لوڈوگ وون مائیسس: فکری ہمت و دلیری کی داستان/سجیل کاظمی

ایک ایسے وقت میں جب مارکسزم اور فاشزم تیزی سے یورپ پر چھائے رہے تھے۔ بشمول آسٹریا کے، اور یہ نظریات صرف حمایت حاصل نہیں کررہے تھے بلکہ اس کے حمایتیوں نے لوگوں کا ذہن ایسا بنا لیا تھا کہ لوگ ان کو تاریخ کے ناگزیر نتائج کے طور پر دیکھتے تھے، وہ کہتے تھے کہ یہ نظام تو آنا ہی آنا ہے۔ آج نہیں تو کل، یہ بات کو بہ کو پھیل چکی تھی کہ لبرل ازم تو پرانا ہوگیا اور انسانیت کو جتنی ترقی دے سکتا تھا دے چکا اور اب یہ بوسیدہ اور بیکار ہوچکا ہے لہذا اب اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
لیکن ایسے دور کے باوجود، ایک مردِ آہن تنہا کھڑا تھا۔ آزادی اور انفرادیت کے محافظ کے طور پر اور وہ تھے لوڈوگ وون مائیسس۔ ان کا مذاق اڑایا گیا، سرمایہ داروں کا پالتو کہا گیا، انھیں تنہاء کردیا گیا، اپنی نظریہ کھل کر بیان نہیں کرنے دیے گئے، یہاں تک کہ یونیورسٹیوں سے بھی دور کردیا۔ دنیا کے ہاتھوں اس طرح رسوائی ہونے کے باوجود، مائیسس کبھی پیچھے نہیں ہٹے اور نہ انہوں نے کبھی ہمت ہاری بلکہ اپنی تحقیق پر کام کرتے رہے۔
مائیسس کو اپنے نظریات کے بہتر ہونے کا یقین تھا لہذا وہ اپنے نظریات سے وفا دار رہے۔ ان کا ماننا تھا کہ آزادانہ منڈی، نجی ملکیت، ذاتی انتخاب اور ذاتی آزادی، نہ صرف ممکن ہے بلکہ انسانی ترقی کی ضامن ہے۔ جیسے جیسے سوشلزم زور پکڑتا گیا، مائیسس تنہاء سے تنہاء ترین ہوتے چلے گئے۔ کوئی اتحادی نظر میں نہیں تھا، ان کے ساتھیوں نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ لیکن وہ کام کرتے رہے۔
مائیسس کی اس حد تک مضبوط اعصابی کے پیچھے ایک ستون کھڑا تھا اور وہ تھیں ان کی اہلیہ، مارگٹ مائیسس۔ ایسی دنیا میں جب ایسا لگتا تھا کہ ہر کوئی مائیسس کے خلاف کھڑا ہے، مارگٹ نے انھیں جذباتی ہمت دی۔ جب ان کے خیالات پر حملہ کیا گیا تو انھوں نے ان کی حمایت کی، مارگٹ نے تب بھی مائیسس کا ساتھ نہ چھوڑا جب ان کے کام کو مسترد کردیا گیا، اور مستقبل تاریک نظر آرہا تھا۔ مائیسس نے ایک بار کہا تھا، “میری بیوی کے بغیر، میں اپنا کام کرنے کے قابل نہ ہوتا۔” مارگٹ کے مائیسس پر یقین نے انھیں کام جاری رکھنے کی ہمت دی۔
سخت ترین حالات میں بھی مائیسس اکیلے اجتماعی گروہوں کا مقابلہ کرتے رہے چاہے وہ فاشسٹ ہو یا کمیونسٹ لیکن مائیسس جانتے تھے کہ وہ یہ لڑائی اکیلے لڑ نہیں سکتے لہذا انہوں نے مارکسسٹوں سے بھرے ملک میں ایک نوجوان ماہرِ معاشیات کا ہاتھ پکڑا جو کہ انھی کی کتاب پڑھ کر سوشلزم سے دور ہوا تھا اور ان کو اپنی علمی چھاؤں میں لے لیا۔ تاریخ جانتی ہے کہ یہی نوجوان ماہرِ معاشیات، فریڈرک ہائیک بنا جنھیں پھر معاشیات میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ مائیسس نے تن تنہاء سوشلزم کے خلاف علمی مزاحمت شروع کی۔
لیکن ہائیک کی صورت میں ایک ساتھی مل جانا کافی نہیں تھا کیونکہ وہ دو ہونے کے باوجود بھی مارکسسٹوں اور فاشسٹوں کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھے۔ مائیسس اور ہائیک کی زندگی تب مکمل جہنم بن گئی جب آسٹریا پر قبضے کی جنگ میں فاشسٹوں نے کمیونسٹوں کو مات دے دی اور مائیسس کے یہودی نسل اور ان کی فاشزم کی مخالفت نازی پولیس کی طرف سے انھیں ایک دشمن کے طور پر دیکھنے کے لیے کافی تھی۔ نازیوں نے مائیسس کے گھر پر حملہ کردیا اور ان کے ساتھ۔ خوب مار پیٹ کی۔ ان کی لائبریری تباہ کردی، ان کی کتابوں کے مسودے اور نوٹس لوٹ لیے یا جلا دیے گئے۔ مائیسس کی خوش قسمتی یہ تھی کہ ٹھیک وقت پر انھیں امریکہ جانے کا موقع مل گیا اور مائیسس آسٹریا اپنا گھر چھوڑ کر امریکہ چلے گئے۔ وہاں جاکر مائیسس نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب Human Action لکھی جس میں انہوں نے لبرل ازم کے لیے سماجی تجزیہ کا نیا طریقہ کار یعنی praxeology اور اس سے پھر Methodological Individualism بنایا۔ یہ ان مارکسسٹوں کو مائیسس کا علمی جواب تھا جو کہ لبرل ازم کو سماجی نظریہ نہ ہونے کا طعنہ دیتے تھے۔ مائیسس نے لبرل ازم کو علمی طور پر دوسرا جنم دیا۔
گو کہ مائیسس اپنے دور میں اکیلے کھڑے تھے لیکن ان کی کوششیں رائیگاں نہیں گئی جیسا انہوں نے اپنی کتاب میں کہا تھا کہ سوشلزم آخرِکار فیل ہوجائے گا ایسا ہی ہوا خیر، مائیسس یہ دیکھنے کے لیے دنیا میں موجود نہیں تھے۔ ان کو علمی حلقوں سے دور کرنے والوں کے نظریات کو آج ان کے اپنے ہمدرد بھی اکیڈمیاں میں سنجیدہ نہیں لیتے۔ اپنے نظریے کو تاریخ کا ناگزیر نتیجہ کہنے والوں کا نظریہ آج قصہء ماضی کہلاتا ہے جبکہ مائیسس کا microeconomics پر کام آج بھی جدید معاشی سمجھ کی بنیاد ہے اور ان کے methodological individualism کا استعمال تو معاشیات دانوں کے ساتھ ساتھ، تاریخدان اور سماجیات کے ماہرین بھی کرتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply