سیانے کہتے ہیں کہ ٹائمنگ سے زیادہ “مینٹل اسٹیمنا” یعنی ذہنی صلاحیت یا سکت زیادہ اہم ہوتی ہے ، شکست یا ناکامی کا فزیکلی کوئی وجود نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک طرح کی ذہنی حالت یا کیفیت ہوتی ہے ۔
آپ اس وقت شکست سے دوچار ہوتے ہیں جب آپ کا ذہن شکست کا سگنل دیتا ہے ، شکست یا فتح کا تعلق ذہن سے ہوتا ہے ، جب آپ ذہنی طور پر شکست کو تسلیم کر لیتے ہیں تو آپ کی قوت مدافعت بھی ہاتھ کھڑے کر دیتی ہے اور ہوتا یہ ہے کہ تمام تر وسائل کے باوجود بھی آپ ہار جاتے ہیں ۔
مضبوط ذہنی صحت و صلاحیت ایک طرح کا مدافعتی نظام ہوتا ہے جو آپ کے جسم اور عزم کو توانا رکھتا ہے ، یہ صلاحیت یا مضبوطی مصنوعی تنفس سے نمو نہیں پاتی بلکہ صحت مندانہ ذہنی رویے اختیار کرنے سے نمو پاتی ہے ، ایک کھلاڑی کا حقیقی جوہر اس کی جسمانی ایکسرسائز یا مشقت و ریاضت ہوتی ہے جو اسے میدان میں اترنے کے قابل بناتی ہے ، جس کی ریاضت میں جتنا دم ہوتا ہے وہ اتنا ہی توانا اور فٹ رہتا ہے لیکن اگر کوئی اپنی جسمانی صحت و صلاحیت کو یکدم سے جادوئی بنانے یا دنوں میں کئی گنا بڑھانے کے لیے میڈیسن ، انجیکشن یا فوڈ سپلیمنٹس کا سہارا لینے لگتا ہے تو اسی دن سے اس کا ذہنی و جسمانی زوال شروع ہو جاتا ہے ۔
جس طرح سے مدافعتی ادویات ایک کھلاڑی کو وقتی طور پر تو فائدہ پہنچاتی ہیں لیکن مسلسل استعمال کی وجہ سے اس کے جسم کا قدرتی مدافعتی نظام کمزور پڑنے لگتا ہے اور ذہنی طور پر ادویات پر اکتفا کرنے کی وجہ سے اس کی قدرتی صلاحیتوں کو زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے ۔
اسی طرح سے جنسی ادویات وقتی تسکین کا سبب تو بن سکتی ہیں مستقل نہیں بلکہ کئی سارے دوسرے پچیدہ مسائل پیدا کر دیتی ہیں ۔
مصنوعی سہارے بیساکھیوں کی مانند ہوتے ہیں جو انسان کو زیادہ دیر تک خود کے پاؤں پر مضبوطی سے کھڑا رہنے نہیں دیتے ، میڈیسن یا پاور ٹانکس مضبوط سے مضبوط انسان کو بھی مصنوعی تنفس پر ڈال دیتے ہیں اور اس طرح کا انسان اعصابی جنگ تو ہارتا ہی ہے ذہنی جنگ بھی ہار جاتا ہے ۔
جسمانی صحت کی اپنی ایک اہمیت ضرور ہوتی ہے لیکن ذہن کا صحت مند ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے ، صحت مندانہ رویے انسان کو حقیقت پسند بناتے ہیں ، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جنسی آسودگی کا تعلق ایک صحت مند ذہن اور حقیقت پسندانہ رویے سے ہوتا ہے ، جتنا ذہن پر سکون اور شانتی میں ہوگا اسی قدر جنسی تسکین میسر ہوگی ۔
سوال یہ ہے کہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد جنسی عمل کو لے کر اس قدر پرتشدد کیوں ہوتی ہے ؟
جنس کے متعلق گمراہ کن تصورات جابجا کیوں پائے جاتے ہیں اور محلے کے بڑے بوڑھے نوجوانوں کو ایسا تاثر دینے کی کوشش کیوں کرتے ہیں کہ جیسے یہ کوئی جنسی جنگ ہو ؟
اس طرح کی باتیں اکثر سننے کو کیوں ملتی ہیں کہ جیسے جنسی عمل نہ ہوا بلکہ جنگ و جدل ہوا جس میں ٹرافی ہر صورت میں مرد کو جیتنی ہے اور فتح کا تمغہ اپنے ماتھے پر سجانا ہی ہے ورنہ سب کچھ ختم ہو جائے گا ، میچ بھلے یک طرفہ ہی ہو کیا فرق پڑتا ہے ؟
حکماء کے جنسی دعوے تو خیر نوشتہ دیوار ہوتے ہیں لیکن اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہر دوسرا بندہ حکیمانہ انداز میں نوجوانوں کو بتا رہا ہوتا ہے کہ بچپن کی غلط کاریوں یا ماسٹر بیشن کی وجہ سے تمہیں شادی سے پہلے کشتے یا میڈیسن وغیرہ کھانی چاہیے ورنہ تم جنسی لڑائی نہیں لڑسکتے ۔
کوئی یہ بتانے کا تکلف کیوں نہیں کرتا کہ خاتون بھی انسان ہوتی ہے ، اسے درد بھی ہوتا ہے اور وہ لطف اندوز بھی ہوتی ہے ، اس کے ساتھ انسانوں کی طرح پیش آنا ؟
معاشرتی سیانے یا شکاری یہ کبھی نہیں بتائیں گے کہ معاشرتی پارسا بنے رہنے کے چکروں میں ہم نے بچوں کے تجسس کے گرد جھوٹ موٹ کی کہانیوں کی دیواریں کھڑی کی ہوئی ہیں کہ کہیں درست حقائق یا سچ جاننے کی وجہ سے ہمارے بچے خراب نہ ہوجائیں ، روبوٹ بھلے سے بن جائیں کیا فرق پڑتا ہے؟
ان بڑوں کو کیا خبر کہ انہی بچوں کو نارمل سے حقائق پر پردہ پوشی کی نجانے کتنی قیمت چکانا پڑتی ہے ، کتنوں کو معاشرتی شکاریوں کے ہتھے چڑھنا پڑتا ہے ، تجسس کے گرد اساطیری کہانیوں کے جال کو کاٹنے کی جہدوجہد کے دوران کئی شکاری ان بچوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں ، ننگی تصاویر کے نشے میں مبتلا کرتے ہیں یا پورنوگرافک ویب سائٹ کا عادی بنا دیتے ہیں ۔
جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے ذہنوں میں سیکس یا شادی کے متعلق غلط قسم کے تصورات قائم ہو جاتے ہیں اور ایک طرح سے سیکس ایسے نارمل عمل کو وہ جنگ و جدل کی مہم سمجھنے لگتے ہیں ۔
ان کے ذہنوں میں بچپن سے فکس ہو جاتا ہے کہ خاتون کے جسم کو جنسی طور پر فتح کرنے کے لیے ویاگرا یا جنسی ادویات کی ضرورت ہوتی ہے نا کہ ذہنی ہم آہنگی یا پیار کی ، وہ اس حقیقت سے بے خبر ہوتے ہیں کہ سیکس ایک جنسی آرٹ ہوتا ہے جسے ایک آرٹسٹ ہی خوبصورت بنا سکتا ہے ، پیار اور تسکین کو کس حد تک تادیر قائم رکھا جا سکتا ہے اس حقیقت کا گیان تو صرف محبت آشنا کو ہی ہوتا ہے ، جسم نوچنے والے کو نہیں ہوتا ۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارا سماج محبت کے معاملے میں خاصا اناڑی واقع ہوا ہے اور ایک غیر حقیقت پسندانہ سا رویہ رکھتا ہے ۔
منافق سماج میں ناتو دشمنی کا کوئی سلیقہ ہوتا ہے اور نا ہی محبت کے اظہار کا کوئی قرینہ یا ڈھنگ ۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی نارمل انداز میں تربیت کرنے کی بجائے انہیں زبردستی کا ایک ایسا نیک انسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں جو ظاہری طور پر تو بھلے پرہیزگار یا متقی ہو لیکن اس کی ذہنی سلیٹ یا ڈسک پر پورنوگرافک تصورات ہی چل رہے ہوتے ہیں ۔
فطرت کے منہ زور جنسی تقاضے فطری راستوں سے ہی بہلتے ہیں ، دعا و مناجات و تسبیحات یا روحانی بندوبست سے ان فطری جذبوں کی شدت و حدت کم نہیں پڑتی بلکہ زبردستی کی پارسائی کے مکھوٹے کی وجہ سے ذہنی بیماریاں جنم لینے لگتی ہیں اور جنسی مکروہات یا بدصورتی سامنے آنے لگتی ہے ۔
جو لوگ چھوٹے بچوں یا بچیوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں وہ بظاہر تو نیک اور صالح ہوتے ہیں لیکن جنس کے ہاتھوں مجبور ہوکر استحصالی راہوں کے اسیر ہو جاتے ہیں ، وہ جنسی تمیز سے ماورا ہو جاتے ہیں ، انہیں اپنی ہوس مٹانے کے لیے صرف “سوراخ” کی ضرورت ہوتی ہے ۔
یہ بظاہر وہی نارمل سرگرمیاں ہوتی ہیں جو سماج کے بڑوں کی چھپن چھپائی کی وجہ سے بدصورتی میں ڈھلنے لگتی ہیں اور نوجوان غلط ڈائریکشن یا غلط فہمیوں کے انبار کی وجہ سے سیکس ایسے نارمل عمل کو بھی ویاگرا یا حکیمی نسخوں کی نذر کر دیتے ہیں اور اپنی جوانی کو ایک سراب کی سی کیفیت میں بسر کرنےلگتے ہیں ۔
جنسی عمل کو پرتاثیر بنانے کے چکروں میں الٹی سیدھی دواؤں کی وجہ سے کئی طرح کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
جب سیکس پر بات کرنا جرم ٹھہرے تو کس کو خبر ہوگی کہ جنسی عمل تو ایک مائنڈ گیم ہوتی ہے ، اس عمل کا عضو تناسل کے چھوٹے یا بڑے ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق تو پیار ومحبت کی ایک مثالی سی کیمسٹری کے ساتھ ہوتا ہے ۔
پیار ومحبت پُرسکون ماحول کا متقاضی ہوتا ہے ، یہ ایک ایسے ماحول میں خوبصورتی کے پورے رنگ بکھیرتا ہے جہاں مداخلت کا شائبہ تک نہ ہو ، جہاں دو اجسام کے بیچ ہوا کا بھی گزر نہ ہو اور اس قسم کا ماحول وہیں پنپ سکتا ہے جہاں انفرادیت کا بول بالا ہو ، جہاں خاتون کو روبوٹ کی بجائے انسان سمجھا جاتا ہو ، جہاں بندھن کو دو انسانوں کے بیچ کا انتہائی نجی معاملہ سمجھا جاتا ہو ۔
جہاں شادی یا رفاقت کا مقصد محض بچے پیدا کرنا نہ ہو بلکہ محبت و پیار کو پوری طرح سے پروان چڑھنے کا موقع میسر ہو اور جنسی تسکین کو پورے تقاضوں کے ساتھ اولیت و احترام حاصل ہو ۔
تصوراتی قسم کی جنسی کہانیاں یا من گھڑت ٹائپ جنسی شعبدہ بازیوں کے قصے منافق اور بناوٹی سماج کا شاخسانہ ہوتے ہیں ، جو معاشرے نارمل ہوتے ہیں وہاں جبر و شرم نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ، وہاں بچوں کو نارمل انداز میں انسانی جسم سے جڑے ہوئے مسائل پر تعلیمی پس منظر میں رہنمائی فراہم کی جاتی ہے ۔
قطع نظر اس ساری گفتگو کے ، سب سے پہلے خاتون کو ہمیں انسان تسلیم کرنا ہوگا اور اس حقیقت کو جاننا ہوگا کہ وہ محض جنسی مشین نہیں ہوتی بلکہ شریک حیات ہوتی ہے ۔
تحریر: عبدالستار (میاں چنوں)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں