آفتاب احمد شاہ کا کلیات جو کوئے ملامت کے نام سے شائع ہوا ہے اپنی نہج میں ایک سوال نامہ ہے۔شعر سے معاملہ کرتے ہوئے انہوں نے ریاست، معاشرتی رویوں اور خانقاہی نظام کو اپنے سوالات کا موضوع بنایا ہے۔
ساحر لدھیانوی نے کہا تھا
لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم
یہی کام آفتاب احمد شاہ نے کیا ہے۔انہوں نے نہ صرف اپنا الگ فکری راستہ ہی نہیں بنایا ہے اس پر چل کر بھی دکھایا ہے۔
اس کلیات کی تعارفی تقریب پھالیہ میں نعیم رضا بھٹی اور حلقہ ارباب ذوق منڈی بہاؤالدین کے جملہ اراکین نے منعقد کی۔اس تقریب کی مہمان خصوصی آفتاب احمد شاہ کی صاحب زادی صائمہ آفتاب تھیں۔وہ ایک منفرد غزل گو کے طور پر متعارف بھی ہوئیں ہیں اور جینوئن طریقے سے خود کو تسلیم بھی کروایا۔ان کے شعر کہنے کا انداز بالکل منفرد ہے اور تازہ تر بھی۔
امجد مرید اور تصور تقوی نے کوئے ملامت میں بیان کیے گئے نکات کی تشریح کی اور فارسی اور پنجابی کلام پر گفتگو کی۔
آفتاب احمد شاہ فرسٹ کامن کے ڈی ایم جی گروپ سے تھے اور ڈھاکہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ان کا ویژن اور ورلڈ ویو روشن خیال معاشرے کے خواب پر معنی تھا۔وہ ریاست کو ایک ایسا ذریعہ سمجھتے تھے جس کے ذریعے عام آدمی کی بھلائی ممکن ہے۔
وہ بائیں بازو کی سیاست کے والہ و شیدا تھے۔مگر ان کے سامنے اس معاشرے موت سے ہمکنار کیا گیا اس کا اظہار ان کے اشعار میں بار بار ہوتا ہے۔
ان کے نزدیک ریاست ایک دستاویز کے تحت اپنے امورِ مملکت سر انجام دیتی ہے اور کوئی ایسا کام کرنے کی مجاز نہیں جس سے فرد کی آزادی اور اس کے حقوق پر زد پڑتی ہو۔اس قانونی دستاویز کو آئین کا تحفظ حاصل ہے۔معاشرتی رویوں کی منافقت اور تضاد اور باہمی عدم اعتماد فرد کے شخصی رویے کو زک پہنچاتا ہے اور سوئم فرسودہ اور از کار رفتہ اخلاقی رسومیات فرد کی ترقی اور ذہنی نشوونما کو روکتی ہے اور معاشرے میں شاہ دولہ کے چوہوں کی پرداخت کرتی ہے۔
آفتاب احمد شاہ کا شعر ”جیون جرم کٹہرہ“ کی عملی تصویر ہے۔آفتاب احمد شاہ کے شعر کا تعلق اس روایتی ترقی پسندی سے نہیں اس کی اپنی فکری اپج کا نتیجہ ہے۔اس کی غزل روایتی ترقی پسندی کی روایت سے جدا ہے کہ اس کے پسندیدہ شعرا منیر نیازی اور ظفر اقبال بھی اس روایتی فکر سے بہت دور کھڑے ہیں۔
اردو غزل میں بغاوت کا مفہوم سادہ نہیں بہت پیچیدہ ہے۔یہ بغاوت فکر اور اسلوب دونوں سطح پر دیکھی جا سکتی ہے۔
غزل میں پہلا انحراف یا فکری تبدیلی اس وقت رونما ہوئی جب یہ سمجھ لیا کہ ادب خارجی حالات اور مادی دنیا سے الگ نہیں رکھا جا سکتا اور ادب بے مقصد ہر گز ہو ہی نہیں سکتا۔مگر کیا محض روٹی کمانا ہی ہمارا مقصد ِحیات ہو سکتا ہے؟۔اس کا جواب مجنوں گھورکھ پوری اپنے مضامین کے مجموعے ارمغان مجنوں میں لکھتے ہیں ” روٹی کا پیغمبر مارکس ایک جگہ لکھتا ہے ایک انشا پرداز کو زندہ رہنے اور اپنے کو لکھنے کے قابل بنائے رکھنے کے لیے یقیناً روٹی کمانا ہے لیکن صرف روٹی کمانے کے لیے زندہ رہنا اور لکھنا نہیں چاہیے”۔یہ تحریر آفتاب احمد شاہ نے ضرور پڑھی ہو گی تب ہی وہ اس پر زندگی بھر عمل پیرا رہا۔
آفتاب احمد شاہ کی پہچان بلند آہنگ لہجہ ہے۔اس کا کسی دربار سے واسطہ تو کیا دور کا تعلق بھی نہیں تھا۔
اس کا مسلک جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے اور اس فرض کی اداٸیگی اس نے جس طرح کی اس کی اردو ادب میں کوٸی مثال نہیں۔یہ کہنا کہ اس کی کوٸی مثال نہیں رسمی نہیں واقعتاً اس نے جو کہا اس کی لاج رکھی اپنے کہے کا پہرہ دیااور جس طرح ان نظریات کی اس نے قیمت جو چکاٸی وہ سب کے سامنے ہے۔
آفتاب احمد شاہ شعری سفر کم و بیش پچاس سالوں پر محیط ہے۔ اس دوران اس پر کسی قسم کی فکری کہولت کے آثار نظر نہیں آتے۔ اس کی بھی بنیادی وجہ اس کو اپنے آپ سے اور اپنے لفظ سے ازلی کمٹمنٹ ہے۔
اس کا تصور ِ شعر مساوات، طبقات کی باہمی آویزش اور کلمہ حق کی شہادت سے اٹھا ہے۔حسین کی شہادت اور اس کا فلسفہ اس کے اشعار کے بطون میں جا بجا نظر آتا ہے۔
اس کے شعری مجموعوں کے نام فرد جرم، تعزیر اور کوٸے ملامت بھی اس کے فکری رخ کی گواہی ہیں۔ وہ اسی فکر سے جڑا رہا جس کا تمام عمر وہ داعی رہا ہے۔ملک عزیز پر جن طالع آزماٶں نے نے قوم کو فکری طور پر بانجھ کیا وہ ایک طویل اور اکتا اور تھکا دینے والا مارشل لا تھا۔جس نے معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا سوچ کو محدود اور عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ کیا۔وہ ایسے کہ عام آدمی اس کی کسی ترجیح میں شامل ہی نہ تھا۔یہ عہد حکومت ایک خاص محدود سوچ پر مبنی اور استعماری طاقتوں کا پروردہ تھا۔بے گناہی کی سزا ہی اس عہد کا طرہ امتیاز تھا۔آفتاب احمد شاہ کی کلیات کا پہلا شعر ہی اس کا شاعری کا بنیادی حوالہ قرار دیا جا سکتا ہے
کہیں ترا بھی سر ِ دار احتساب نہ ہو
تو اپنے آپ میں یوں چھپ کہ دستیاب نہ ہو
ہاتھ اپنا یوں کرے گا وہ کشادہ اس برس
بانٹ کر تھوڑا سمیٹے گا زیادہ اس برس
یہ کیسی بے خودی میں چل رہے ہیں اہل صحرا
یہ کیسے خشک دریا پہ سفینہ بہہ رہا ہے
آفتاب احمد شاہ اردو غزل کے اہم ترین شاعر ہیں مگر ان کو وہ جائز مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق ہیں۔ آفتاب احمد شاہ کی فہمِ بغاوت اس خواب پر مبنی ہے جہاں ایک پروگریسو معاشرہ ہو عام آدمی کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں جو اسے ملک کا آئین دیتا ہے۔جس میں کسی فرد کا ذہنی اور جسمانی استحصال نہ ہو کہ اسی استحصال کا وہ خود اور پورا معاشرہ شکار ہوا تھا۔اگر ان کی زندگی کو کسی ایک شعر میں بیان کرنے کا کہا جائے تو میں بلاتامل حضرت اقبال کا یہ شعر پڑھوں گا
یہ مال و دولت ِدنیا یہ رشتہ و پیوند
بتان وہم و گماں لا الہ الا اللہ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں