صحافت صحافی/مہ ناز رحمٰن

ہماری نسل کے وہ صحافی جنہوں نے پرنٹ میڈیا کے عروج کے زمانے میں اس پیشے

Advertisements
julia rana solicitors london

کو اپنایا اور میڈیا پر پابندیوں کے خلاف تحریکیں چلائیں،اب پرنٹ میڈیا
کا زوال اور ڈیجیٹل انقلاب برپا ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔وقت کا پہئیہ
ہمیشہ آگے ہی چلتا ہے اور تبدیلی کا عمل ناگزیر ہے لیکن نئی نسل کو اپنے
زمانے کی کہانیاں سنانا اور زندگی کے سفر میں ان کی رہنمائی کرنا بھی
ضروری ہے۔مقبول خان ہم سے کچھ عرصہ بعد صحافت میں آئے اور”صحافت اور
صحافی“ کے عنوان سے کتاب لکھ کر انہوں نے یہی کوشش کی ہے۔ وہ صحافت میں
محمود شام اور اجمل دہلوی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
مقبول خان کا کہنا ہے کہ اخبارات کو زوال پذیر ہونے میں دو سو سال کا
عرصہ لگالیکن الیکٹرنک میڈیا تیسرے عشرے میں داخل ہونے کے ساتھ ہی دم
توڑنے لگا ہے۔ٹیلی وژن اخبار بینی کی طرح فطرت ثانیہ نہ بن سکا۔ماضی میں
اخبار بینی ایک پختہ عادت،چسکا اور روزمرہ کا لازمی فعل تھا۔اخبار پڑھے
بغیر ایک کمی محسوس ہوتی تھی۔لیکن نئی نسل میں مطالعے کا رحجان کم و بیش
ختم ہو رہا ہے۔
اس کتاب کو صحافت کے طالب علموں کے لئے مشعل راہ قرار دیتے ہوئے توصیف
احمد خان نے ضیا ا لحق دور کی سنسر شپ کا ایک دلچسپ واقعہ قلم بند کیا
ہے۔”1981میں پی آئی اے کے طیارے کے اغوا سے پہلے پیپلز پارٹی کے چالیس
کارکنوں کو لائنز ایریا میں ایک دکان سے گرفتار کیا گیا۔گرفتار ہونے
والوں میں ہم سب کے دوست بھی شامل تھے۔میری رپورٹ پر نیوز روم میں طے ہوا
کہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی گرفتاری کی خبر اس طرح تحریر کی جائے کہ
سنسر افسران کی گرفت میں نہ آئے اور سب کے مشورے سے خبر لگائی گئی کہ
چالیس جواری گرفتار کر لئے گئے۔خبر کے متن میں گرفتار کارکنوں کے نام دے
دئیے گئے۔یوں اس خبر کی اشاعت سے دنیا کو پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی
گرفتاری کا پتہ چل گیا“۔
حسن عباس ایڈیٹر روزنامہ ایکسپریس کراچی نے مقبول خان کا تعارف کچھ یوں
کرایا ہے:”مقبول خان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کو یہ جنون ہے کہ
وہ شعبہ ء صحافت سے وابستہ ہونے والوں کی تربیت اور رہنمائی کر سکتے
ہیں۔نہ کوئی بناوٹی انداز،نہ بھڑکیں، نہ اپنے سینئیر ہونے کا رعب، ایک
عام شریف النفس، سادہ شخصیت۔ مقبول خان نے اپنی پوری زندگی صحافت کے شعبے
میں گزار دی۔نہ مال و زر کی ہوس، نہ نمایاں ہونے کا شوق مگر اپنے کام میں
ایسے مشتاق کہ ملنے والوں کو حیران کر دیں‘۔
کتاب کا پہلا حصہ صحافت کے چار قائدین کے بارے میں مضامین پر مشتمل
ہے۔بقول مقبول خان ’وطن عزیز میں صحافتی اقدار کی سر بلندی، صحافیوں اور
اخباری کارکنوں کے حقوق اور اظہار رائے کی جدوجہد کی داستان بڑی طویل
ہے۔اس عظیم جدوجہد میں صحافیوں اور اخباری کارکنوں کی رہنمائی کرنے والوں
میں نثار عثمانی، منہاج برنا، عبدالحمید چھاپرااور احفاظ ا لرحمن کے نام
سر فہرست ہیں۔یہ چاروں قائدین اگرچہ اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں لیکن
صحافتی اقدار کی سر بلندی، صحافیوں کے حقوق اور اظہار رائے کی آزادی پر
یقین رکھنے والے صحافیوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔‘
مقبول خان کا صحافتی سفر 1978سے شروع ہوا اور ابھی تک جاری ہے۔”محنت کشی
سے صحافت تک کا سفرکٹھن اور دشوار ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے لئے پر کشش
بھی تھا۔غربت کے مارے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم کو پڑھ لکھ
کر ایک بڑا آدمی بننے کی لگن ضرور تھی“۔
اس کتاب میں محمود شام ”صحافت کی تعریف“کے بارے میں کہتے ہیں کہ تکنیکی
لحاظ سے شعبہ ء صحافت کے کئی اجزا ہیں لیک سب سے اہم نکتہ عوام کو باخبر
رکھنے کا ہے۔اپنے مضمون میں انہوں نے صحافت کی تاریخ کے بارے میں اہم
معلومات فراہم کی ہیں۔مجاہد بریلوی خبر کے بارے میں کہتے ہیں کہ خبر
بنیادی طور پر دو اجزا پر مشتمل ہوتی ہے۔پہلا جز ابتدائیہ یا انٹرو اور
دوسرا حصہ ڈیٹیل۔ان میں عام طور پر چھ ’کاف‘ یعنی کیوں؟کیا؟ کون؟کب؟
کہاں؟ کیسے؟ اور کس لئے؟ کے جواب دئیے جاتے ہیں۔
”ایڈیٹر“ کے بارے میں مقبول خان نے اپنے اور مقصود احمد یوسفی کے خیالات
قلم بند کئے ہیں۔ایڈیٹر کسی زمانے میں اخبار یا جریدے کی شناخت ہوا کرتا
تھا۔اخبار کا مالک یا پبلشر پس منظر میں ہوتا تھا لیکن اب معیار کی بجائے
مارکیٹنگ کے مفادات کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ایڈیٹر کا ادارہ ختم ہو گیا
ہے۔
سب ایڈیٹرکے بارے میں مقبول خان کہتے ہیں ”دنیائے صحافت میں سب ایڈیٹر
انتہائی افادیت اور اہمیت کا منصب ہے۔سب ایڈیٹر اخبار کو طباعت کے مرحلے
تک پہنچانے میں وہی کردار ادا کرتا ہے جو انسانی جسم میں ریڑھ کی ہڈی
کرتی ہے۔“جب کہ کسی خبر یا واقعے کے اہم حقائق کا انتخاب کر کے مناسب
الفاظ کا جامہ پہنا کر حقائق پر مبنی کہانی بنا کر پیش کرنا نیوز رپورٹنگ
کہلاتا ہے۔مخصوص شعبے کی رپورٹنگ کو ’بیٹ رپورٹنگ‘ کہتے ہیں۔پریس یا
اخباری فوٹو گرافر بھی صحافت کا اہم جزو ہے۔اردو صحافت میں اداریہ نویسی
کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود اردو صحافت۔ماضی میں بہت سی نامور
شخصیات نے اپنے اخباروں کے اداریوں کی وجہ سے معاشرے میں انقلاب برپا
کیا۔مقبول خان کو سب سے پہلے روزنامہ اعلان میں جناب محمود شام اور جناب
نیر علوی نے مقامی مسائل پر شذرہ لکھنے کے لئے رہنمائی کی۔کالم بھی اخبار
کا اہم حصہ ہوتے ہیں اور آج کل تو اخبارات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے
لگایا جاتا ہے کہ کون کون سے کالم نویس اس سے وابستہ ہیں۔قطعہ نگاری بھی
اردو اخبارات کا اہم حصہ رہی ہے اور جناب رئیس امروہوی کو صحافتی قطعہ
نگاری کا جد امجد قرار دیا جاتا ہے۔رپورتاژ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
رپورٹر اپنی نیوز رپورٹ میں جب اپنے خیالات اور لوگوں کے تبصرے بھی شامل
کرتا ہے تو وہ رپورٹ کی بجائے رپورتاژ بن جاتی ہے۔
اردو صحافت کی صنف فیچر انگریزی صحافت سے آئی ہے۔اخبارات کے ہفتہ وار
ایڈیشنز میں فیچرز کو بے حد اہمیت دی جاتی ہے۔کارٹون بھی اخبارات کا اہم
حصہ رہے ہیں۔نگار نذر، فیکا اور زیدی اخبارات کے مقبول کارٹونسٹ رہے
ہیں۔اشتہارات بھی اخبار اور چینلز کو چلانے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔وفاقی،
صوبائی اور مقامی حکومتیں اور صنعتی اور تجارتی ادارے اشتہارات فراہم
کرتے ہیں۔مقبول خان کی رائے میں اخبارات کے زوال کی بنیادی وجہ سرکاری
اشتہارات کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ویسے بھی دنیا بھر کی طرح پاکستان میں
بھی اخبارات زوال پذیر ہیں جب سے نجی چینلز ایک متبادل کے طور پر سامنے
آئے ہیں، اخبارات کی اشاعت بتدریج کم ہونا شروع ہو گئی ہے۔مقبول خان اور
کراچی یونین آف جرنلسٹس اس معلوماتی کتاب کی اشاعت پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply