شیکسپیئر کی چڑیلوں کا میکبتھ سے خطاب/محمد عامر حسینی

ایک نہایت دلچسپ اور تیز و طرار طنزیہ تجزیہ، جو زیلینسکی-ٹرمپ کہانی کے حالیہ واقعات پر ولادیمیر گولسٹین نے قلم بند کیا ہے۔ میں یہاں اس کا اردو ترجمہ پیش کر رہا ہوں۔ اصل متن آپ ان کے فیس بک وال پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔(ع- ح)

“خونخوار، نڈر اور ثابت قدم رہو؛ انسان کی طاقت کو ٹھوکر میں اڑاؤ۔”

یورپی یونین کی چڑیلوں کا زیلینسکی سے خطاب:

“مضبوط رہو، بہادر بنو، بے خوف ہو جاؤ۔ مسٹر صدر، آپ کبھی تنہا نہیں ہیں۔”

مگر میکبتھ کے دیس کا کیا حال ہے؟ وہی جو زیلینسکی کے یوکرین کا ہے:

“ہائے، بےچارہ ملک،
جو خود کو پہچاننے سے بھی ڈرتا ہے۔
یہ ماں نہیں، قبر بن چکا ہے،
جہاں بس وہی مسکراتا دکھائی دیتا ہے
جو کچھ جانتا ہی نہ ہو؛
جہاں آہیں، کراہیں اور فلک شگاف چیخیں
سننے کے لیے نہیں، بس نکلنے کے لیے ہوتی ہیں؛
جہاں غم کی شدت
دیوانگی کے سے جوش میں ڈھل چکی ہے۔
جہاں مردے کی گھنٹی بجتی ہے،
مگر کوئی یہ تک نہیں پوچھتا کہ کون مرا؟
جہاں اچھے انسان
اپنی ٹوپیوں میں سجے پھول مرجھانے سے پہلے
خود ہی مر جاتے ہیں۔”

تو سوال یہ ہے کہ وہ اوول آفس میں اتنا خونخوار اور ضدی کیوں تھا؟
آخر کس چیز نے اسے یوں بے توازن کر دیا
کہ شائستگی اور احسان مندی کو چھوڑ کر
چیلنج کرنے، انکار کرنے اور ڈانٹنے کو ترجیح دی؟

یورپی یونین کی چڑیلیں ہی نہیں، جو بے شمار ہیں،
بلکہ اس کے اندر کے بھوت بھی—
بالکل ویسے جیسے میکبتھ کے اندر کے بھوت۔

ان میں دو نمایاں ہیں،
یا یوں کہیے، دو قومی مزاج:

1. تم ہم پر احسان مند ہو۔
2. میں ضدی ہوں اور اپنی بات پر اڑنے والا ہوں، اور یہی اصل شرافت ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ “تم ہم پر احسان مند ہو”
کا یہ احساس پولینڈ کے قریب ہونے اور
اس کی ثقافت کے اثرات سے آیا ہے۔
روسی اس کے برعکس زیادہ تقدیر پرست اور صبر والے ہیں۔
وہ “احسان” کا تصور بھی مختلف رکھتے ہیں—
ہمارا فرض ملک کے لیے ہے،
نہ کہ ملک کا ہم پر کوئی فرض ہے۔

لیکن جب بات یوکرین (اور پولینڈ) کی ہو
تو قصور ہمیشہ دوسروں کا ہوتا ہے،
اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ
ہر چیز کے لیے دوسروں کو مقروض سمجھتے ہیں۔
خاص طور پر روسیوں کو،
لیکن ساتھ ہی ساتھ یہودیوں، جرمنوں، یورپیوں
اور اب امریکیوں کو بھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی احساس
پولش/یوکرینی یہودی اسرائیل لے گئے—
وہ احساس جو سفاردی یہودیوں میں نظر نہیں آتا۔

یہ احساس تکلیف اور مصیبتوں سے پیدا ہوا ہے،
جو اکثر حد سے زیادہ سمجھی جاتی ہیں۔
مگر ایوب نبی نے بھی اذیتیں برداشت کیں،
اور پھر بھی ہمت نہ ہاری:
“خدا دیتا ہے، خدا لیتا ہے،
مبارک ہے خدا کا نام۔”

تو چلو، روسی امن لے آئیں،
اور یوکرینیوں کو پولینڈ کے چنگل سے نکالیں،
جنہوں نے انہیں ہمیشہ کمتر کسان سمجھا،
برابر کا درجہ کبھی نہیں دیا۔

چلو، روسی یوکرین کو
مزید اور مزید زمین دیں،
ایک چھوٹے سے ہیٹمانیت کو
پورے یورپ کے بڑے ملکوں میں شامل کر دیں۔

چلو، یوکرینی
سوویت یونین پر حکومت کریں—
جیسے خروشیف، بریژنیف اور چرنینکو نے کی،
یا جیسے فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے
زیادہ تر انہی کے ہاتھ میں رہے۔
لیکن یہ کبھی کافی نہیں ہوگا۔
“تم ہم پر احسان مند ہو۔”

اور پھر پولش “عزت” کا معاملہ بھی ہے—
یہ عجیب و غریب عزت،
جو فخر، حد سے بڑھی ہوئی خواہش،
اور برتری کے احساس سے بھری ہوتی ہے۔

اپنی بات پر ڈٹے رہنا عزت کی علامت ہے،
مگر صحیح کام کرنا نہیں۔

میکبتھ ایک لمحے میں خود سے سوال کرتا ہے:
“میں خون میں آدھا گھٹنے تک ڈوبا ہوں،
کیا مجھے آگے بڑھنا چاہیے؟”
“ہاں!” وہ خود کو جواب دیتا ہے،
“مجھے اور آگے جانا ہوگا۔”

اس کی اپنی ہلاکت خیز خودپسندی
تو ہے ہی،
مگر ساتھ ہی ساتھ
اس کی ضدی بیوی کا دباؤ بھی ہے،
جو اسے ہمت کرنا سکھاتی ہے:
“جتنی زیادہ ہمت دکھاؤ گے،
اتنے ہی زیادہ مرد کہلاؤ گے۔”

تو لیجیے، اگر ان دونوں نکات کو یکجا کر دیں،
تو آپ کو اوول آفس کے رویے کا فارمولہ مل جاتا ہے۔

لیکن نہ تو یورپی یونین کے نام نہاد دانشور
اور نہ ہی TDS
سے متاثرہ
میڈیا اور سیاست دان
اس بات کو سمجھتے ہیں۔

julia rana solicitors

وہ بس ڈان کورلیونے اور سوپرانوز کو جانتے ہیں۔
شیکسپیئر پڑھو، نادانو!
شاید تمہیں زبان ہی سمجھ آ جائے۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply