یہ شہر عجیب تھا۔ یہاں ہر دروازہ ایک داستان تھا، اور ہر داستان ادھوری۔ یہاں کے باسی عجیب تھے—نہ مکمل رخصت ہوتے، نہ مکمل قیام کرتے۔ وہ لوگ جو ایک دوسرے کے قریب آتے، کچھ وقت ساتھ گزارتے، پھر اچانک دروازے کے کسی سوراخ سے باہر نکل جاتے، جیسے ہوا میں تحلیل ہوگئے ہوں۔
“دریچوں کا آدمی”، جسے سب یہی نام دیتے تھے، اس شہر کا خاموش باسی تھا۔ وہ ہمیشہ دروازوں کے پاس بیٹھا رہتا، ان لوگوں کو دیکھتا جو آتے اور چلے جاتے۔ اس نے کتنے ہی تعلق بنتے اور بگڑتے دیکھے۔ وہ جان چکا تھا کہ کوئی اگر جانے کی ٹھان لے تو ایک ذرے جتنی جگہ بھی کافی ہوتی ہے۔ لوگ اپنا راستہ بنا لیتے ہیں، خواہ وہ دروازے کے سوراخ سے ہی کیوں نہ نکلنا پڑے۔
لیکن وہ سوچتا تھا، “اگر کسی کو ٹھہرنا ہو تو کیا وہ بھی ایسا ہی کرتا ہے؟”
۲
ایک دن، جب شہر کی فضا میں خزاں کا رنگ گھل رہا تھا، اس نے ایک عورت کو دروازے کے اس پار کھڑے دیکھا۔ وہ عام چہرہ نہیں تھا—اس کی آنکھوں میں ایک عجیب چمک تھی، جیسے وہ کسی حقیقت سے واقف ہو جو باقی سب سے پوشیدہ تھی۔
“تم یہاں کیوں آئی ہو؟” دریچوں کے آدمی نے پوچھا۔
“میں وہ ہوں جو چٹان میں سوراخ کر سکتی ہے۔” عورت نے دھیمے لہجے میں کہا۔
وہ حیران ہوا۔ “چٹان میں سوراخ؟ یہاں تو لوگ دروازے کے سوراخ سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈتے ہیں، اور تم چٹان میں راستہ بنانے کی بات کر رہی ہو؟”
عورت مسکرائی، جیسے یہ سوال اس کے لیے نیا نہ ہو۔ “جو جانے کا ارادہ کر لے، وہ ہوا کی درز میں سے بھی نکل جائے گا، اور جو رہنے کا فیصلہ کر لے، وہ چٹان میں بھی سوراخ کر کے جگہ بنا لے گا۔”
دریچوں کا آدمی خاموش ہو گیا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ جملہ محض الفاظ نہیں، ایک فیصلہ تھا، ایک سوال بھی تھا، اور شاید ایک چیلنج بھی۔
۳
شہر کے باسی اب عورت کو دیکھنے لگے۔ کچھ نے اسے مذاق سمجھا، کچھ نے حیرت سے سر ہلایا۔ مگر
۴
وہ عورت، جو کہتی تھی کہ وہ چٹان میں سوراخ کر سکتی ہے، اب ایک بڑی، سخت اور بےلچک چٹان کے سامنے بیٹھی تھی۔ شہر کے باسی اس کی طرف حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ وہ سب جانتے تھے کہ یہ شہر ان لوگوں کا تھا جو نکلنے کے بہانے ڈھونڈتے تھے، دروازے کے سوراخ سے گزر جانے والے، آہٹ تک نہ چھوڑنے والے۔ مگر یہاں کوئی چٹان میں سوراخ کرنے کا دعویٰ کرے، یہ ان کے لیے ناقابلِ فہم تھا۔
دریچوں کا آدمی بھی دیکھ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ شاید یہ عورت بھی وہی کرے گی جو باقی سب نے کیا—کچھ وقت گزارے گی، کچھ امیدیں جگائے گی، اور پھر کسی کونے سے خاموشی سے نکل جائے گی۔ مگر اس کے چہرے پر جو عزم تھا، وہ مختلف لگتا تھا۔
عورت نے اپنی انگلیاں چٹان پر پھیریں، جیسے کسی پوشیدہ دروازے کی تلاش کر رہی ہو۔ پھر اس نے مٹی سے کچھ پانی لیا، اسے چٹان پر ملنے لگی، اور ایک چھوٹے پتھر سے ہلکی ہلکی ضربیں لگانے لگی۔
شہر کے لوگ ہنسنے لگے۔
“یہ کیا کر رہی ہے؟”
“کیا اسے معلوم نہیں کہ چٹان میں راستہ نہیں بنتا؟”
“یہ ایک اور سراب کے پیچھے بھاگ رہی ہے!”
۵
دریچوں کا آدمی سب سن رہا تھا، مگر وہ خاموش تھا۔ اس کے اندر ایک عجیب بےچینی تھی۔ وہ ہمیشہ جانتا تھا کہ جو لوگ جانا چاہتے ہیں، وہ کسی نہ کسی راہ سے چلے جاتے ہیں۔ مگر اگر کوئی رکنے کا ارادہ کر لے، تو کیا واقعی وہ چٹان میں راستہ بنا سکتا ہے؟
اس نے آگے بڑھ کر عورت سے پوچھا، “تم کیوں یہ سب کر رہی ہو؟ تم جانتی ہو کہ یہ چٹان نہیں ٹوٹے گی۔”
عورت نے مسکرا کر جواب دیا، “یہ چٹان میری ثابت قدمی کا امتحان ہے۔ اگر میں اسے توڑ نہ بھی سکی، تو کم از کم یہ جان جاؤں گی کہ میں نے واقعی کوشش کی تھی۔ مگر اگر میں ہار مان لوں، تو میں بھی انہی میں سے ایک بن جاؤں گی جو بہانے تلاش کرتے ہیں، درزوں سے نکل جاتے ہیں۔”
یہ الفاظ دریچوں کے آدمی کے اندر کسی زلزلے کی طرح گونجے۔ اس نے پہلی بار محسوس کیا کہ وہ ہمیشہ صرف دیکھنے والا تھا، خود کبھی کسی چٹان کے قریب نہیں گیا تھا۔
۶
رات گہری ہو رہی تھی۔ عورت اب بھی چٹان کے ساتھ بیٹھی تھی۔ اس کی انگلیاں زخمی ہو چکی تھیں، مگر وہ اب بھی پتھر پر ضربیں لگا رہی تھی۔
شہر کے لوگ آہستہ آہستہ بیزار ہو کر واپس جانے لگے۔ ان کے لیے یہ محض ایک اور کہانی تھی، ایک اور ناکام کوشش۔

مگر دریچوں کا آدمی وہیں کھڑا رہا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کا پورا وجود کسی دروازے کی دہلیز پر آ کھڑا ہوا ہو—وہ فیصلہ کن لمحہ، جب کوئی یا تو کسی سوراخ سے نکل کر غائب ہو جاتا ہے، یا پھر چٹان میں اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں