فاروق بلوچ

افسانہ: *دروازے کے سوراخ سے چٹان تک* آخری حصہ
مصنف: کامریڈ فاروق بلوچ

۷

رات کی سیاہی گہری ہوتی جا رہی تھی۔ سرد ہوا دروازوں سے ٹکرا رہی تھی اور دور کہیں شہر کی گلیوں میں تنہائی سرگوشیاں کر رہی تھی۔ عورت ابھی تک چٹان کے سامنے بیٹھی تھی۔ اس کی انگلیاں زخمی ہو چکی تھیں، مگر اس کے ہاتھ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔

دریچوں کا آدمی بھی وہیں کھڑا تھا۔ اس کے لیے یہ منظر نیا تھا—کسی کو یوں چٹان کے سامنے جمے رہتے دیکھنا، بے مقصد لگنے والے کام میں مسلسل جتے رہنا، بغیر ہار مانے، بغیر پلٹے۔

وہ کچھ دیر خاموش کھڑا رہا، پھر آگے بڑھ کر بولا، “تمہارے ہاتھ زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ چٹان تمہاری انگلیوں کی ضرب سے نہیں ٹوٹے گی۔”

عورت نے آہستہ سے جواب دیا، “یہ چٹان میرے ہاتھوں سے نہیں، میرے صبر سے ٹوٹے گی۔”

یہ جملہ دریچوں کے آدمی کے اندر کسی گہرے راز کی طرح اترا۔ اس نے ہمیشہ لوگوں کو راستے بناتے دیکھا تھا، مگر یوں، کسی کو ایک ہی جگہ پر جمے دیکھنا، یہ الگ بات تھی۔

“لیکن اگر یہ نہ ٹوٹی تو؟” اس نے دھیرے سے پوچھا۔

“تو میں جان جاؤں گی کہ میں نے کم از کم ایک راستہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ وہ راستہ جو آسان نہیں ہوتا، مگر وہی اصل راستہ ہوتا ہے۔”

۸

دریچوں کے آدمی نے ایک لمحے کے لیے سوچا۔ اس نے اپنی پوری زندگی ان لوگوں کے درمیان گزاری تھی جو رُکنے کے بجائے نکلنے کے طریقے ڈھونڈتے تھے، جو موقع ملتے ہی دروازے کے کسی سوراخ سے کھسک جاتے تھے، بنا کسی کو خبر ہونے دیے۔ وہ خود بھی انہی میں سے ایک تھا۔ وہ کبھی کسی کے پاس زیادہ دیر نہیں ٹکا، کبھی کسی جگہ کو اپنا نہیں سمجھا۔

مگر آج، اس عورت کو دیکھ کر، اسے لگا جیسے وہ پہلی بار کسی ایسی چیز کا سامنا کر رہا ہے جو ہمیشہ نظر انداز کرتا آیا تھا—ثابت قدمی۔

“کیا میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں؟” اس کے منہ سے بےساختہ نکلا۔

عورت نے چونک کر اسے دیکھا، اور پہلی بار، ایک ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر نمودار ہوئی۔

“ہاں، اگر تم واقعی چاہو تو۔”

۹

دریچوں کا آدمی جھجک کے ساتھ چٹان کے قریب آیا۔ اس نے عورت کے ہاتھوں کی طرف دیکھا—انگلیوں سے خون رِس رہا تھا، مگر اس میں کوئی شکوہ نہیں تھا، کوئی مایوسی نہیں تھی۔

اس نے چٹان پر ہاتھ رکھا، اس کی سختی محسوس کی، اور سوچا: “یہ نہیں ٹوٹے گی۔”

مگر پھر اس نے عورت کی طرف دیکھا، جو اب بھی ضرب لگا رہی تھی، اور اس کے ہاتھ خودبخود حرکت میں آ گئے۔ اس نے بھی پتھر اٹھایا اور چٹان پر ضرب لگانے لگا۔

یہ شاید پہلی بار تھا کہ وہ نکلنے کے بجائے کسی چیز کو توڑنے کی کوشش کر رہا تھا—ایک دروازے کے سوراخ سے فرار کے بجائے، ایک چٹان میں راستہ بنانے کی کوشش۔

۱۰

شہر کے باسی صبح سویرے جب نکلے، تو انہوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ وہ عورت جو رات بھر چٹان کے سامنے بیٹھی تھی، اب اکیلی نہیں تھی۔ دریچوں کا آدمی بھی اس کے ساتھ تھا، اور وہ دونوں مسلسل چٹان پر ضربیں لگا رہے تھے۔

کسی نے ہنسی اڑائی، کسی نے کندھے جھٹک دیے، کسی نے طنز کیا۔

“یہ لوگ دیوانے ہو چکے ہیں!”
“چٹان میں کوئی راستہ نہیں بنتا!”
“یہ آخر کس خواب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں؟”

مگر وہ دونوں سنتے رہے، اور اپنے کام میں لگے رہے۔

پھر اچانک، ایک لمحہ آیا—چٹان پر ایک باریک سی درز پڑ گئی۔

یہ بس ایک معمولی درز تھی، مگر وہ وہیں رک کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔

دریچوں کے آدمی کے چہرے پر حیرت تھی، اور عورت کی آنکھوں میں ایک گہری، پراسرار مسکراہٹ۔

“میں نے کہا تھا نا، جو رہنا چاہے، وہ چٹان میں بھی سوراخ کر سکتا ہے۔” عورت نے آہستہ سے کہا۔

دریچوں کا آدمی کچھ لمحے خاموش رہا، پھر دھیرے سے مسکرایا۔

“شاید میں نے بھی پہلی بار کسی چیز کو چھوڑنے کے بجائے، اس کے ساتھ کھڑے رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

۱۱

چٹان میں پڑی درز چھوٹی تھی، مگر وہ موجود تھی۔ جیسے کسی نے خاموشی کی دیوار میں پہلی چیڑ ڈال دی ہو۔ دریچوں کا آدمی اسے چھو کر حیران تھا—یہ حقیقت تھی، خواب نہیں۔

عورت نے اپنے زخمی ہاتھوں کو دیکھا، پھر چٹان کو، اور ایک گہری سانس لی۔ وہ تھکی ہوئی تھی، مگر اس کے چہرے پر سکون تھا۔

شہر کے لوگ کچھ دیر تک حیرت سے یہ منظر دیکھتے رہے، پھر بےزاری سے کندھے جھٹک کر چل دیے۔ ان کے لیے یہ ایک بےمعنی کوشش تھی، ایک سراب کا تعاقب۔

مگر دریچوں کا آدمی جان چکا تھا کہ وہ جو کچھ بھی دیکھ رہے تھے، وہ سراب نہیں تھا—یہ ایک انتخاب تھا، ایک فیصلہ۔

۱۲

رات ہونے لگی، اور چاندنی چٹان پر پڑی درز کو مزید نمایاں کر رہی تھی۔

“کیا تم تھک نہیں گئیں؟” دریچوں کے آدمی نے پوچھا۔

عورت نے دھیرے سے سر ہلایا۔ “ہاں، مگر میں رکوں گی نہیں۔”

دریچوں کے آدمی نے پہلی بار محسوس کیا کہ وہ بھی تھکا نہیں تھا، حالانکہ وہ ہمیشہ ہی زندگی کے بوجھ سے بیزار رہا تھا، ہمیشہ دروازے کے سوراخ سے نکلنے کا سوچتا رہا تھا۔ مگر آج، اس چٹان کے سامنے، وہ کھڑا تھا۔

“ہمیں یہ درز اور بڑی کرنی ہوگی۔” اس نے خود سے کہا۔

اور وہ دونوں دوبارہ کام میں لگ گئے۔

۱۳

دن گزرتے گئے۔

بارشیں ہوئیں، سورج نکلا، ہوا چلی، مگر وہ دونوں وہیں رہے۔ چٹان کی درز آہستہ آہستہ بڑی ہوتی جا رہی تھی۔

شہر کے لوگ آتے، دیکھتے، مذاق اڑاتے، اور چلے جاتے۔

“یہ پاگل ہیں!”
“یہ چٹان نہیں ٹوٹے گی!”
“یہ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں!”

مگر وہ سنتے نہیں تھے۔ وہ جانتے تھے کہ وہ کس راہ پر چل رہے ہیں، اور وہ جانتے تھے کہ اس راہ میں وقت لگتا ہے۔

۱۴

پھر ایک دن، وہ لمحہ آیا۔

عورت نے ایک آخری ضرب لگائی، اور اچانک، چٹان میں ایک بڑا شگاف پڑ گیا۔ پہلے درز، پھر ایک لکیر، اور پھر ایک راستہ—چھوٹا، مگر حقیقی۔

وہ دونوں دم بخود کھڑے اسے دیکھتے رہے۔

دریچوں کے آدمی نے اپنے ہاتھ چٹان پر رکھے اور آہستہ سے سرگوشی کی، “یہ ممکن تھا… ہمیشہ سے ممکن تھا…”

۱۵

شہر کے لوگ جمع ہو گئے۔

وہ حیرت میں تھے، بےیقینی میں، کچھ خوفزدہ بھی۔

“یہ کیسے ہوا؟”
“یہ تو ناممکن تھا!”
“کیا واقعی کوئی چٹان میں سوراخ کر سکتا ہے؟”

مگر اب الفاظ بےمعنی تھے۔

وہ دونوں، عورت اور دریچوں کا آدمی، چٹان کے پار دیکھ رہے تھے۔ وہاں روشنی تھی، ایک نئی دنیا، ایک نیا امکان۔

دریچوں کے آدمی نے پہلی بار محسوس کیا کہ وہ اب کسی دروازے کے سوراخ سے نکلنے کا متلاشی نہیں تھا۔ وہ اب ایک نیا راستہ بنانے والا تھا۔

عورت نے مسکرا کر اسے دیکھا اور کہا، “میں نے کہا تھا نا، جو رہنا چاہے، وہ چٹان میں بھی راستہ بنا لیتا ہے۔”

Advertisements
julia rana solicitors

اور پھر وہ دونوں، اس نئے راستے پر قدم رکھ کر، آگے بڑھ گئے۔

 

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply