ترقی پسند تحریک برصغیر میں تازہ ہوا کاوہ جھونکا تھا جس نے ادب کے چمن زار کو ایسی بہار عطا کی جس پر آج تک خزاں نہیں آئی۔ ہر دور میں اس خوش گوارجھونکے نے طرح طرح کے پھول کھلائے اور یہ سلسلہ ہنوزجاری ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی ادبی سرگرمیوں نے لوگوں میں زندگی کو ایک نئی ڈگر پر لانے کی جو سعی تقریباً نوے برس پہلے شروع کی تھی اس نے شعروادب کو ایک منفرد اسلوب فراہم کیا جس کی تازگی آج تک قائم ہے۔ ہر چند کہ اس تحریک نے عہدِحاضر تک آتے آتے مختلف انداز کے نشیب و فراز دیکھے لیکن اس قافلے کے رہروان ادب کی رفتار دھیمی نہیں ہوئی اور آج بھی اس سے وابستہ لکھاریوں کی تحریر اسی اسلوب کا واضح اظہار ہوتی ہے جس نے اردو ادب کا رُخ موڑ دیا۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ترقی پسند تحریک نے اہل ادب اور خصوصاً شعرا کو دربار سے نکال کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھایا ورنہ اس سے پہلے غالب جیسا اناپسند شاعر بھی دربار سے وابستگی کو باعث توقیر سمجھتا تھا۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد نوابین اور راجہ مہاراجوں کے دربار شعرا کے سلامِ نیاز سے سجنے لگے وہ تو بھلا ہو انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کا جس نے اس رویے کا رُخ موڑ کر زندگی کے حقیقی معاملات کی طرف کردیا اور لکھنے والے دربار سے نکل کر ادب کی شاہراہ پر تیز تیز قدم بڑھانے لگے اور اپنے مخصوص نظریے کے سبب ایک نئی تاریخ رقم ہونے کا آغاز ہوا، عہدِ حاضر تک آتے آتے اس قافلے میں سجاد ظہیر کے ساتھ پروفیسر احمدعلی، رشیدہ جہاں، ڈاکٹر عبدالعلیم، منشی پریم چند، حسرت موہانی، مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی، علی سردار جعفری، مخدوم محی الدین، فیض احمد فیض، جوش ملیح آبادی، احمد ندیم قاسمی، سیدسبط حسن، خالدعلیگ وغیرہ شامل ہوتے گئے اور ہر عہد میں ترقی پسندی کے اسلوب کی روشنی میں اپنے لفظ جگمگانے کی کوشش کرتے رہے ۔عہدِحاضر میں ترقی پسندی کا ایک روشن نام شاہد رضوی ہے جس کی کلیات حال ہی میں “اندازِ سخن اور” کے نام سے منظرعام پر آئی۔ گیٹ اپ کے اعتبار سے خوب صورت۔ اس کتاب کی خوبی اس کی قیمت کا نہایت مناسب ہونا ہے۔ فی زمانہ اتنی ضخیم کتاب کا اتنا کم قیمت ہونا ہی ادب دوستی کا ثبوت ہے۔کیوں کہ بہت سی کتابیں صرف اس لیے قارئین تک نہیں پہنچتیں کہ وہ قوتِ خرید سے باہر ہوتی ہیں۔ شاہدرضوی کی یہ کلیات ایک ایسے شاعر کے خیالات کا اثاثہ ہے جو آخری سانس تک اپنے نظریے سے وابستہ رہا۔ اس کتاب میں عمدہ نظمیں بھی ہیں اور اپنے روایتی احساس کی جدت سے گندھی غزلیں بھی ، لیکن ان سب کے منظر میں مارکسزم کی گونج موجود رہتی ہے۔ شاہد رضوی کی یہ کلیات ان کی تین مجموعوں “دشت حیراں”، “قبائے جنوں” اور “شہروفا” پر مشتمل ہے۔ ان کے خیالات کا اظہار ترقی پسندی کے مخصوص اسلوب کا شاہد ہے۔ ان کے ہاں جمالیات، حقیقت پسندی کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی دکھائی دیتی ہے اور کہیں بھی اظہار کی روانی میں روکھا پھیکا پن نہیں آنے پاتا۔
میرا بچہ
جو دنیا میں آج ہی آیا ہے
توپوں کی گھن گرج سے ڈر کر سہم گیا ہے
اپنے جنگی نعرے اور بموں کے دھماکے بند کرو
میں اس کی آواز سننا چاہتا ہوں
شب سیاہ میں بستی کا چہرہ جلتا ہو
گلی گلی در و دیوار سینہ چھلنی کیے
کھڑے ہوں نوحہ کناں
مگر غلامی اہل ستم قبول نہیں
اس کے علاوہ “رشتے”، “بلوچستان”،” ۱۹۷۷ء” ،” ترنم عزیز” وغیرہ جیسی نظموں سے یہ کتاب مزین ہے جو اپنے عہد کی سیاسی اور سماجی تاریخ پر مرتب کرتی ہوئی چلتی ہے ۔ ان کی نظموں کا یہ انداز ان کی غزلوں میں بھی بعینہ پایا جاتا ہے کہ
دیپ جلا و آندھی میں پھر بجھتے ہیں تو بجھنے دو
تھوڑی راہ تو روشن ہوگی تھوڑی دور تو جاو گے
ساری جبیں پہ سجدوں کے گٹے پڑے ہوئے
کیا خوب ہورہا ہے یہاں آدمی کیساتھ
بھوکے بچے دن بھر بہلے سنگباری کو کھیل سمجھ کر
جس نے انھیں بہلائے رکھا وہ دیوانہ مر ہی گیا
لعنت ہے اک نشاط ہوس کار اقتدار
اے کاش آدمی کے برابر ہو آدمی
اے راہروان مقتل جاں یہ بات سمجھنا لازم ہے
گرد ست ستم کو روکنا ہے قاتل سے الجھنا لازم ہے
ہر ایک بات یہ پھرتے ہو اپنی بات سے تم
کچھ ایسی بات کرو اعتبار باقی رہے
اس طرح کے جدید اشعار سے یہ کتاب مزین ہے جو آپ کو عہدحاضر کے مسائل سے جڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور اپنی تازہ کاری کی دلیل بھی ہیں۔ اس کے علاوہ شاہد رضوی کے ہاں جدت ادا کے ساتھ واعظ پر خوب صورت طنز کی پرچھائیاں بھی ملتی ہیں جن میں ان کے اسلوب کی کاٹ موجود ہے:
بے سوچے آپ کرنے لگے ہیں مطالبہ
اسلامی عدل کا یہاں پرچم علم کریں
ایسا نہ ہو کہ تفرقہ بازی کے جرم میں
مولانا پہلے آپ کا ہم سر قلم کریں
جدید افکار اورجمالیاتی حس کی ہم آہنگی سے سجی اس کتاب کو کامریڈ امام علی نازش، وارث رضا، شبیر آزاد اور رعنا رضوی کے مضامین قاری کو مطالعے کی دعوت دیتے ہیں۔
رعنا رضوی جو شاہد رضوی کی صاحب زادی ہیں انھوں نے اس کلیات کی اشاعت کا اہتمام کرکے اہل ادب کے لیے زندگی اور زندہ دلی کا میدان سجادیا ہے جہاں لفظ وخیال کے موتی بکھرے پڑے ہیں جوپڑھنے والے کے لیے دعوتِ فکر بھی ہیں اور اذن مطالعہ بھی۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ کلیات ایک کھوئے ہوئے شاعر کو پھر سے ادب کے قارئین میں محبوب بنادے گا۔

صفحات: ۶۸۰
زیراہتمام: مکتبہ رضوی کراچی پاکستان
قیمت: ۶۰۰ روپے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں