محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی /ناصرالدین مظاہری

سوامی دیال میرے گاؤں مرزاپور لکھیم پور کھیری کے پردھان تھے، بڑے نیک انسان تھے ، جب سے ہوش سنبھالا تو انھیں اپنے والد ، چچا رحمت اللہ اور دیگر اچھے مسلمانوں سے ان کا ہمیشہ تعلق رہا۔یہی سوامی دیال اور ان کا گھرانا رمضان میں روزے بھی رکھتا تھا اور مسجد کے اعلان کے مطابق سحر وافطار بھی کرتاتھا۔غیرمسلم پردھان تھے لیکن انسانیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی ان ہی کے ایک پڑوسی تھے جن کانام اس وقت ذہن میں نہیں ہے چچا رحمت اللہ نے ان سے ایک کھیت خریدا۔ دونوں طرف انسانیت تھی اس لئے چچا نے بیع نامہ کرانے کی ضرورت نہیں سمجھی ، دونوں بوڑھے ہوتے رہے ، سفینہ عمر اپنی منزل پر پہنچ کر لنگر انداز ہونے والا تھا۔غیر مسلم نے چچا سے کئی بار کہا کہ مجھے میری اولاد کی طرف سے خطرہ ہے کہ بعد میں وہ زمین حوالہ نہیں کریں گے اس لئے میرے جیتے جی اپنی زمین اپنے نام بیعنامہ کرالو۔چچا ٹالتے رہے ،آخر کارایک دن غصہ کے ساتھ بیعنامہ کرانے پر اصرار کیا تو دونوں تحصیل دھورہرہ گئے ، دونوں ہی اچھے خاصے کمزور تھے ، بیان دے کر بیعنامہ کی تکمیل کرائی تب اس غیر مسلم کے بے قرار دل کو قرار آیا۔

آج ہمارے مسلمان ہی مسلمان کی زمینیں ، اراضی ، جائداد اور مال پر قبضہ کے شیطانی تانے بانے بنتے رہتے ہیں۔کچھ پتہ ہی نہیں چلتا ہے کون بڑا مگر مچھ ہے ، جس سے واسطہ پڑجائے وہی مادر پدر آزاد ہوکر حرام خوری پر آمادہ نظر آتایے۔دو ارب مسلمان کہنے میں بہت اچھا لگتا ہے لیکن حقیقی مسلمان چراغ لے کر تلاش کرنے سے بھی ملنا مشکل ہوجاتا ہے۔

ہم نعوذ باللہ اور استغفرُاللہ صرف زبان سے ادا کرتے ہیں ان حروف کا اثر ہمارے حلق کے نیچے نہیں پہنچتا ۔ہمارا دل ہماری حالت پر ماتم کناں ہے ، ہمارے افعال ہمارے اقوال سے متضاد ہیں۔ہم وہ کرتے ہیں جو کہتے نہیں اور وہ کہتے ہیں جو کرتے نہیں۔

کورٹ کچہریوں میں یہی بیس فیصد ہندوستانی مسلمان سب سے زیادہ نظر آتا ہے پولیس تھانوں میں انعامی مجرموں کی لسٹ اٹھاکر دیکھ لیجیے اکثریت مسلمانوں کی ہے ، انکاؤنٹر سارے مسلمانوں کے ہورہے ہیں، اور سنئے جیل میں اکثر وبیشتر قیدی مسلمان ہوتے ہیں۔ تعلیم سے لے کر تجارت تک سبھی جگہ غیر مسلم ہیں اور رکشہ سے لے کر ڈرائیوری تک اور سبزی سے لے کر مزدوری تک سارے دقت طلب اور اندیشے والے کاروبار بھی اپنے ہیں۔

ہمارے جھگڑے جائداد کے تعلق سے ، طلاق کے تعلق سے اور معاشرت کے تعلق سے عموما ہوتے رہتے ہیں ، ہم یہاں بھی خسارے میں ہوجاتے ہیں ، کچہریوں کو ہم چلاتے ہیں، پولیس اسٹیشنوں کے مطالبات مسلمان ہی پورے کرتا ہے ۔ اب تو سناہے بھنگی والے کاموں میں مسلمانوں کا تقرر ہونے لگا یے۔مسند وکرسی پر بابو بن کر غیر مسلم بیٹھا ہے اور اسی کا چپراسی مسلمان ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے  گی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply