غور و فکر انسانی ذہن کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ یہی وہ طاقت ہے جس نے انسان کو دیگر مخلوقات پر برتری عطا کی، علم و حکمت کے دروازے کھولے اور تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا غور و فکر بذاتِ خود کافی ہے، یا اس کا اصل مقصد عبرت پذیری ہے؟ اگر غور و فکر صرف ذہنی مشق بن جائے، تو کیا وہ بے سود نہیں ہو جاتا؟ ارسطو نے کہا تھا:
“Thinking is the highest function of human nature.”
(سوچنا انسانی فطرت کا سب سے اعلیٰ عمل ہے) اسی بنیاد پر فلسفہ وجود میں آیا، علم و تحقیق کی دنیا آباد ہوئی اور سائنس و ادب نے جنم لیا۔ سقراط نے سوالات کے ذریعے انسان کو اپنی حقیقت پر غور کرنے کی دعوت دی، جبکہ کانٹ نے “عقل محض کی تنقید” (Critique of Pure Reason) میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ غور و فکر کے بغیر کوئی علم وجود میں نہیں آ سکتا۔ لیکن غور و فکر کا نتیجہ عمل میں نہ ڈھلے، اور اگر علم محض معلومات جمع کرنے تک محدود رہے، تو کیا وہ حقیقی معنوں میں مفید ہے؟ یہی وہ بنیادی سوال ہے جو غور و فکر اور عبرت پذیری کے تعلق کو سمجھنے کے لیے اہم ہے۔
سائنس کی بنیاد مشاہدے اور تجربے پر ہے، اور یہ ایک مسلسل خود اصلاحی (self-correcting) عمل ہے۔ سائنسدان کوئی بھی نظریہ پیش کرنے سے پہلے تجربات اور شواہد کی روشنی میں غور و فکر کرتے ہیں اور اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ اگر یہ نتیجہ غلط ثابت ہو جائے تو اس سے سیکھا جاتا ہے اور نئے نظریات سامنے آتے ہیں۔ نیوٹن کی میکینکس صدیوں تک ایک ناقابلِ تردید حقیقت سمجھی جاتی رہی، مگر جب آئن سٹائن نے اپنی “نسبیت کی تھیوری” (Theory of Relativity) پیش کی، تو معلوم ہوا کہ نیوٹن کے قوانین محدود حالات میں تو درست ہیں، مگر عمومی طور پر نہیں۔ سائنس نے نیوٹن کے نظریے سے عبرت حاصل کی، اسے رد کیے بغیر مزید بہتر کیا اور انسانی علم کو ایک نئے افق پر پہنچایا۔
علم کی جستجو انسان کا ایک بنیادی وصف ہے، مگر علم کے ساتھ اخلاقیات نہ ہوں تو یہ انسانیت کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ ایٹمی طاقت کا اصول آئن سٹائن اور بوہر جیسے سائنسدانوں نے دریافت کیا، مگر اس کا پہلا عملی استعمال ہیروشیما اور ناگاساکی میں تباہی کی صورت میں سامنے آیا۔ 1945ء میں جب امریکہ نے جاپان پر ایٹمی بم گرایا تو لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے اور نسلوں تک اس کے اثرات باقی رہے۔ یہ واقعہ عبرت ہی تو تھا کہ اگر علم کو صحیح سمت میں نہ استعمال کیا جائے تو یہ تخلیق کے بجائے تباہی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں سائنسدانوں نے امن کے لیے نیوکلیئر انرجی کے استعمال پر کام شروع کیا اور آج نیوکلیئر ٹیکنالوجی بجلی، طب اور صنعت میں مثبت مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہے- یہی اصول دیگر سائنسی اور فکری ترقی پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر غور و فکر محض علمی تجزیے تک محدود رہے اور انسان اس سے عملی سبق نہ لے، تو وہ ایک بے سمت مسافر کی مانند ہے جو راستے کی نشانیاں تو پڑھتا ہے، مگر منزل پر پہنچنے کی کوشش نہیں کرتا۔
مذہب اور سائنس دونوں غور و فکر، تحقیق، اور عبرت پذیری کی دعوت دیتے ہیں، مگر پھر بھی اکثر انہیں ایک دوسرے کے مخالف کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دونوں حقیقت کی تلاش میں ہیں تو پھر ان میں تضاد کیوں نظر آتا ہے؟ کیا یہ تضاد واقعی موجود ہے، یا یہ محض ایک فکری مغالطہ (intellectual misconception) ہے؟ سائنس کا بنیادی اصول تجربہ (experiment) اور مشاہدہ (observation) ہے۔ یہ کائنات کے مادی پہلوؤں کو جانچنے اور ان کے قوانین دریافت کرنے کا ایک مسلسل ارتقائی عمل ہے۔ دوسری جانب مذہب کا تعلق الہامی علم (revealed knowledge) سے ہے، جو انسان کو ایسی حقیقتوں سے روشناس کراتا ہے جو مشاہدے اور تجربے سے ماورا ہیں، مثلاً روح، ما بعد الطبیعات (metaphysics) اور اخلاقیات، حیات بعد الموت اور مقصدِ حیات۔
تو کہا جا سکتا ہے کہ سائنس یہ جاننا چاہتی ہے کہ “کیسے؟” اور مذہب یہ سوال اٹھاتا ہے کہ “کیوں؟” یہ فرق دراصل تضاد نہیں بلکہ طریقہ کار کی تقسیم ہے۔ سائنس قوانینِ قدرت کو دریافت کرتی ہے، مگر مذہب ان سے سبق حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ کچھ ہو رہا ہے، مگر مذہب بتاتا ہے کہ ہمیں اس پر کیسا ردِ عمل دینا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن غور و فکر کو انسان کی بنیادی ذمہ داری قرار دیتا ہے، “إِنَّ فِي خَلْقِ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَٱخْتِلَـٰفِ ٱلَّيْلِ وَٱلنَّهَارِ لَايَـٰتٍۢ لِّأُو۟لِى ٱلْأَلْبَـٰبِ”
(بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے بدلنے میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں) یہاں غور و فکر کی دعوت تو دی گئی ہے، لیکن یہ سوچنے کا عمل محض سائنسی یا فلسفیانہ نہیں، بلکہ اس کا مقصد عبرت پذیری ہے، یعنی وہ فہم جو انسان کو صحیح راستے پر لے آئے۔
اسلام وہ دین ہے جو سب سے زیادہ غور و فکر اور تدبر کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن بار بار کہتا ہے کہ انسان کائنات میں پھیلی نشانیوں پر غور کرے، اپنے نفس میں جھانکے اور ماضی کی اقوام سے عبرت حاصل کرے۔ قرآن بار بار پچھلی امتوں کا ذکر کرتا ہے کہ انہوں نے کس طرح اپنے نبیوں کی بات نہ مانی، سرکشی اختیار کی اور پھر عذاب میں گرفتار ہو گئے۔ فرعون، نمرود، قومِ عاد و ثمود، سب کی داستانیں غور و فکر اور عبرت کے لیے بیان کی گئی ہیں۔ اسی لیے قرآن کہتا ہے، “فَٱعْتَبِرُوا۟ يَـٰٓأُو۟لِى ٱلْأَبْصَـٰرِ”
(پس عبرت حاصل کرو اے عقل والو!)
دین میں غور و فکر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن میں کئی مقامات پر انسانوں کو سوچنے، تدبر کرنے اور سوالات اٹھانے کی تلقین کی گئی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کا قصہ دیکھیں جب انہوں نے سورج، چاند اور ستاروں پر غور کیا اور سمجھا کہ یہ سب مخلوق ہیں اور فنا ہو جاتے ہیں، تب انہوں نے حقیقت کی تلاش شروع کی۔
“فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ ٱلَّيْلُ رَءَا كَوْكَبًۭا ۖ قَالَ هَـٰذَا رَبِّى ۖ فَلَمَّآ أَفَلَ قَالَ لَآ أُحِبُّ ٱلْءَافِلِينَ”
(پھر جب رات نے اسے ڈھانپ لیا تو اس نے ایک ستارہ دیکھا، کہا: یہ میرا رب ہے، مگر جب وہ ڈوب گیا تو کہا: میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔)
یہاں غور و فکر نے حضرت ابراہیمؑ کو حق تک پہنچایا- لیکن اگر وہ صرف سائنسی تحقیق ہی کرتے رہتے اور اس سے کوئی عملی نتیجہ اخذ نہ کرتے، تو یہ سوچ بے فائدہ ہو جاتی۔
لہذا غور و فکر کا مقصد صرف تجزیہ کرنا ہو، اور وہ انسان کو کسی عملی یا اخلاقی نتیجے تک نہ پہنچائے، تو وہ محض ذہنی ورزش بن کر رہ جاتا ہے۔ یہی مسئلہ جدید دنیا میں فکری تحریکوں کے ساتھ بھی ہے، جہاں علم اور فکر تو موجود ہے، مگر وہ عمل میں ڈھلنے کے بجائے نظریاتی مباحث میں الجھ جاتی ہے۔ اور یہی مسئلہ سائنسی ترقی کے ساتھ بھی جُڑا ہوا ہے۔ اگر سائنسدان کائنات کے راز کھولتے ہیں، مگر وہ اس علم کو انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال نہیں کرتے، تو یہ علم ادھورا رہ جاتا ہے۔ سائنسدان جب ایٹم بم بنا کر جنگوں کے لیے استعمال کرتے ہیں، یا مصنوعی ذہانت کو انسانی معاشروں میں استحصال کے لیے بروئے کار لاتے ہیں، تو یہ وہی علم ہوتا ہے جس میں عبرت کا پہلو مفقود ہوتا ہے-

علم کی جستجو اور عقل کا استعمال انسان کا شرف ہے- لیکن اس کا نتیجہ عبرت پذیری کی صورت میں نہ نکلے، تو وہ بے مقصد رہ جاتا ہے۔ مذہب غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، مگر اس کے ساتھ حکمت اور اخلاقی سبق بھی سکھاتا ہے۔ غور و فکر کو عبرت پذیری سے جوڑنا ہی وہ کمال ہے جو انسان کو محض “جاننے” سے “سمجھنے” اور آخرکار “عمل” کی طرف لے جاتا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو علم کو حکمت میں اور حکمت کو بصیرت میں بدلتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں