اقتدار کی جنگ /ڈاکٹر مختیار ملغانی

دنیا میں اقتدار کی جدوجہد مسلسل اور ناگزیر رہی ہے، آج اقتدار کس کے ہاتھ ہے، یا یوں کہئے کہ کون ہے جو حکومت کر رہا ہے؟

پاور شیئرنگ کو تین سطحوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، پہلی سطح پر تقریبا تین چوتھائی یعنی پچھتر فیصد اقتدار کو دو کلبوں نے آپس میں بانٹ رکھا ہے، ایک طرف لبرل کلب ہے جن کے پاس دنیا کا پچاس فیصد اقتدار ہے، اس کلب کے سامنے ٹریڈیشنل ہیں جن کے پاس پچیس فیصد اقتدار ہے بلکہ اگر زیادہ واضح طور پر کہا جائے تو ٹریڈیشنل کلب کے پاس پچیس فیصد جمع ایک( 1+25) اقتدار کا حصہ ہے۔
دوسری سطح پر باقی ماندہ پچیس فیصد منفی ایک( 1-25) اقتدار ہے، اور اس حصے کے وارث چار گروہ ہیں، پہلا گروہ متحد یہودیوں کا ہے جس میں اسرائیل بطور ریاست اور اس کے ہمنوا شامل ہیں ، دوسرا گروہ وہ ہے جسے macrofinance institutions کہا جاتا ہے جیسے بینک اور دوسرے ادارے، ان دونوں گروہوں کی مکمل ہمدردیاں لبرلز کے ساتھ ہیں، اسی دوسری سطح پر باقی ماندہ دوگروہوں میں سے ایک (یعنی تیسرا گروہ) کریمینلز اور مافیاز کا ہے، جیسے ہتھیاروں، منشیات,جسم فروشی اور جزوی طور پر ریئل اسٹیٹ کے مافیا شامل ہیں، چوتھا گروہ بین الاقوامی بیوروکریسی ہے جن کا ہر بڑے پروجیکٹ میں باقاعدہ حصہ ہوتا ہے، یہ آخری دو گروہ( تیسرا اور چوتھا) ہر لحاظ سے ٹریڈیشننل کلب کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔
یہاں اب جو پہلی سطح پہ جمع ایک اور دوسری سطح پہ منفی ایک ہے، یہ ایران ہے، ایران بطور قوم یا ملک نہیں بلکہ بطور ریاست، بالخصوص آیت اللہ اور ان کا خاندان، اس کی وجہ یہ ہے کہ آیت اللہ اپنی اصل میں ہمیشہ سے ٹریڈیشنل کلب کا حصہ رہے ہیں، اس کلب کی نظر میں آیت اللہ کا مقام وہی ہے جو دلائی لامہ یا پوپ کا ہے، آپ دیکھیں گے کہ ایران میں صدر پہ حملہ ہو سکتا ہے، اعلی عسکری قیادت کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے، حماس کے لیڈر کو اڑایا جا سکتا ہے لیکن آیت اللہ یا ان کے خاندان پہ کبھی حملہ نہیں ہوگا کیونکہ وہ ذاتی حیثیت میں مغربی ٹریڈیشنل کلب کے ممبر ہیں، یہی وجہ ہے کہ امام خمینی نے جلاوطنی کا وقت مغرب بالخصوص فرانس میں گزارا، گویا یہ خاندان اقتدار کی بین الاقوامی جدوجہد میں کم از کم ایک فیصد حصہ رکھتا ہے، بطور سپریم لیڈر ان کے ایک حکم پر خطے میں کئی چیزیں الٹ پلٹ کی جا سکتی ہیں۔
اس کے نیچے اب تیسری سطح ہے جنہیں مارکس کی زبان میں پرولتاریہ کہا جا سکتا ہے، گویا کہ انگولا سے لے کر روس تک کی عوام الناس اس تیسری سطح پہ واقع ہیں جن کے پاس کسی قسم کا کوئی اقتدار نہیں، اس میں سب مزدور، محنت کش اور سفید پوش شامل ہیں، یوں کہئے کہ اس تیسری سطح پر چھ ارب انسان ہیں جنہیں dust of megapolisکہا جائے تو درست ہوگا، مہذب الفاظ میں خاموش اکثریت کہہ سکتے ہیں ۔

لیکن اس تیسری سطح پر دو ایسے گروہ ہیں جو ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اقتدار میں اپنا حصہ وصول کریں، ان میں سے ایک ریڈیکل کلب ہے جو مختلف تنظیموں کی صورت دنیا کے مختلف خطوں میں موجود ہیں، لیکن اس کلب کیلئے کامیابی کا کوئی امکان مستقبل قریب میں ممکن نہیں، اس کی ایک وجہ تو یہ کہ ان کے پاس اپنا کوئی سیاسی پلیٹ فارم موجود نہیں اور دوسرا ان کے ہاں narrative methodology کا فقدان ہے، یہ فقدان بوجوہ قصداً پیدا کیا گیا، اس لئے یہ گروہ فی الحال آگے آنے سے قاصر رہے گا، البتہ اسی تیسری سطح پر ایک اور گروہ ہے جسے آج BRICS کے نام سے جانا جاتا ہے، اس میں چین، روس، انڈیا، برازیل ، ساؤتھ افریقہ اور دیگر ممالک شامل ہیں، اب واقعہ یہ ہے کہ یہ گروہ ایک طرف معاشی اور عسکری طور پر مضبوط بھی ہے تو دوسری طرف یہ سب، ریڈیکل گروہ کے برعکس، پارٹ آف دا سسٹم بھی ہیں ، اس لئے اس بات کا بھاری امکان ہے کہ یہ گروہ آگے آئے اور اقتدار کا بڑا حصہ اپنے نام کرے۔
اب معاملہ یہ ہے کہ بریکس والا گروہ اپنی ساخت میں ہر لحاظ سے ٹریڈیشنل ہے، اگر تیسری سطح سے یہ گروہ اوپر کو آتا ہے تو دوسری سطح کے پہلے دو گروہوں یعنی یہودی اور بینکنگ اداروں کو replace کر سکتا ہے، کیونکہ یہ دو گروہ لبرلز کے حامی ہیں، ایسے میں دوسری سطح کا پچیس فیصد اقتدار گویا ٹریڈیشنل کلب کی ملکیت میں چلا جائے گا، یہ چیز لبرلز کیلئے قابل قبول نہیں ، یقینا یہاں مزاحمت ہوگی اور ہونا بھی چاہئے، یہ جو آج ہم یوکرین میں حالات دیکھتے ہیں، شام اور یمن، فلسطین اور دیگر خطوں میں جو مسلسل کھینچا تانی جاری ہے دراصل یہ لبرلز کلب کی ٹریڈیشنل کے خلاف مزاحمت ہے اور ٹریڈیشنل کی یہ جدوجہد ہے اقتدار میں اپنا حصہ پانے کیلئے ، اور حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ تیسری سطح سے یہ گروہ دوسری سطح پہ موجود لبرلز کے حامیوں کو ریپلیس کر دے گا، کیونکہ ٹریڈیشنل کلب گزشتہ ایک صدی سے اقتدار کا بڑا حصہ کھو چکا ہے، یہ حصہ لبرلز نے اپنے نام کر رکھا ہے، بالخصوص دوسری جنگ عظیم کے بعد سے تو لبرلز ہی اقتدار کے بھاری حصے کے مالک ہیں، ٹریڈیشنل یہی بھاری حصہ واپس اپنے نام کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی ممالک میں اب ٹریڈیشنل جماعتیں مسلسل الیکشنز جیت رہی ہیں، اٹلی، ہنگری، جرمنی اور دیگر کئی ممالک کی حالیہ مثالیں شامل ہیں کہ لبرلز کی بجائے اب ٹریڈیشنل سیاسی جماعتیں آگے آ رہی ہیں۔

اب اگر تیسری سطح سے بریکس والا گروپ دوسری سطح کے لبرلز حامیوں کی جگہ پر آ جاتا ہے تو یوں سمجھئے کہ دنیا میں اقتدار کا پلڑا ففٹی ففٹی ہو جائے گا یعنی لبرلز اور ٹریڈیشنل برابر اقتدار کے مالک ہوں گے اور اس کا سیدھا سیدھا مطلب تیسری جنگ عظیم ہے کہ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں، مستقبل کی پیشن گوئی کرنا یقینا احمقانہ فعل ہے لیکن دنیا کے چال چلن بتاتے ہیں کہ ٹریڈیشنل کلب کی فتح کے امکانات زیادہ ہیں کہ کسی بھی خطے کا ایک عام آدمی اپنی جبلت میں روایاتی خاندان اور روایاتی سماج کو زیادہ پسند کرتا ہے، لیکن اس جنگ میں کون کہاں کھڑا ہوگا، کسے کتنا نقصان ہوگا ، جنگ کے بعد کیسے سروائیو کیا جائے گا اور عام آدمی کی زندگی پر کیا اثرات پڑیں گے، یہ ایک ہولناک صورتحال ہے مگر اس سے آنکھ چرانا بھی ممکن نہیں ۔

julia rana solicitors london

یہاں ایک اور گھمبیر مسئلہ بھی سامنے آ سکتا ہے، وہ یہ کہ لبرلز اور ٹریڈیشنل کی اس بڑی جنگ میں جب دنیا کا نظام درہم برہم ہوگا تو یہ ریڈیکل کلب کیلئے ایک سنہری موقع ہوگا کہ وہ آگے کو بڑھیں اور اقتدار میں اپنا حصہ وصول کریں، ریڈیکل کلب یقینا گھوڑے بیچ کر سو نہیں رہا کہ وہ اس موقع سے فائدہ نہ اٹھائے، اور یہ بات لبرلز اور ٹریڈیشنل کلبس کے سامنے بھی ہے کہ اس دھینگا مشتی کی کیا قیمت چکانی پڑے گی، مگر ان کی طرف سے ایسے کوئی شواہد سامنے نہیں آ رہے کہ انہوں نے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کا کوئی سیاسی ڈھانچہ بنا رکھا ہو ۔
آخری اہم بات جس طرف توجہ نہیں دی جا رہی، وہ یہ کہ ریڈیکل کلب کا اصل مخالف لبرل نہیں بلکہ ٹریڈیشنل ہے، ایسا کیوں ہے یہ طویل بحث کسی اور وقت کیلئے اٹھا رکھتے ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply