ملک معراج خالد؛مادری زبانوں کا مخالف/لیاقت علی ایڈووکیٹ

7۔ جولائی 1972 کو سندھ اسمبلی نے سندھی لیگویج بل منظور کیا۔ یہ بل منظور ہونے کی دیر تھی کہ کراچی اورحیدرآباد کے اردو بولنے والوں نے آسمان سر پر اٹھالیا۔رئیس امروہی نے اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے جیسے زہریلے نعروں سےاردو زبان کے تحفظ اورسندھی کے خلاف اپنی مہم کا آغاز کیا۔مہاجروں کے ردعمل سے گھبراکربھٹو نے گورنر سندھ رسول بخش تالپور کواس بل پردستخط نہ کر نے کی ہدایات دے دیں
وفاقی کابینہ نے سندھی زبان کا بل منظور ہونے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال پرغور اورتجاویز مرتب کرنے کے لئے چارارکان پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دی۔اس کمیٹی میں حیات محمد خان شرپاو وفاقی وزیر قدرتی وسائل،ایندھن اوربجلی،ملک معراج خالد گورنرپنجاب،معراج محمد خان وزیر مملکت برائے عوامی اموراورعبدالحفیظ پیرزادہ وزیرقانون اور پارلیمانی امورشامل تھے۔وفاقی کابینہ کی اس کمیٹی نے مہاجر اور سندھی نمائندوں کو مذاکرات کے لئے مدعو کیا تاکہ مسئلے کا قابل عمل حل تلاش کیا جاسکے۔مہاجر وفد میں پروفیسر اشتیاق حسین قریشی، حسین امام، اے۔بی حلیم ۔پروفیسر غفور احمد اور جی۔اے مدنی شامل تھے جب کہ سندھی وفد میں معروف سندھی شاعر اور دانشور شیخ ایاز،قاضی فیض محمد،علی بخش تالپور،محمد خان سومرو کے علاوہ سندھ کابینہ کے دو وزیر قائم علی شاہ وزیر قانون اور درمحمد استو وزیر تعلیم شامل تھے۔دونوں وفود کی وفاقی کابینہ کی کمیٹی سے پہلی ملاقات 10جولائی کو ہوئی جس میں فریقین نے اپنے مطالبات پیش کئے۔13اور14 جولائیکو ہونے والی میٹنگز میں کابینہ کمیٹی کے رکن وفاقی وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نےسفارس کی کہ صوبانی گورنر سندھ اسمبلی سے منظور ہونے والے لینگوئج بل پردستخط کردیں لیکن کمیٹی میں شامل ملک معراج خالد گورنر پنجاب نے پیرزادہ کی اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے چتاونی دی کہ اگراردو کے مقابلے میں سندھی کو سندھ کی سرکاری زبان قراردیا گیا تو پنجاب میںاس کا شدید ردعمل ہوگا کیونکہ ان کے نزدیک پنجاب کےعوام بھی اردو کے بہت حمایتی اورطرف دار ہیں۔ملک معراج خالد کی اس چتاونی کا ثبوت لاہور میں طالب علموں کا وہ جلوس تھا جو 15 جولائی کو لاہور اردو کی حمایت میں نکلا تھا۔
ملک معراج خالد کے اختلاف اور لاہورمیں اردو کی حمایت میں طالب علموں کا جلوس بھٹو کے لئے بہت غیر متوقع تھا۔ پنجاب بھٹو کا چونکہ پاور بیس تھا اس لئے وہ کسی قیمت پر پنجاب میں سیاسی ہلچل نہیں چاہتے تھے۔چنانچہ وفاقی کابینہ کی اس کمیٹی نے اردو کو قومی زبان اقراردے دیا اور سندھی کو سندھ کی سرکارزبان قرار دے کر اس مسئلے کو نبٹانے کی کوشش کی تھی۔
اردو کے حمایتی مہاجروں سے زیادہ پنجابیوں میں پائے جاتے ہیں کیونکہ اردو پنجابی اشرافیہ کے لئے چھوٹے صوبوں پر اقتدار قائم رکھنے والے بہت سے ہتھیاروں میں سے ایک ہتھیار ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply