جب کلیلہ جنگل کے جانوروں کو بوڑھے شیر کے خلاف ورغلا رہا تھا اور ان کے اندر بغاوت کا جوش و ولولہ پیدا کر رہا تھا تو اس وقت سیدالقرود مسمیٰ الفرطوت ایک ڈال سے دوسری ڈال پر گلاٹیاں مار رہا تھا اور باغیوں کے نام درج کر رہا تھا۔بادشاہ سلامت نے سراغ رسانی کا محکمہ بندروں کے سردار فرطوت کے حوالے کر رکھا تھا اور اس نے اپنا فریضہ سخت ایمانداری اور جانفشانی کے ساتھ انجام دیا تھا۔جب اس نے بادشاہ کے سالے غابہ، اس کے ساڑھو جوشابہ، اور غابہ کے دوستوں کو جس میں تیندوے، ہاتھی اور لکڑ بگھے وغیرہ شامل تھے اس خفیہ جلسے میں شریک پایا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی اور سوچنے لگا کہ یہ کیسے ناشکرے لوگ ہیں جو ایک زمانے تک بادشاہ سلامت کے ٹکڑوں پر پلے ہیں اور اب انہیں کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں۔ اللہ بخشے ہمارے اجداد کو، وہ ٹھیک کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دلدل میں ڈال کر بھوکا مار دے لیکن احسان فراموش نہ بنائے۔ جب فرطوت نے اپنے اجداد کی غیرت و وفاداری کو یاد کیا تو اسے اصحاب السبت بھی یاد آئے جنہیں اللہ رب العزت نے ان کی نافرمانی کے سبب بندر اور خنزیر بنا دیا تھا۔ فرطوت کی قوم ازمنہ قدیم سے اپنی پیشانی پر احسان فراموشی کا کلنک لگائے چلی آ رہی ہے اور اب فرطوت کو موقع ملا تھا کہ وہ اپنی قوم کو اس عظیم لعنت سے نجات دلائے۔ جب بادشاہ سلامت نے اسے محکمہ سراغرسانی کا سربراہ منتخب کیا اور ساتھ ہی جنگل کی تعمیر و ترقی اور ہریالی میں اس کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ تمہاری قوم کی گلاٹی مار مار کر کھانے اور ہگنے کی وجہ سے سالانہ ایک مربع کلو میٹر کے حساب سےجنگل کی توسیع ہوتی ہے تو پہلی بار فرطوت کو اپنے عظیم ہونے کا یقین آیا اور تب سے وہ اور زیادہ عظیم بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ نیا عہدہ ملنے کے بعد فرطوت نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اے انسانوں سے مشابہت رکھنے والی قوم کے فرزندو! ہر قوم کو کوئی نہ کوئی فضیلت دی جاتی ہے، لومڑیوں، گیدڑوں اور سیاروں کو عیاری و روباہی کی فضیلت بخشی گئی ہے، تم جانتے ہو کہ ہوشیاری اور مکاری کے مقابلے میں ہم ان کا موازنہ نہیں کر سکتے، کتوں کو وفاداری اور سوروں کو نجاست کی فضیلت عطا کی ہے، تم جانتے ہو کہ ہم اس ڈال سے اس ڈال گلاٹیاں مارنے والے کتوں سے زیادہ وفادار نہیں ہوسکتے، اللہ نے ہمارے خمیر کو وفاداری سے خالی رکھا ہےاور ہم لاکھ کوشش کریں سوروں سے زیادہ نجس اور غلیظ نہیں ہو سکتے، یہ شرف عالم حیوانات کی کسی اور نوع کو حاصل نہیں ہے، آج ہمارے بادشاہ نے مجھے سراغرسانی کی سربراہی سونپتے ہوئے بتایا کہ ٹھیک اسی طرح تمہاری قوم کو ہگنے کی فضیلت دی گئی ہے، ہمارے گھوم گھوم کر کھانے اور ہگنے کی وجہ سے جنگل کی توسیع ہوتی ہے۔ ظل الٰہی نے ہماری قوم کو امان بخشا ہے اور کہا ہے جنگل میں پھیل جاو، شان سے کھاؤ پیئو اور ہگو۔سیدالقرود الفرطوت کچھ زیادہ ہی ناستلجیائی ہو گیا تھا اس لیے اس کی گھر والی نے فرطوت کو اس کے مشن کے بارے میں یاد دلایا تو وہ ساری رپورٹیں لے کر فوراً بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا۔
بادشاہ اپنے کچھار میں پڑا اونگھ رہا تھا کہ فرطوت نے آکر سلام کیا۔ بادشاہ مراقبے میں تھا، اسے یہ مداخلت پسند نہیں آئی، جبراً اس نے آنکھیں کھولیں اور پلکیں اوپر نیچے کرتے ہوئے مہمان کو پہچاننے کی کوشش کی، جب اس نے پہچان لیا کہ یہ اس کی مملکت کے محکمہ انٹیلی جنس کا سربراہ فرطوت ہے تو اس نے پہلے جنگل کی طرف منہ کرکے اور مشرق و مغرب کی طرف دہاڑتے ہوئے اپنے زندہ اور موجود ہونے کا پیغام دیا پھر کہا اے بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والے بندروں کے سردار! تجھے کس چیز نے مجبور کیا کہ تو میرا مراقبہ خراب کرے؟ تب تک فرطوت زمین گیلی کر چکا تھا اور بمشکل ہمت مجتمع کرتے ہوئے اس نے کہا کہ جہاں پناہ اگر جان کی امان پاؤں تو کچھ کہوں۔ بادشاہ نے اپنے غصے کو دباتے ہوئے کہا فرطوت! ہم ان جانوروں کا شکار نہیں کرتے جن کا مقعد سرخ ہوتا ہے۔بندروں کے سردار نے کہا جو کچھ میں دیکھ کر آیا ہوں وہ آپ کے ہوش اڑانے کے لیے کافی ہے۔ اگر وہ بپھرا ہوا ہجوم جو فلاں پہاڑی کے پیچھے گھات لگائے جمع ہے اگر آپ کے کچھار کی طرف چل پڑے تو آپ کو کہیں جائے امان نہیں ملنے والی۔
بادشاہ اصل مفہوم تک نہیں پہنچ سکا، سوچنے لگا یہ فرطوت پتہ نہیں کیا بکواس کر رہا ہے، یوں لگتا ہے کہ میرے ساتھ ساتھ میرا دماغ بھی بوڑھا ہو گیا ہے۔یا سیدالقرود! صاف صاف بتا تو کہنا کیا چاہتا ہے۔
بادشاہ سلامت ہمارے علما کہتے ہیں کہ غیر اہم لوگوں کو اہمیت دینا معاشرے کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ وہ سارے غیر اہم لوگ جنہیں آپ نے میری رپورٹوں، تجاویز اور مشوروں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے نورتنوں میں شامل کیا تھا وہ سب آپ کی جان کے دشمن ہو گئے ہیں اور کسی بھی وقت وہ آپ کے مکان پر حملہ کر سکتے ہیں۔ ان سب کی قیادت معروف فلسفی کلیلہ کر رہا ہے، وہ اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔
جب فرطوت اپنی خفیہ رپورٹ شیر سے شیئر کر رہا تھا تو عین اسی وقت شیرنی بھی جھومتے جھامتے آگئی۔ اس نے اپنے جبڑے میں ہرن کے جوان ہوتے بچے کو دبا رکھا تھا۔ اس نے شکار کو ایک طرف پٹکا اور فرطوت سے کہنے لگی کہ بات انتخاب کی ہو رہی تھی، لوگ نیا امیر منتخب کرنا چاہتے تھے، اب یہ قتل کا معاملہ کہاں سے آگیا۔ فرطوت کہنے لگا کہ کلیلہ نے بادشاہ کا تختہ پلٹنے کے لیے قتل کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا ہے اور اس میں آپ کا بھائی بھی شامل ہے۔ میری رائے مانیں تو یہ کچھار خالی کر دیں۔
شیرنی، فرطوت کے پاس آئی اور اسے سونگھنے لگی۔ فرطوت تھر تھر کانپنے لگا، شیرنی نے کہاکہ ڈرو نہیں، میں تو بس یہ چیک کر رہی تھی کہ تم نے بھانگ تو نہیں پی ہے۔ شیرنی نے کہا کہ کیا تم کو نہیں معلوم کہ ہم ان کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے جنگل کے پندرہ اضلاع میں انتخاب کروا چکے ہیں اور ہر جگہ ہم ہی فاتح ٹھہرے ہیں۔اب انہیں اور کیا چاہیئے؟ ہم نے اس جنگل پر پچیس سال تک حکمرانی کی ہے، ہم سے قبل ہمارے آبا و اجداد اس جنگل کے حکمران تھے، ہم کہیں نہیں جانے والے ہیں۔ شیرنی غصے سے بپھر کر دہاڑنے لگی۔
فرطوت نے کہا یا صاحبة الجلالة! مجھے معلوم ہے، میرے پاس پل پل کی خبر ہے، بہر حال میں محکمہ انٹیلی جنس کا سربراہ ہوں، برسوں کا تجربہ رکھتا ہوں اور اللہ کے فضل و کرم سے دل و دماغ اور اعضا و جوارح سب اپنی اپنی جگہ پر درست کام کر رہے ہیں۔ ہر میجسٹی! الیکشن آپ نے کروائے ہیں ضرور لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ یہ الیکشن نہیں سلیکشن ہے۔ اب تک جہاں جہاں بھی انتخابات ہوئے ہیں وہ صاف و شفاف، منصفانہ اور جمہوری نہیں ہوئے ہیں۔ آپ بھی جانتی ہیں کہ الیکشن سے ایک دن قبل ہمارے ظل الٰہی اپنے قاضی القضاۃ اشتر کو ایک لسٹ دے کر بھیجتے تھے جس میں ان لوگوں کے نام ہوتے تھے جنہیں منتخب کیا جانا تھا۔ قبیلۃ الجمل و الخیول (اونٹوں اور گھوڑوں کا قبیلہ) کی طرف سے یہی شکایت موصول ہوئی ہے، ان کے قبیلے میں بادشاہ کے خلاف سخت ناراضی پائی جا رہی ہے۔ ٹھیک یہی شکایت قبیلہ ثور، حمار اور جاموس کی بھی ہے کہ بادشاہ سلامت نے ہماری عقل و وفاداری پر بھروسہ نہیں کیا۔ کلیلہ کا کہنا ہے کہ لوگ بادشاہ سلامت کے خوف سے ان کے سامنے ان کے خلاف ہاتھ نہیں اٹھاتے، لہٰذا یہ ہاتھ اٹھانے والا انتخاب منظور نہیں، جنگل کے بڑے درندوں نے ای وی ایم کی تجویز بھی مسترد کر دی ہے اور کہا ہے کہ صرف بیلٹ پیپر سے ہونے والا انتخاب ہی قبول کیا جائے گا۔
بادشاہ سلامت نے گفتگو کو مختصر کرتے ہوئے کہا، اے بندروں کے سردار فرطوت! تمہارا کام صرف اطلاع پہنچانا ہے مشورے دینا نہیں۔ میں بوڑھا ہوا ہوں کمزور نہیں۔ جاؤ اعلان کردو کہ اگر کسی کو اپنی جان، اپنا مال، اپنا دین و ایمان، اپنے اعزہ و اقارب عزیز ہیں تو وہ بادشاہ کے خلاف خروج اور بغاوت سے باز آ جائیں، انہیں ایک ہفتے کی مہلت دی جاتی ہے، اس کے بعد انہیں شیر کے قہر سے کوئی بھی نہیں بچا پائے گا، میرا سالا بھی نہیں۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں