رمضان: ایک مہینہ جو زندگی بدل سکتا ہے/ نصیب باچا یوسفزئی

کبھی سوچا ہے کہ ایک مہینہ کیسے کسی کی پوری زندگی بدل سکتا ہے؟ ایک ایسی مدت جو جسم کو طاقت، ذہن کو وسعت، روح کو روشنی، اور دل کو سکون دے۔ ایک ایسا مہینہ جس میں وقت کی رفتار بدلتی محسوس ہوتی ہے، دن عبادت کی چمک سے روشن ہو جاتے ہیں، راتیں دعا اور ذکر کی مٹھاس سے مہک اٹھتی ہیں، اور دلوں میں ایک انوکھی طہارت پیدا ہو جاتی ہے؟ یہ کوئی عام وقت نہیں، بلکہ رمضان المبارک ہے۔ وہ بابرکت مہینہ جو زندگی کے ہر پہلو پر گہرا اثر ڈال کر ایک نئی روح پھونک دیتا ہے۔

رمضان محض ایک مذہبی رسم نہیں، بلکہ ایک ہمہ گیر اور طاقتور نظام ہے جو انسان کی روحانی، جسمانی، ذہنی، اور سماجی زندگی کو ایک نئے سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔ اگر ہم اس مہینے کو شعوری طور پر گزاریں، تو یہ ہمیں ایک بہتر انسان، ایک مضبوط شخصیت، اور ایک متوازن زندگی کا حامل بنا سکتا ہے۔ جدید دنیا کی بے ہنگم دوڑ میں، جہاں ہر کوئی کامیابی، سکون اور خوشی کے پیچھے بھاگ رہا ہے، رمضان وہ موقع فراہم کرتا ہے جہاں سب کچھ رک جاتا ہے، اور انسان کو خود اپنی حقیقت، اپنی کمزوریوں اور اپنی اصل طاقت کا ادراک ہوتا ہے۔

یہ مہینہ محض بھوکا پیاسا رہنے کے لیے نہیں بلکہ ایک گہری تربیت گاہ ہے، جو ہمارے جسم، روح، اور سوچ کو بدلنے کی غیرمعمولی طاقت رکھتا ہے۔ دنیا کے تمام بڑے مذاہب میں روزہ کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ایک فطری اور آفاقی اصول ہے۔ قدیم مصریوں، یونانیوں، اور رومیوں کے ہاں بھی روزہ ایک روحانی تزکیہ کے طور پر رائج تھا۔ سقراط، افلاطون، اور بقراط جیسے عظیم فلسفیوں نے روزے کی افادیت پر بحث کی اور اسے ذہنی اور جسمانی تطہیر کا ذریعہ قرار دیا۔ بقراط، جو جدید طب کا بانی سمجھا جاتا ہے، کہتا تھا کہ “جب تم بیمار ہو جاؤ تو کھانے سے رک جاؤ، کیونکہ یہی تمہارا سب سے بڑا علاج ہے۔”

یہاں تک کہ جدید سائنس بھی روزے کی افادیت کو تسلیم کر چکی ہے۔ جاپانی سائنسدان یوشینوری اوہسومی نے 2016 میں “آٹو فجی” (Autophagy) پر تحقیق کے لیے نوبل انعام حاصل کیا۔ اس نے ثابت کیا کہ فاقہ رکھنے سے جسم کے مردہ اور غیر ضروری خلیات خود بخود ختم ہو جاتے ہیں اور نئے صحت مند خلیات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ یہ عمل جسم کو مختلف بیماریوں، جیسے کینسر، شوگر، اور نیوروڈیجنریٹیو ڈیزیزز (دماغی انحطاط کی بیماریاں) سے بچانے میں مدد دیتا ہے۔ یہ سائنسی تحقیق اس حقیقت کی تائید کرتی ہے کہ روزہ صرف ایک مذہبی عبادت نہیں بلکہ ایک سائنسی معجزہ بھی ہے۔

اگر ہم دنیا میں پھیلی بے چینی، بدامنی، اور اخلاقی زوال کی وجوہات پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس کا سب سے بڑا سبب نفس پر قابو نہ پانا ہے۔ آج کے دور میں زیادہ تر جرائم، جیسے کرپشن، بے ایمانی، دھوکہ دہی، اور ظلم و زیادتی، اسی لیے ہوتے ہیں کہ انسان اپنی خواہشات کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھا ہے۔ روزہ اسی خواہش پر قابو پانے کی عملی مشق ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص روزے کی حالت میں کسی سے جھگڑا کرے تو اسے کہہ دینا چاہیے کہ میں روزے سے ہوں۔ اس حدیث میں روزے کی اصل روح بیان کی گئی ہے: یعنی انسان نہ صرف کھانے پینے سے باز رہے بلکہ اپنے اخلاق، معاملات، اور برتاؤ میں بھی بہتری پیدا کرے۔

سماجی اعتبار سے رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جو مساوات اور برابری کو فروغ دیتا ہے۔ جب ایک امیر اور غریب دونوں کو ایک ساتھ بھوک اور پیاس کا تجربہ ہوتا ہے، تو ان کے درمیان ہمدردی اور بھائی چارے کا رشتہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ یہی وہ فلسفہ ہے جو کسی دوسرے معاشی یا سماجی نظام میں نہیں ملتا۔

رمضان کی سب سے بڑی برکت شبِ قدر ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے۔ اس ایک رات کی عبادت 83 سال کی عبادت کے برابر ہے۔ اگر ہم سائنسی اور فلسفیانہ نقطۂ نظر سے غور کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زندگی میں کچھ لمحات غیر معمولی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں بھی ہمیں ایسے لمحات ملتے ہیں جب ایک فیصلہ پوری نسلوں کی تقدیر بدل دیتا ہے۔ یہی فلسفہ شبِ قدر کا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ رات اس لیے رکھی تاکہ بندہ ایک ہی رات میں وہ نیکیاں کما سکے جو عام حالات میں ایک پوری زندگی میں ممکن نہیں ہوتیں۔

رمضان ایک عارضی عبادت نہیں بلکہ ایک مستقل طرزِ زندگی ہے۔ اگر ہم اس مہینے میں پیدا ہونے والی نیک عادات کو مستقل کر لیں، تو ہماری زندگی میں ایک انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ ایک کامیاب انسان کی خصوصیات میں نظم و ضبط، قوتِ ارادی، شکر گزاری، سادگی، اور بلند مقاصد شامل ہوتے ہیں، اور روزہ یہی سب کچھ سکھاتا ہے۔

آج کے جدید دور میں، جہاں ہر شخص وقت کی کمی، ذہنی تناؤ، اور روحانی خلا کا شکار ہے، رمضان ایک مکمل حل فراہم کرتا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں نہ صرف اللہ کے قریب کرتا ہے بلکہ ہمیں اپنے نفس، اپنی صحت، اپنی عادات، اور اپنے معاشرتی رویوں پر نظرِ ثانی کرنے کا موقع بھی دیتا ہے۔ اگر ہم رمضان کی برکتوں کو سال بھر جاری رکھیں، تو یہ ممکن ہے کہ ہم اپنی زندگی میں نہ صرف کامیابی حاصل کریں بلکہ دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو ہو جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ مہینہ ایک ایسا موقع ہے جو ہمیں خود کو بہتر بنانے کا پورا نظام فراہم کرتا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اسے ایک وقتی جذبہ سمجھ کر گزار دیتے ہیں یا اس کی اصل روح کو سمجھ کر اپنے آپ کو ایک نئی زندگی کی طرف لے کر جاتے ہیں۔ اگر ہم اس مہینے کو صحیح معنوں میں سمجھیں، تو یہ ہماری زندگی کی سب سے بڑی کامیابی کا نقطۂ آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں روزے یا رمضان کے مقاصد سمجھنا چاہیے اور اس کو سال کے باقی مہینوں میں بھی اپنانا چاہیے جس میں میرے خیال میں نفس پر کنٹرول، دوسروں کا احساس، ہمدردی، وقت کی پابندی، غریبوں اور مسکینوں کے حالات کا احساس، صبر اور تقوٰی شامل ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply