوبارہ پڑھتے ہیں۔
اک ہوا آخر اڑا ہی لے گئ گرد وجود
سوچیے کیا خاک تھے اس کی نگہبانی میں ہم
یہاں شعر میں خاک، ہوا اور گرد میں مناسبت تو آپ کو صاف نظر آتی ہوگی، سوچیے اگر اس مناسبت کو مد نظر رکھتے ہوئے شعر پڑھیں گے تو کیا ہوگا؟ ظاہر ہے محض بےثباتی کے مضمون پر شعر مکمل ہوگا۔یہ Metaraphrasing یعنی متن کے لفظی ترجمے کے سبب ہوگا۔لیکن اگر آپ مناسبت لفظی کو نظرانداز کرکے شعر کی قرات کرتے ہیں، یعنی Paraphrasing کرتے ہیں، تو شعر کا لہجہ استفہامی بن کر نئے معنی پیدا کرتا ہے جیسا کہ ہم اوپر قرات کے مختلف طریقوں سے دیکھ چکے ہیں۔گویا اس شعر میں سارا کمال الفاظ کے کھیل کا ہے جو اس شعر میں مضمون سے لے معنی کی صورتوں کو بدل دیتا ہے۔مضمون میں غیر ضروری طوالت سے بچنے کے لیے آخری دو شعر چھوڑ رہا ہوں لیکن آپ چاہیں تو دونوں اشعار پر غور کرسکتے ہیں۔
“غبار حیرانی” کی غزلوں کے جدید ہونے کی ایک اور ممتاز صفت اس کی مجرد پیکر تراشی ہے۔دراصل یہ سارے پیکر نفسیاتی/عقلی ہیں لیکن جس فن کاری سے انہیں الفاظ کے قالب میں ڈھالا گیا ہے وہ جدید غزل کا تخلیقی امتیاز ہے۔مثلاً یہ اشعار دیکھیے؛
کل گریئہ پیہم نے مری جان بچائ
میں ضبط کی دیوار کے ملبے میں دبا تھا
بیٹھے رہے کہ تیز بہت تھی ہوائے دل
دشت ہوس کا گرچہ ارادہ بہت تھا
“گریئہ پیہم” تو خیر سامنے کا بصری پیکر ہے لیکن “ضبط کی دیوار کے ملبے میں دبا ہونا” ایک ایسا خیالی پیکر ہے جو متکلم کی داخلی کیفیت کا اظہاریہ ہے۔اس پیکر سے شعر کی معنوی فضا پیچیدہ ضرور ہوئ ہے لیکن یہی پیچیدگی اس شعر میں معنی آفرینی کا سبب بھی بن جاتی ہے۔آپ پوچھیں گے کیسے؟ تو دیکھیے “ضبط” کی کوئ ایک وجہ نہ تو متکلم بیان کرتا ہے اور نہ ہی ہم اس کا تعین کرسکتے ہیں، لہذا اسے ایک سے زیادہ صورتوں پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔کم و بیش یہی صورت معنی دوسرے شعر کی بھی ہے۔یہاں “دشت ہوس” اگرچہ بظاہر لاشعور کا استعارہ ہے لیکن چونکہ ہمارا لاشعور خواہشات کا ذخیرہ ہوتا ہے، اس لیے “دشت ہوس” کو کسی ایک چیز کی ہوس پر قیاس کرنا سراسر غلط ہوگا۔مثال کے طور پر غالب نے کجا پہلے اس مضمون کو باندھا ہے، مگر وہ “ہوس نائے و نوش” (یعنی نغمہ و شراب) کہہ کر ہوس کی صورت متعین کرتے ہیں۔
اے تازہ واردان بساط ہوائے دل
زنہار اگر تمہیں ہوس نائے و نوش ہے
(غالب)
اب احمد محفوظ کے شعر کی طرف واپس آتے ہیں۔اس شعر کا پہلا مصرع “بیٹھے رہے کہ تیز بہت تھی ہوائے دل” ایک خیالی پیکر ہے۔”ہوائے دل کا تیز ہونا” یعنی خواہشات کا تیز ہونا اپنے آپ قاری کے ذہن میں کوئ ایسی مجرد امیج پیدا کرتا ہے جس کے بدولت وہ کسی حد تک شاعر کی داخلی کیفیت کو محسوس کرپاتا ہے۔جدید غزل میں اس قسم کی امیجری کا خوب استعمال ہوا ہے مثلاً عادل منصوری کا یہ شعر دیکھیے؛
چھت پر پگھل کے جم گئی خوابوں کی چاندنی
کمرے کا درد ہانپتے سایوں کو کھا گیا
“کمرے کا درد” کوئ حسیاتی پیکر نہ ہونے کے باوجود قاری کے ذہن میں ایک خیالی عکس ابھارتا ہے جو قاری کو وہ مخصوص کیفیت محسوس کرنے میں مدد کرتا ہے جس کی طرف شاعر کا اشارہ ہے۔جدید غزل میں ایسی مثالیں بہت ملیں گی جہاں خیالی پیکروں کے ذریعہ داخلی کیفیت کا بیان ہوا ہو۔
اب جہاں تک جدید غزل کی لفظیات کا تعلق ہے تو آپ کو یاد ہوگا کہ اس غزل نے کلاسیکی لفظیات کی پابندی نہیں کی۔بلکہ نئ لفظیات سے غزل کا ایک نیا محاورہ ترتیب دیا جو اپنے زمانہ میں تو ہدف تنقید رہا لیکن آج کے زمانے کی غزل کی لسانی ساخت کہیں نہ کہیں اسی محاروے سے تشکیل پائ ہے۔ یہی عادل منصوری کی غزل لیجیے جس کا ایک شعر بطور مثال اوپر نقل کیا گیا ہے، اس کی لفظیات کلاسیکی لفظیات سے کافی مختلف اور چیلنجنگ ہے۔چیلنجنگ اس لیے کہ ایک دم نیا محاورہ وہ بھی غزل میں اس وقت تو قابل قبول نہ تھا۔ہرچندکہ اکبر الہ آبادی نے روایتی کینن کو توڑ کر اس طرح کی کوشش ضرور کی تھی لیکن یہ کہنا کہ ان کی یہ کوشش محاورہ بدلنے کی شعوری کوشش تھی غلط ہوگا۔وہ نئ لفظیات کے استعمال میں تنقید سے اس لیے بھی بچ گئے کہ ان کے یہاں نئ لفظیات جدید عہد کے ٹیکنوکریٹک کلچر کے خلاف ایک استہزائ مزاحمت تھی۔برق کے لمپ سے آنکھوں کو بچائے اللہ/روشنی آتی ہے اور نور چلا جاتا ہے/حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا/ پانی پینا پڑا ہے پائپ کا۔۔۔۔۔۔۔اس میں نئ ایجادات اور نئے ناموں کے خلاف اکبر کی مزاحمت اور ان کے تمسخرانہ لہجہ کو صاف دیکھا جاسکتا ہے۔لیکن اس کے برعکس جدید غزل میں نئ لفظیات کا استعمال نئ شعری تھیوری کی باضابطہ عمل آوری کا نتیجہ تھا۔شعرا نے جان بوجھ کر نئے الفاظ استعمال کیے اور کلاسیکی لفظیات سے ہر ممکن انحراف کیا۔یہی وجہ تھی کہ جدید غزل ہدف تنقید رہی۔ترقی پسند نقاد سید محمد عقیل رضوی نے تو “غزل کی کلاسکیت بحران میں ہے” کے عنوان سے باضابطہ مضمون بھی لکھا، یہی نہیں ان کی مشہور کتاب “نئ علامت نگاری” میں انہوں نے جدید غزل کے نئے محاورے کا جو مذاق اڑایا ہے وہ یہ جاننے کے لیے کافی ہے کہ جدید غزل کو کس طرح کے Challenges درپیش تھے۔”سمندر” تنہائ” موت” اور وزیر آغا کی مانیں تو پیڑ، جنگل، پتھر، برف، گھر، شہر، پتے، شاخیں، دھوپ، سورج، دھواں، زمین، آندھی، کھڑکی، دیوار، منڈیر، گلی، کبوتر، دھول، رات، چاندنی اور بعض انگریزی الفاظ جب جدید غزل کا محاورہ ترتیب دینے لگے تو یہ اردو غزل کی کلاسیکی لفظیات سے ہٹ کر ایک نئ چیز تھی۔”غبار حیرانی” کی غزلوں میں بھی اس نئ لفظیات کے نقوش ملتے ہیں لیکن مجموعی ساخت میں ان غزلوں کی لفظیات زیادہ تر کلاسیکی شعریات کے قریب ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ احمد محفوظ کا شعری رجحان زیادہ تر کلاسیکی شاعری کی طرف رہا ہے۔مثلاً یہ اشعار دیکھیے؛
دل بہ فیض شورش وحشت ہے صحرا آشنا
ورنہ اک قطرہ لہو کیوں کر ہو دریا آشنا
ہنگامئہ وحشت تھا جہاں جشن جنوں میں
دیکھا تو وہاں کوئ دوانہ ہی نہیں تھا
دیکھے جو ایک بار رخ یار کی طرف
پھر عمر بھر نہ جائے وہ گلزار کی طرف
دل کے دریا میں ہوئیں غرق تمنائیں تو کیا
موجئہ خوں سے ہے گل رنگ کنارہ اپنا
فنا آہنگ شاید ساز ہستی سے برآمد ہو
کہ آتی ہے صدا تار نفس سے جھنجھنانے کی
شب سیاہ سفر یہ بھی رائیگاں تو نہیں
وہ کیا ہوا جو مرے ساتھ اک ستارہ تھا
ان اشعار کی لفظیات بالخصوص لہجے میں کلاسیکی رکھ رکھاو کو دور سے ہی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ “غبار حیرانی” کی غزلوں کی لفظیات قطعی کلاسیکی ہے یا یہ کہ جدید شعرا نے اس کا استعمال نہ کیا ہو۔آپ ڈھونڈیے تو جدید غزل میں یہ لفظیات کم وبیش ہر شاعر کے یہاں ملے گی، لیکن ایک نئے علامتی مفہوم میں۔پھر نئ لفظیات کا مطلب صرف یہی نہیں ہوتا کہ خاک کی جگہ مٹی، بحر کی جگہ سمندر، دریچہ کی جگہ کھڑکی، کوچہ کی جگہ گلی، برق کی جگہ بجلی یا جادہ کی جگہ سڑک، پگڈنڈی یا راستہ کا استعمال کیا جائے۔بلکہ نئ لفظیات دراصل نئ علامت اور نئے استعارہ کا تشکیلی عمل ہے۔یعنی شاعر چاہے تو خاک، بحر، کوچہ،دریچہ اور برق بھی استعمال کرسکتا ہے لیکن اس شرط پہ کہ وہ ان سے نئے معانی پیدا کرے، یعنی انہیں اپنے عہد کی مجموعی صورت حال کے تناظر میں برت سکے۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر “غبار حیرانی” کی غزلوں میں کلاسیکی لفظیات سے شاعر نے استفادہ کیا ہے تو کیا وہ ان سے نئے معانی و مفاہیم پیدا کرنے میں کامیاب ہوا ہے، یعنی کیا یہ غزلیں جدید عہد کے وجودی بحران کا اظہاریہ بن سکی ہیں؟ اس سوال کا جواب اگر مذکورہ شعری مثالوں کے تناظر میں دیا جائے تو ظاہر ہے ان میں معنی کی نئ صورتیں تو ہیں لیکن یہ صورتیں جدید صنعتی اور مشینی اور میکانیکی تہذیب کی لائی ہوئی مادی خوش حالی، ذہنی کھوکھلے پن، روحانی، دیوالیہ پن اور احساسِ بے چارگی کا ہی اظہاریہ ہیں، یہ طے کرپانا بہت مشکل ہے۔ہاں البتہ اس مجموعے میں ایسے اشعار ضرور ہیں جن میں ذاتی کربناکیوں کا اظہار ملتا ہے۔اگر انہیں فاروقی صاحب کے اس قول پر محمول کیا جائے کہ وہی شاعری جدید ہے جس میں “جدید دور کے احساسِ جرم، خوف، تنہائی، کیفیتِ انتشار اور اس ذہنی بے چینی کا (کسی نہ کسی نہج سے) اظہار ہو”، تو پھر آپ غبار حیرانی کی غزلوں کو جدید نہ کہنے کی جرات نہیں کرسکتے، بلکہ آپ چاہیں تو اس شعر میں بھی جدید عہد کے انسان کی ذہنی بےچینی کا اظہاریہ ڈھونڈ سکتے ہیں؛
مدت تمام ہو بھی گئ انتظار کی
اس باغ میں نہ آئ خبر بہار کی
یا اس شعر میں کہ؛
تری ہی جستجو ہے سب کو لیکن
تجھے پہچانتا کوئ نہیں ہے
آخری شعر کے حوالے سے تو آپ بہ آسانی کہہ سکتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں سارتر کے حقیقی وجود Authentic Being یا یوں کہیں کہ ذات کی جستجو کی طرف اشارہ ہے۔
دراصل بات یہ ہے کہ غزل چاہے ساٹھ سے پہلے کی ہو یا بعد کی، متکلم اگر اپنی ذات سے مخاطب ہو کر کلام کرتا ہے تو مشکل نہیں کہ اس غزل کی تعبیر وجودی بحران (Existential Crisis) سے کی جائے۔یہ تو جدید نقادوں کی وضع کردہ صورتیں ہیں کہ نفئ ذات، تشکیکیت یا استفہامیہ وغیرہ جدید غزل کے شناختی عوامل ہیں جبکہ حقیقت میں شاعر کیا عام انسان بھی جب اپنی ذات سے مخاطب ہوکر کلام کرتا ہے تو اس کے لہجے میں استفہامیہ، یاسیت یا نفی کا احساس ضرور ہوتا ہے اور کیفیت تو عموماً اضطرابی اور تشکیکی نوعیت کی ہوتی ہے، اب صرف اس بنا پر کسی غزل کو جدید تو نہیں کہا جاسکتا۔یہی اصول “غبار حیرانی” کی غزلوں کے لیے بھی ہے کہ انہیں صرف اس بنا پر جدید نہیں کہا جاسکتا کہ ان میں “کسی نہ کسی نہج” سے وجودی بحران کا اظہار ملتا ہے بلکہ انہیں اس بنا پر جدید کہنا زیادہ مناسب اور معقول ہوگا کہ یہ غزلیں فنی سطح پر جدید غزل سے مشابہ ہیں۔
حواشی:
1) تعبیر کی شرح،شمس الرحمن فاروقی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئ دھلی، 2012، ص 19
2) ایضاً
3) ایضاً، ص 42
4) جدید شاعری۔ ایک سیمپوزیم، مطبوعہ: جدیدیت تجزیہ و تفہیم، مرتبہ، ڈاکٹر مظفر حنفی، 1985، لکھنؤ، ص 640
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں