امیر کا انتخاب اور دمنہ کی سازش (1)-محمد ہاشم خان

پچیس سال تک شیر کی صحبت میں رہنے کے بعد دمنہ کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ جنگل کا اگلا امیر وہ بن سکتا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ شیر بوڑھا ہو گیا ہے، اب اس کے اندر پہلے جیسا دم خم نہیں، جنگل میں بد امنی پھیل گئی ہے، ہر طرف قتل و غارت عام ہوگئی ہے، بڑے جانور چھوٹے جانوروں کو اپنا شکار بنا رہے ہیں، اس خوف سے اب کوئی اپنی پناہ گاہ سے باہر نہیں نکل رہا ہے، نتیجتاً رعایا بھکمری کی شکار ہوگئی ہے۔ امیر بننے کا یہ اچھا وقت ہے۔ دمنہ جنگل کے جانوروں میں اپنی ذہانت و فطانت اور مکر و فریب کے حوالے سے مشہور تھا اور بادشاہ کا مشیر خاص ہونے کی وجہ سے اس کا اپنا الگ رعب و دبدبہ تھا، سارے جانور اسے بادشاہ کا قائم مقام سمجھتے تھے اسی لیے اس سے بچ کر رہتے تھے۔ ادھر دوسری جانب درندوں کے سردار نے دیکھا کہ رعایا اس کے خلاف ہو گئی ہے، اس کے بڑھاپے اور ضعف کا فائدہ اٹھا رہی ہے اور اور نئے امیر کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے تو اس نے مجلس شوریٰ کی میٹنگ طلب کی۔ شیر کی مجلس شوریٰ کے اہم اراکین میں بیل، گدھا، لومڑی، گیدڑ، خرگوش، چوہا، سانپ، بھینس، چیتا اور سور شامل تھے۔
شیر نے اپنے مشیر خاص دمنہ کو دائیں اور شیرنی کو جس کے پاس امور داخلہ تھا، بائیں جانب بیٹھنے کا حکم دیا، سامنے کی صف میں پہلی نشست کلیلہ کے لیے مخصوص رکھی گئی جو کہ دمنہ کا بڑا بھائی تھا اور نہایت ذی علم، بردبار اور صائب الرائے تھا۔اشتر کو، جو کہ چیتوں کا سردار تھا اور قاضی القضاة کے عہدے پر بھی فائز تھا، یہ بات پسند نہیں آئی اور اس نے کلیلہ کو آنکھیں دکھا کر اپنی شدید ناراضی کا اظہار کیا جس پر کلیلہ نے مسکراتے ہوئے کہا عزت اور ذلت اللہ واحد کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے رسو کرے۔یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔ قاضی القضاة نے گیدڑ (کلیلہ)کے بغل میں بیٹھنے کی ذلت تو برداشت کر لی لیکن جب شیر نے سیدالخنازیر کو جو کہ وزارت زراعت و تجارت کے عہدے پر مامور تھا اشتر کے بغل میں بیٹھنے کا حکم دیا تو چیتے کو یہ ذلت برداشت نہیں ہوئی اور وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ چیتے کی اس گستاخی پر شیر کا چہرہ سرخ ہو گیا، غصے سے آنکھیں باہر نکل آئیں، پنجوں سے زمین کھرچنے لگا، جبڑا سخت ہو گیا اور تیز دھاردار دانت صاف نظر آنے لگے، دمنہ کو ایسا محسوس ہوا کہ بادشاہ ابھی ایک جست میں اشتر کا کام تمام کر دے گا۔ دمنہ کو اشتر کی ہمدردی حاصل کرنے کا موقعہ مل گیا اور اس نے چیتے کے ردعمل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ علما کہتے ہیں کہ مکروہ اور غلیظ شخص کے پاس بیٹھنے سے اس کی مذموم صفات آپ کے اندر بھی سرایت کر سکتی ہیں، اس لیے قاضی القضاة کے بغل میں کسی سور کی نشست یہ عدل و انصاف کے مقدس فریضے کی توہین ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اس سلسلے کو یہیں ختم نہیں کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب عدل و انصاف کے بدن سے کسی غلیظ سور کی بو آنے لگے۔ سیدالخنازیر کے جسم سے مرے ہوئے چوہوں کی بو آ رہی ہے اور میرا سر پھٹا جا رہا ہے، ظل الٰہی سے درخواست ہے کہ یا تو اسے مجلس شوریٰ سے نکالیں یا پچھلی صف میں بیٹھنے کا فرمان جاری کریں۔ جب بادشاہ نے دیکھا کہ اس کے مشیر خاص اور قاضی القضاة دونوں ہم زبان ہیں تو اس نے اپنی ناک پر رومال رکھا، شیرنی کی طرف دیکھا اور سیدالخنازیر کو پچھلی صف میں بیٹھنے کا فرمان جاری کیا۔
جب سب لوگ اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہو گئے تو بادشاہ سلامت نے دمنہ سے کہا کہ وہ پروگرام کا باضابطہ آغاز کرے۔
دمنہ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے اور شیر کی پچیس سالہ خدمات کی تفصیل پیش کرنے کے بعد جانوروں کی ناشکری اور نافرمانی پر مفصل خطبہ دیا اور ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آج جب کہ ظل الٰہی کو تمہاری زیادہ ضرورت تھی، تم نافرمانی پر اتر آئے ہو۔ تم پر لازم تھا کہ ان کے احسان و اکرام کا بدلہ احسان و اکرام سے دیتے، اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے اور اپنی خاندانی عزت و نجابت کا مظاہرہ کرتے لیکن تم نے ایسا نہیں کیا بلکہ الٹا ان کے خلاف بغاوت کا علم بلند کر دیا ۔ تم بھول گئے وہ دن جب ہمارے بادشاہ نے فلاں ظالم بادشاہ کو شکست فاش دے کر تم لوگوں کو جائے امان دی تھی، یہ آج تم جو زندہ ہو تو یہ ہمارے ظل الٰہی کی وجہ سے ہے، یہ جو تم پچیس سالوں سے جنگل میں بغیر کسی خوف کے گھوم پھر رہے ہو تو یہ کس کی دین ہے؟ تمہارے بچوں کے لیے یہ دور تک لہلہاتا ہوا سبزہ زار، یہ چراگاہ، یہ مرغزار یہ کس نے بنوایا ہے؟ صاف و شفاف پانی کے یہ چشمے، یہ جھرنے، یہ آبشار، یہ کوہسار و شاخسار، یہ ٹیلے اور یہ صحرا و بیابان، یہ سب تمہیں کہاں سے ملا ہے؟ یہ ہمارے بادشاہ کی محنت، سیادت اور سخاوت کا صلہ ہے۔ ٹھیک ہے بادشاہ نے تمہارے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اتالیق مقرر نہیں کئے، پاٹھ شالا نہیں کھولا، کوئی تربیت گاہ نہیں تعمیر کروائی لیکن انہیں تحفظ تو فراہم کیا ہے، کیا یہ بڑی بات نہیں کہ تمہارے بچے بادشاہ کے زیر سایہ پل کر جوان ہوئے، تمہارا کنبہ بڑھا، تمہارا قبیلہ بنا اور اب تمہارا خاندان اس جنگل کی وسیع و عریض اراضی کا مالک ہے۔ اب ظل الٰہی تو ہر کام خود کرنے سے رہے۔ انہوں نے وزارت تعلیم قائم کی تھی اور حضرت حمار کو اس کا وزیر بھی بنایا تھا، اب حضرت حمار وزارت نہیں سنبھال سکے اور اسے بند کرنا پڑا تو اس میں بادشاہ سلامت کی کیا غلطی، جب تم میں کوئی اس کا اہل ہی نہیں ہے تو ہم کیا کریں۔ حضرت حمار تمہارے درمیان موجود ہیں، ان سے پوچھیں کہہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کیوں نہیں ادا کی۔ جوش خطابت میں دمنہ کے منہ سے جھاگ نکلنے لگا تھا اور ابھی وہ اپنے کھردرے مٹ میلے غلیظ ہاتھوں سے جھاگ صاف ہی کر رہا تھا کہ سیدالخنازیر نے اٹھ کر کہا کہ ” دمنہ تم صاف صاف کہو کہنا کیا چاہتے ہو؟ کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ جنگل میں سوکھا پڑا ہے، پینے کے لیے پانی نہیں، چرنے کے لیے چراگاہ نہیں، بڑے گوشت خور جانوروں نے معاہدہ بقائے باہم کو توڑ دیا ہے اور دوسرے جانوروں کو شکار بنانا شروع کر دیا ہے۔ جن مرغزاروں کی تم بات کر رہے ہو وہ سوکھ گئے ہیں، کیا تمہیں نہیں معلوم بادشاہ کے سالے قتلہ نے کل ہمارے دو عزیز دوست جمن اور بڑھئو بیل کو چیر پھاڑ کر کھا لیا۔ اگر وہ اپنے علاقے سے باہر نہیں نکلتے تو آج وہ ہمارے درمیان ہوتے۔ یہ کہہ کر سیدالخنازیر زار و قطار رونے لگا۔ جب بدھوا گدھے نے دیکھا تو وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ دمنہ نے کہا کہ اس مجلس شوریٰ میں گدھوں کو بولنے کی اجازت نہیں ہے۔ بدھوا نے بادشاہ سلامت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ظل الٰہی میں اپنی چالیس سالہ زندگی میں یہ پہلا سماج دیکھ رہا ہوں جہاں سوروں کو گدھوں پر فضیلت حاصل ہے۔ دمنہ نے گدھے کو خاموش کراتے ہوئے کہا کہ تمہاری حماقت نے سوروں کو یہ فضیلت عطا کی ہے۔ تم سے تو ایک وزارت سنبھالی نہیں گئی اور اب بکواس کرنے آ گئے ہو۔ تمہاری دخل در غیر معقولات کی وجہ سے میں سیدالخنازیر کے سوالوں کا جواب نہیں دے سکا ہوں۔ اس سے پہلے کہ بادشاہ سلامت تمہارے قتل کا فرمان جاری کریں بہتر ہے کہ تم خاموش ہو جاو اور مجھے سیدالخنازیر کو منہ توڑ جواب دینے دو۔
دمنہ نے سوروں کے سردار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے سوروں کے غلیظ بدبودار سردار! تجھے تیری غلاظت کی وجہ سے پہلی صف میں بیٹھنے کا موقعہ نہیں ملا اس لیے بادشاہ کے خلاف تیرا بغض و عناد تیرے اعتراضات کی شکل میں باہر آ گیا ہے۔ اگر تو غیور قوم کا سردار ہوتا تو سب سے پہلے تو بادشاہ سلامت کا شکریہ ادا کرتا کہ اس نے تمہیں اور تمہارے قبیلے کو خوش کرنے کے لیے زراعت کا وزیر بنایا تھا یہ جانتے ہوئے کہ سب سے زیادہ فصلیں تمہیں لوگ تباہ و برباد کرتے ہو۔ اس نے میرے مشورے پر یہ ذمہ داری تمہیں عطا کی تھی۔ میرا خیال تھا کہ طاقت کے ساتھ ذمہ داری بڑھ جاتی ہے، اختیار سے احتساب و محاسبہ بڑھ جاتا ہے اس لیے تم لوگ ذمہ دار ہو جاؤ گے لیکن افسوس کہ تم سور کے سور ہی رہے، جیسا کہ علما کہتے ہیں کہ گدھا گدھا ہی رہے گا خواہ دہ دنیا کی سب سے اچھی یونیورسٹی میں اپنی پوری زندگی ہی کیوں نہ گزار دے ٹھیک اسی طرح سور سور ہی رہے گا، خناس، غلیظ، بدبودار، ناشکرا اور نافرمان خواہ اسے مشک ختن سے نہلا ہی کیوں نہ دیا جائے۔ سوروں کے سردار! تم مجھے بتاؤ جنوب کی طرف کا مرغزار کس نے خراب کیا؟ اصطبل کا بھوسہ کس نے خراب کیا؟ چشمے کا پانی کس نے گندہ کیا؟ یہ سب تمہاری قوم نے کیا ہے سو بہتر ہے کہ تم اب خاموش ہو جاو۔
ابھی دمنہ اپنی تقریر کرکے بیٹھا ہی تھا اور نہایت فخریہ انداز میں شاباشی کے لیے بادشاہ کی طرف دیکھا تھا کہ پیچھے سے لومڑی کی آواز آئی۔
اے دمنہ! اے دنیا کے سب سے زیادہ مکار گیدڑ! یہاں لوگ بادشاہ سے سلام کلام کرنے آئے ہیں تیری مکر و فریب سے پر باتیں سننے کے لیے نہیں آئے ہیں، لوگوں کو بادشاہ سے شکایت ہے بادشاہ کو جواب دینے دے۔ ہم جانتے ہیں کہ تو جنگل کا اگلا امیر بننا چاہتا ہے۔ تو ہمارے سردار کو مغالطے میں رکھنا چاہتا ہے تاکہ سردار کے خلاف ماحول اور زیادہ ابتر ہو جائے اور تو اس بحران کو اپنے حق میں کیش کرا سکے۔
لومڑی کی بات نے مجلس شوریٰ میں موجود ہر ایک کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ لیکن وہ دمنہ ہی کیا جس کے پاس ہر پینترے کا جواب نہ ہو۔ اس نے بڑی چالاکی سے بات کا رخ پلٹ دیا۔ دمنہ نے کہا کہ اے لوگو! کیا تمہیں نہیں معلوم کہ جنگل میں دعوت و تبلیغ کا کام اس لومڑی کے شوہر کے حوالے کیا گیا تھا؟ آپ لوگ پوچھیں کہ اس کے شوہر نے اس پچیس برسوں میں کیا کام کیا ہے۔ اگر اس کے شوہر نے اللہ کے دین کو کماحقہ لوگوں تک پہنچایا ہوتا تو کیا جنگل میں آج امن و سکون نہیں ہوتا؟ کیا ایک بھائی دوسرے بھائی سے محفوظ نہیں رہتا؟ اب اگر جنگل میں جانور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے گھوم رہے ہیں تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ اس لومڑی کے شوہر نے اپنا کام ایمانداری سے نہیں کیا۔ دوستو! میں آپ لوگوں کو بتاتا ہوں کہ اس لومڑی کے شوہر ابو ثعلب نے اس دوران کیا کیا ہے۔ ابو ثعلب جنگل میں صرف منہ مارتا رہا ہے۔ اس کے شوہر نے مادہ جانوروں کے پیچھے بھاگنے میں پوری عمر گزار دی ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یا تو اس کا شوہر عیاش ہے یا پھر اس کے اندر اپنے شوہر کو قابو میں رکھنے کی کشش، ہنر اور فن نہیں ہے۔
اے لوگو! تم لوگ اس غیر آسودہ لومڑی کے بہکاوے میں مت آنا۔ بادشاہ سلامت نے میرے علم و فضل کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے اپنا مشیر خاص مقرر کیا ہے اس لیے ان تمام لوگوں کا جو بادشاہ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں،مجھ سے حسد کرنا، میرے خلاف سازشیں کرنا ایک فطری ردعمل ہے، بادشاہ سلامت نے کہا ہے کہ جب تک وہ زندہ رہیں گے، کوئی انتخاب نہیں ہوگا، اس جنگل کے وہ پہلے اور آخری امیر ہیں، ان کے مرنے کے بعد آپ لوگ اپنا امیر منتخب کرنے کے لیے آزاد ہیں۔
درندوں کے شیر نے غصے سے دمنہ کی طرف دیکھا اور مائک اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
اے میرے جنگل کے غیور لوگو! دمنہ نے جو کچھ کہا ہے وہ میری محبت میں کہا ہے، میں جانتا ہوں کہ اسے آپ لوگ پسند نہیں کرتے لیکن جیسا کہ علما کہتے ہیں کہ کسی بھی سماج میں ذہین و فطین شخص کو کبھی پسند نہیں کیا گیا تو یہ بات دمنہ پر بھی صادق آتی ہے، ویسے دمنہ دل کا برا شخص نہیں ہے۔ درندوں کے سردار نے کہا کہ دمنہ نے ایک بات غلط کہی ہے کہ میرے مرنے کے بعد ہی آپ لوگ اپنا امیر منتخب کرسکتے ہیں۔میں نے ایسا نہیں کہا تھا لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ دمنہ میری محبت میں اکثر غلو کر جاتا ہے سو یہاں بھی اس نے غلو کا ہی مظاہرہ کیا ہے۔ میں نے یہ کہا تھا کہ اگر آپ لوگ چاہیں تو میرا جانشین منتخب کر سکتے ہیں لیکن جب تک میں زندہ ہوں امیر میں ہی رہوں گا۔ بادشاہ سلامت نے اپنا فرمان سنانے کے بعد قاضی القضاة کو بلایا اور دمنہ، سوروں کے سردار اور گدھے کی موت کا فرمان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ان کے دل بہت بڑے ہیں میں دیکھنا چاہتا ہوں۔

Facebook Comments

محمد ہاشم خان
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں (مصنف افسانہ نگار و ناقد کے علاوہ روزنامہ ’ہم آپ‘ ممبئی کی ادارتی ٹیم کا سربراہ ہے) http://www.humaapdaily.com/

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply