سرسید کا قیام میرٹھ : بانیٔ اے ایم یو کے ’ انقلابِ عظیم ‘ پر شاندار تحقیق /تعارف و تبصرہ : شکیل رشید

سرسید اکیڈمی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ، پروفیسر شافع قدوائی نے ، مختلف شہروں میں سرسید احمد خاں کے قیام کے بارے میں مونوگرافوں کی اشاعت کے جِس منصوبے پر کام شروع کیا ہے ، ’ سرسید کا قیام میرٹھ ‘ اس کے تحت شائع ہونے والی دوسری کتاب ہے ، جسے معروف صحافی معصوم مرادآبادی نے انتہائی تحقیق کے ساتھ تصنیف کیا ہے ۔ اس کتاب سے پہلے نوجوان محقق اسعد فیصل فاروقی کے مونوگراف ’ سرسید کا قیام بنارس ‘ کا ہم جائزہ لے چکے ہیں ۔ دونوں ہی کتابوں کے مواد اور لکھنے کے انداز میں بڑا فرق ہے ، جو بے سبب نہیں ہے ۔ بنارس کے قیام کے دوران سرسید کو میرٹھ جیسی تکالیف اور مصائب کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا ، پھر وہاں قیام کا دورانیہ بھی کئی سالوں پر محیط تھا اور بہت کچھ علمی ، سماجی ، ثقافتی و رفاہی کام کرنے کے مواقع بھی خوب تھے ۔ میرٹھ میں قیام صرف پانچ مہینے کا تھا ، اور یہ سال ١٨٥٧ء کا تھا ؛ بغاوت ، غدر ، انقلاب یا کہہ لیں آزادی کے لیے پہلی جنگ کا سال ! سرسید کے لیے حالات کس قدر مخدوش اور خوفناک تھے اس کا اندازہ مونوگراف کے ’ پیش لفظ ‘ کے اِس اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے : ’’ جِس وقت انقلاب شروع ہوا تو سرسید بجنور میں صدر و الصدور کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے ۔ اُن کے لیے یہ بڑی کشمکش کا دور تھا ۔ ایک طرف انگریزوں کی وفاداری اور دوسری طرف اپنی قوم کو شدید مشکلات اور تباہی سے بچانا ۔ یہ تلوار کی دھار پر چلنے جیسا کام تھا ۔ اِس دوران بعض انگریزوں کی جان بچانے کی وجہ سے مقامی لوگوں میں اُن کے خلاف غم و غصہ پھوٹ پڑا اور وہ اُن کی جان کے درپہ تھے ۔ شدید خطرہ کے دوران وہ بڑی مشکل سے بجنور سے ہلدور ، چاند پور ، مچولہ اور بچھراؤں ہوتے ہوئے کسی طرح میرٹھ پہنچے ۔ اِسی دوران اُنہیں معلوم ہوا کہ دہلی میں ان کے کئی قریبی رشتے داروں کا قتل ہو چکا ہے اور اُن کی والدہ بڑی ناگفتہ بہ حالت میں گھر کے اندر قید ہیں ۔ وہ کسی طرح دہلی پہنچے اور اپنی بیمار والدہ کو میرٹھ لے آئے ۔ چند روز بعد یہیں ان کا انتقال ہوا اور میرٹھ میں ہی تدفین عمل میں ائی ۔‘‘ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سرسید کے لیے یہ دور کس قدر مصائب اور الم سے بھرا ہوا تھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

معصوم نے مونوگراف کے پہلے باب ’ میرٹھ کا تاریخی پس منظر ‘ میں ؛ ٩ ، مئی ١٨٥٧ء کے دن انقلاب کے آغاز اور اس کے نتائج کا تفصیلی ذکر کیا ہے نیز یہ بھی بتایا ہے کہ انقلاب کے بعد میرٹھ مختلف تحریکوں کا مرکز بنا ۔ یہاں نامور مذہبی ، قومی اور سیاسی شخصیات کے علاوہ علم و ادب کی سربر آوردہ شخصیات نے قدم رنجہ فرمایا ۔ سرسید سے پہلے میرؔ اور غالبؔ تک یہاں آ چکے تھے ۔ کتاب کا دوسرا باب ’ سرسید اور میرٹھ ‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس باب کے ابتدائی صفحات میں سرسید کی حیات کا مختصراً بیان ہے ، جس کی ذیل کی سطروں سے پتا چلتا ہے کہ سرسید کی زندگی میں والدہ کی کتنی اہمیت تھی : ’’ سرسید اپنی والدہ کا کتنا احترام کرتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب تک وہ دہلی میں منصف کے عہدے پر رہے تو اپنی پوری تنخواہ اپنی والدہ کو دے دیا کرتے تھے ۔ وہ پانچ روپیہ مہینہ انہیں جیب خرچ کے لیے دیتی تھیں ۔ سرسید کی باقی ضروریات والدہ کے ذمہ تھیں ۔‘‘ یہی پیاری والدہ میرٹھ میں آسودۂ خاک ہیں ۔ سرسید کا میرٹھ آنا اُن کی زندگی کے رخ کو بدلنے والا ثابت ہوا ۔ معصوم مرادآبادی لکھتے ہیں : ’’ انگریز سرکار کی ملازمت میں سرسید کی زندگی اپنے فرائض کی ادائیگی ، فرض شناسی ، لگن اور ادبی سرگرمیوں تک محدود تھی ، لیکن اِس کی کوئی سمت متعین نہیں تھی ۔ یہ ١٨٥٧ء کی جنگ ہی تھی جس نے اُن کی زندگی میں سب سے بڑی تبدیلی کو جنم دیا اور یہ تبدیلی تھی مقصد کا تعین ۔ یہی وہ دور تھا جب اُن کی شخصیت ایک طرح سے مکمل ہوئی ۔‘‘ مونوگراف کا تیسرا باب اسی موضوع پر ہے ، ’ سرسید اور ۱۸۵۷ء ‘۔ انقلاب شروع ہونے کے بعد سرسید کو یہ پیشکش کی گئی کہ وہ باغیوں کا ساتھ دیں ، سرسید نے انکار کر دیا ، نتیجتاً ان کا سامان لُوٹ کر اُن کے گھر پر قبضہ کر لیا گیا ۔ میرٹھ کے راستے میں دو ہزار باغی انہیں گھیرنے کی تاک میں تھے ، مگر ناکام رہے ۔ جب سرسید میرٹھ پہنچے تو اُن کے جسم پر ایک پھٹا ہوا کرتا اور جیب میں چھ پیسے تھے ۔ میرٹھ والوں نے سرسید کو بڑا سہارا دیا ، اس کا اعتراف انہوں نے یوں کیا ہے : ’’ یہی میرٹھ تھا جِس نے ہم کو اور ہمارے کنبہ کو پناہ دی ۔ جِس قدر بزرگ یہاں کے خاندانی ہیں انہوں نے ہر طرح کی مدارات کرنے سے مجھ پر احسان کیا ۔ یہاں کے تمام بزرگوں نے اُس وقت ہمارے ساتھ برادارانہ محبت برتی ۔ پس آپ صاحبوں نے کل اور آج جو کچھ مہربانی میرے ساتھ کی وہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ میرٹھ سے مجھے بالخصوص ایک اور بھی تعلق ہے کہ میری پیاری ماں اسی میرٹھ میں مدفون ہے ، جس کی یاد کبھی میرے دِل سے نہیں جاتی ۔‘‘
تیسرے باب میں اس حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ سرسید نے غدر کے دوران نہایت جواں مردی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا ۔ اور انقلاب کی تحریک سرسید کے خیالات میں ایک ’ انقلابِ عظیم ‘ پیدا کرنے والا واقعہ بن گیا ۔ سرسید نے انگریزوں کی جانیں بچائیں ، جِس پر اُنہیں ’ حریف ‘ تک کہا گیا ۔ لیکن سرسید نے اپنی قوم کو تنہا چھوڑا نہیں ۔ مراد آباد میں انہوں نے ایک عالمِ دین رئیس مراد آباد مولانا عالم علی کو موت کے منھ سے بچایا ، اُن پر انگریز عورتوں اور بچوں کے قتل کا الزام تھا ، اس کے خوش گوار اثرات مرتب ہوئے ۔ سرسید اپنی قوم کی بربادی اور زبوں حالی سے کافی فکر مند تھے ، اور قوم کے حالات کی بہتری کے لیے متعدد اقدامات کیے ، اُن میں ’ تعلیمی تحریک ‘ بھی شامل ہے ۔ میرٹھ سے بہت سے لوگ اس تحریک میں دامے درمے قدمے سخنے شامل رہے ، اور علی گڑھ کالج کے قیام کو ایک صورت دینے میں سرسید کا ساتھ دیا ۔ چوتھے باب کا عنوان ہے ، ’ میرٹھ میں شناسانِ سرسید ‘ ۔ اس باب میں سرسید کے رفقاء کا تعارف اور ان کی خدمات کا مختصراً مگر جامع ذکر کیا گیا ہے ۔ مونوگراف میں چار ضمیمے بھی شامل ہیں ، جِن میں سے دو میرٹھ میں سرسید کے دیے گیے لیکچر ہیں ، ایک آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی روداد ہے ، اور ایک طلباء کے لیے وضائف کی تجویز کی حمایت میں سرسید کی تقریر ہے ۔ کتابیات اور حواشی بھی مونوگراف کا حصہ ہیں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ کی وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون کا ’ پیغام ‘ بھی شامل ہے ۔ پروفیسر شافع قدوائی مونو گراف میں ’ حرفے چند ‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں : ’’ زیرِ نظر کتاب سرسید کے میرٹھ میں قیام سے متعلق تفصیلات کا بخوبی احاطہ کرتی ہے اور مطالعات سرسید کو ثروت مند بناتی ہے جس کے لیے معصوم مرادآبادی ہدیۂ تبریک کے مستحق ہیں ۔‘‘ یہ کتاب 116 صفحات پر مشتمل ہے اور قیمت 300 روپیے ہے ۔ اسے ای میل ( pub_div@rediffmail.com) پر رابطہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply