• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جنگل کے امیر کا انتخاب(2) اب بادشاہ کو ہم اور زیادہ برداشت نہیں کر سکتے: کلیلہ /محمد ہاشم خان

جنگل کے امیر کا انتخاب(2) اب بادشاہ کو ہم اور زیادہ برداشت نہیں کر سکتے: کلیلہ /محمد ہاشم خان

میرے پیارے دوستو تمہیں معلوم ہے کہ تم جنگل کی شان ہو، جنگل کی رونق تمہارے دم سے قائم ہے۔ سنت منصور و قیس تم سے زندہ ہے، کوئے جنوں تم آشفتہ سروں سے آباد ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں تم جیسے جیالوں کے درمیان زیست کرتا ہوں۔ تم لوگ گواہ ہو کہ ہر مشکل وقت میں تم لوگوں کو میں نے مفید مشوروں سے نوازا ہے، پرامن بقائے باہم اور بقائے اصلح کے فلسفوں کو سمجھایا ہے، یقیناً تم میری نیک نیتی سے واقف ہو اور میرے خلوص، تقویٰ اور للٰہیت پر تمہیں کوئی شک نہیں ہے۔
دوستو ! آج میں تمہیں یہ خبر دار کرنے آیا ہوں کہ آنے والے حالات بالکل سازگار نہیں ہیں، تمہاری بقا خطرے میں ہے۔ اگر تم نے ابھی سے کوئی تدبیر نہیں اپنائی تو تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں،کوئی یہ کہنے والا نہیں بچے گا کہ گئے زمانے کی بات ہے ایک جنگل تھا اس میں کلیلہ اور دمنہ رہا کرتے تھے۔
اس جنگل کے میرے غیور ساتھیو! ہمارا یہ جو بادشاہ ہے یہ طفیلیہ ہے، تم ہو سو یہ بادشاہ ہے۔ پس اب تم کو یہ طے کرنا ہے کہ تمہیں یہی نا اہل، ظالم اور ناشکرا بادشاہ چاہیے یا کوئی عادل، رعایا پرور، اعلیٰ ظرف بادشاہ چاہیے۔
دوستو! شیر کا یہ دعویٰ کہ وہ جنگل کا محافظ ہے، بالکل بکواس ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ وہ کمزور جانوروں کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے؟ وہ کس طرح ان کی آوازوں کو دباتا ہے، ان کے حقوق کو پامال کرتا ہے، وہ وسائل کا استعمال تعمیر کے بجائے تخریب کے لیے کرتا ہے، وہ پیسے کا استعمال اپنا اقتدار بچانے اور اپنے مخالفین کو خریدنے کے لیے کرتا ہے، وہ صرف اور صرف اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ آپ لوگ مجھے بتائیں کہ اس نے دمنہ کو، سیدالخنازیر اور ابن الحمار کو کس جرم کی پاداش میں قتل کروایا؟ کیا آواز اٹھانا جرم ہے؟کیا یہی ہے انصاف؟ کیا یہی ہے حکمرانی؟ اور کیا اسی کو جنگلی غیرت کہتے ہیں؟
وقت آ گیا ہے کہ ہم اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں، اسے جمہوریت کی طاقت سمجھائیں۔ اسے بتائیں کہ طاقت کا مطلب ظلم نہیں ہے۔ طاقت کا مطلب ہے ذمہ داری، رواداری، انصاف اور دوسروں کی حفاظت۔ اگر شیر یہ ذمہ داری اٹھانے کے قابل نہیں ہے تو اسے چاہیئے کہ وہ اس عہدہ جلیلہ سے خود مستعفیٰ ہو جائے اور نہیں تو اس کے ظلم کے ناخن کو اس وقت تک کھرچتے رہیں گے جب تک کہ وہ اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ جاتا۔
سیدالخنازیر کی بیوہ نے پوچھا: اے جنگل کے سب سے دانا جانور! اے ہم لوگوں کے سب سے عزیز فلسفی !یہ منطقی انجام کیا ہوتا ہے؟
کلیلہ نے کہا: منطقی انجام کا مطلب ہوتا ہے استعفیٰ یا موت۔
میرے دوستو! کلیلہ نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا : خیال رہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص عہدے کا لالچ رکھے اسے عہدہ نہیں دینا چاہیے۔ بادشاہ نے دمنہ کو مروا دیا کہ وہ عہدے کا لالچ رکھتا تھا حالانکہ دمنہ کو قتل کرنے کی یہ کوئی معقول ٹھوس وجہ نہیں ہے۔ پھر بھی میں کہتا ہوں کہ ٹھیک ہے اس نے عہدے کا لالچ رکھنے کی غلطی کی تو آپ نے اسے مروا دیا لیکن وہ تو صرف لالچ رکھتا تھا۔ اگر لالچ رکھنے کی یہ سزا ہے تو اس آدمی کی سزا کیا ہوگی جو پچیس سال سے بلا شرکت غیرے اس عہدے پر فائز ہے اور اس عہدے کے وقار کو مجروح کر رہا ہے۔ اور یہ کتنی شرم اور جہالت و خباثت کی بات ہے کہ ایسے شخص کو ہم عہدے کا لالچی بھی نہیں سمجھ رہے ہیں۔ ایک آدمی پچیس سال سے کسی اور کو اس عہدے پر فائز نہیں ہونے دے رہا ہے اور ستم مستزاد یہ کہ اسے مقدس، متقی اور معصوم عن الخطا بھی سمجھا جا رہا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اندر انسانوں والی خوبیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ یہ بھی انتہائی شرم کی بات ہے کہ ہمارے اندر حیوانی خوبیاں کم ہو رہی ہیں اور اس کے برعکس انسانی خوبیاں بڑھ رہی ہیں، آپ لوگوں کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا محض حیوان ہونا کافی کیوں نہیں رہا۔ یہ بوڑھا، بے شرم اور بے غیرت طفیلیہ پچیس سال سے ہمارا خون چوس رہا ہے اور اسے ہم حرص و طمع پرست نہیں کہہ رہے ہیں۔ اگر یہ ہوس نہیں ہے تو میرے دوستو پھر ہوس کسے کہتے ہیں؟ اگر یہ بے حسی بے غیرتی نہیں ہے تو پھر بے غیرتی کسے کہتے ہیں؟ میں تو بے غیرتی کا یہی مطلب سمجھتا تھا کہ آپ کی رعایا آپ سے ناراض رہے اور بے حس بنے دندناتے پھریں۔
میرے دوستو! ہزاروں سال کی غیر انسانی تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ جب تم کمزور رہو گے تو تمہارا بیانیہ بھی کمزور رہے گا اور جب تک یہ بادشاہ خس کم جہاں پاک نہیں ہوتا تم کمزور ہی رہو گے۔ تاریخ پر فاتحین کا قبضہ رہا ہے، شکست خوردہ لوگ تو صرف بکھان کرتے ہیں۔
دوستو ہم سب مل کر ایک ایسا جنگل بنا سکتے ہیں جہاں ہر جانور کو انصاف ملے، جہاں ہر کسی کی آواز سنی جائے، اور جہاں طاقت کا استعمال ظلم کے بجائے محبت اور انصاف کے لیے ہو۔
سو آئیے یہ عہد کریں کہ جب تک اس منحوس و مکروہ اور بے فیض شیر کے جبر سے نجات حاصل نہیں کر لیتے ہم سکون سے بیٹھنے والے نہیں۔ کارل مارکس نام کا ایک مفکر گزرا ہے اس نے نعرہ دیا تھا دنیا کے مزدورو متحد ہو جاؤ۔ آج سے ہمارا نعرہ ہو گا۔ اس جنگل کے جانورو متحد ہو جاؤ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

محمد ہاشم خان
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں (مصنف افسانہ نگار و ناقد کے علاوہ روزنامہ ’ہم آپ‘ ممبئی کی ادارتی ٹیم کا سربراہ ہے) http://www.humaapdaily.com/

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply