ا ب ج د/حسان عالمگیر عباسی

بالعموم روایتی عملی سیاست سے بچپن ہی سے شغف رکھا ہی نہیں ہے چونکہ سیاست کے باپ داداؤں سے ہیلو ہائے یا تعارف تک بھی نہیں ہے لیکن ظاہر ہے ہم انتخابی سیاست اور مظاہرے اور نام نہاد جمہوری کلچر کے چشم و دید گواہ ہیں وہیں سے پتہ لگ جاتا ہے کہ دنیا کے کانے شیاطین کس طرح اپنی عقل و فہم اور وطیروں کو وحی کا درجہ دیتے ہیں اور کس طرح ڈارک فورسز کو دنیا کے عدل و انصاف کی غارتگری میں صرف کرتے آرہے ہیں۔ سیاست دانوں کو ٹولز بنا دیا گیا ہے اور سیاست دان پھر بھی مونچھ کو تاؤ دیتے ہوئے ڈبل ہکے کے پکے کش ایسے پھینک رہا ہے جیسے ان کا آقا کوئی فرشتوں کی صف سے ہے۔ چونکہ سیاست دان بھی انہیں ڈارک فورسز کا کارندہ ہے تو وہ عالمی ایجنڈوں کی پرواہ کیے بغیر اپنی وڈیرہ شاہی برقرار رکھنے کے لیے کیونکہ بااثر نہیں بننا چاہے گا۔ سیاستدان ٹول ہے اور کارکن بے شرم ہے۔ بے شرم اس لیے ہے کیونکہ اپنے انتہائی قیمتی جذبات کو اس سرمایہ دارانہ شیطانی کھیل میں لگا رہا ہے اور گلا پھاڑ پھاڑ کے اپنے ہونے یا سیاست دان کی حیثیت بڑھانے کے لیے صرف کر رہا ہے۔ عمران خان صاحب بھی اسی نظام کا حصہ ہیں لیکن عمران خان نے ایک کام ضرور کیا ہے۔ اس نے عام لوگوں نوجوانوں کو ضرور ایک عزم و ہمت دیا تھا۔ یہ تسلیم نہ کرنا زیادتی میں شمار ہو گا۔ عام کارکنان جو عفریت سے تنگ تھے انھیں مسیحائی ہی بچا سکتی تھی چونکہ یہی انسانی نفسیات ہے وہ مشکل میں سپر نیچرل فورسز سے ضرور مذاکرات مکالمے کرتا ہے۔ اول تو یہ نقصان دہ ہے۔ جمہوریت میں ایسے ہونا نہیں چاہیے کہ کارکنان آنکھیں بند کر کے کسی قائد کے پیچھے چل پڑیں۔ سوال کریں گے غلطیوں پہ بات ہو گی تو ہی کوئی جماعت بنتی ہے ورنہ پارٹی بلکہ تانگہ پارٹی کی حیثیت بھی نہیں رہتی۔ پی ٹی آئی اور عمران خان کا تعلق بھی ختم ہوتا نظر آرہا ہے اور خان کے بغیر پی ٹی آئی صفر سے ضرب ہے۔ یہاں سے یہی سمجھ آتی ہے کہ سیاست دان کس طرح ٹول کے طور پہ کام کرتا ہے اور کیسے اس ٹول کے پیچھے آقا ہوتے ہیں جو کسی دوسرے آقا کے ٹول ہوتے ہیں۔ ایسے میں کسی کو برا بھلا کہنا ہی فضول لگتا ہے۔ سیاست دان کا قصور ہی کیا ہے سوائے یہ کہ وہ بھدے گانوں میں ناچتا رہتا ہے اور کارکنان کو نچاتا رہتا ہے اور کہتا ہے یہ شعور ہے۔ شعور اوپر سے نہیں آتا۔ شعور اندر کی زبان ہے۔ خاموشی کی زبان ہے۔ ضمیر کی آواز ہے۔ چار اونچے نعرے مارنے سے اندر کی آواز ویسے ہی مر جاتی ہے تو ضمیر بے چارہ کیا ہی قصور وار بنے۔ اس ساری بات کی تشریح یہ ہے کہ جب آوے کا آوا بگڑ جائے تو تُو تُو میں میں کی بجائے عافیت سے رہتے ہیں اور کوئی بھی اچھا کام کرے تو شکر بجا لاتے ہیں۔ میٹرو بن جائے تب بھی شکر ہے۔ لیپ ٹاپ آجائے تب بھی بہتر ہے۔ موٹروے بن جائے تب بھی بہترین ہے اور گرین لائن منصوبے بھی اچھے ہوتے ہیں۔ شعور بانٹنے سے جو بٹا ہے وہ بھی دیکھ لیا ہے۔ صرف بھوکے ننگے غریب لا چار عوام اور مذہبی اذہان کے جذبات سے کھیلا گیا ہے لیکن قوم ہمیشہ پھدو بننے کے لئے تیار بیٹھی رہتی ہے۔ یہ سب کہانی ایک طرف لیکن عمران خان بحیثیت انسان باقیوں سے ہمیشہ مجھے بہتر لگا ہے۔ اسے بھی نہیں پتہ ہو گا کہ کس کھیل کا حصہ ہے لیکن اس کی حرکات و سکنات اور رویے اور زبان سے یہی لگا ہے کہ فطرت اس کی اچھی ہے اور وہ چاہتا تھا کچھ کر سکے لیکن ظاہر ہے کارکنان جب مسیح بنا ڈالیں گے تو مسیحائی ستر برس سے ایسے ہی ہوتی آرہی ہے۔ اب وہی ہے جو ہے۔ جو ہے سو ہے۔ خان صاحب نے عوام کو بہرحال شروع میں مایوسی سے نکالنے میں حصہ ڈالا ہے لیکن اس عوام کو قربانی کی گائے بننے سے اب بچنا ہی چاہیے۔ اب بات عوام کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ بغاوت کی بجائے بیعت ہی وقت کا تقاضہ پے۔ شعوری بغاوت بہرحال ہوتی رہنی چاہیے اور وہ خاموشی ہے۔ عافیت ہے۔ سمجھ دانی کی بہتر خوراک ہے۔ آج تک کئی بکرے قربان ہو چکے ہیں لیکن بکرے ختم نہیں ہورہے۔ اب عوام کو چاہیے شعور پکڑیں اور بکرا نہ بنیں! اپوزیشن کا اکٹھ اچھی بات ہے۔ پرانے سیاسی مخالفین پاپی بن گئے ہیں اچھی بات ہے۔ سیاست دانوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے! آج کی بظاہر ناجائز پارلیمان بھی وقت پورا کر لے تو سالمیت یہی ہے! جو ہے سے ہو! یہاں ا ب ج د والا کلیا ہی لگتا ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply