کچھ سچے اور ہولناک واقعات/پرویز مظفر

۱ : والد صاحب کے انتقال کے بعد غالباََ نومبر یا  دسمبر ۲۰۲۰ کے شروع میں شمیم حنفی صاحب نے ویڈیو کے ذریعہ والد محترم کو خراج عقیدت پیش کیا، اُس میں ایک ہلکا سا اشارہ یہ بھی تھا کہ کچھ کام اُنہوں نے ( مظفر حنفی) نے دوسروں کے لئے بھی کیے اور احسان فراموش کا لفظ استعمال کیا۔  یہ اشارہ نارنگ صاحب کی  طرف تھا۔ نارنگ صاحب تک یہ بات پہنچ گی،  انسان کے دل میں کچھ   تو ہوتا ہے۔ جنوری ۲۰۲۱ میں مجلس فروغِ اُردو ادب دوحہ قطر کی جوڑی بیٹھی اور اس سال کا انعام شمیم حنفی صاحب کو دے دیا گیا ۔حالانکہ یہ انعام ۲۵ سال سے زیادہ سالوں سے دیا جا رہا ہے اور نارنگ صاحب ہندوستان میں اس کے نگراں ہیں مگر کیوں کہ  وہ شمیم حنفی صاحب سے ناراض رہتے تھے اس لیے کبھی اس طرف سوچا نہ گیا ( ماچس کی تیلی لگانے میں افتخار عارف صاحب کا بھی ہاتھ تھا , اُن کے خطوط نارنگ صاحب کے نام اس کی  گواہی دیتے ہیں) ۔ کہیں کچھ اور انکشاف نہ کر دیں اُن کتابوں کے بارے میں جو مظفر حنفی کے نام سے شائع ہونی  چاہیے تھیں ۔ انعام ملا، بات آئی گئی ہوگی۔ ( والد صاحب کا بہت اچھا جواب تھا اِس سلسلے میں، جسے میں  اپنے پاس محفوظ رکھتا ہوں )۔

2:والد صاحب نے اپنے دو ترجمہ کردہ ناول ،بین الاقوامی لُٹیرے اور پہیلی کوٹھی کے مسودے اظہار اثر کو پبلشر تک پہنچانے کے لیے دیے ۔اسّی بیس دونوں حضرات کے بیچ کچھ اختلاف ہو گئے اور اظہار اثر دونوں مسودے دبا کر بیٹھ گئے ۔ نہ واپس لیے اور نہ پبلشر تک پہنچایا ۔

۳ : والد محترم نے کتاب نما کے لیے جائزے مرتب کی ،اُس میںصلاح کار کے طور پر خالد محمود کو   اس لیے رکھ لیا تھا کہ  اُن کو تیزی سےادبی سفر طے کرنے میں آسانی ہو۔ کیوں کہ  وہ  نئے  نئے بھوپال سے دہلی وارد  ہوئے تھے اور پروفیسر عبدالقوی دسنوی صاحب نے سفارش کی تھی ۔ جو دونوں حضرات کے اُستاد  تھے ۔جامعہ سیکنڈری  سکول میں نوکری بھی اسی وسیلے سے ملی تھی ۔ آج پروفیسر خالد محمود ” جائزے” کو اپنی کتاب بتا کر اپنی  سی وی اور کتابوں پر شائع کرتے ہیں۔ والد محترم کا نام بھی نہیں لگاتے ۔
ان واقعات پر جیتنا ماتم کیا جائے کم ہے ۔

نوٹ؛یہ تحریر آزادی اظہار رائے کے طور پر شائع کی جارہی ہے،اگر تحریر میں نام لیے گئے کوئی حضرت اس سلسلے میں اپنا موقف بیان کرنا چاہیں تو مکالمہ کے صفحات حاضر ہیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply