History of the Peloponnesian War
تھیوسی ڈائیڈز (پانچویں صدی قبل مسیح)
ہیروڈوٹس کو بابائے تاریخ ، قرارد بینا مشکل ہے: وہ ایسی بہت سی چیزوں میں بھی دلچسپی رکھتا تھا جو تاریخ کے دائرہ کار میں نہیں آتیں۔ ہیروڈوٹس کو بابائے تاریخ قرار نہ دینا ادبی حوالے سے اس کے اور ہمارے لیے مفید ہے۔ لیکن اس کے تقریباً 20 برس بعد پیدا ہونے والے تھیوسی ڈائیڈ زکو زیادہ مضبوط بنیادوں پر بابائے تاریخ قرار دیا جا سکتا ہے ۔ وہ واضح طور پر طریقہ کار اور وضاحت میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اس نے تاریخ کے میدان میں اپنے عظیم پیشرو کو دعوت مبارزت دی ۔
ہیروڈوٹس نے یونان اور فارس کی طویل جنگ کو اپنا موضوع بنایا۔ یہ جنگ کالیاس (Callias) کے مقام پر معاہدہ امن کے ساتھ 448 قبل مسیح میں ختم ہوئی ۔ لیکن کم از کم 478 ق م کے بعد سے سپارٹا اور ایتھنز کے درمیان شدید دشمنی موجود تھی جس کی بڑی وجہ ایتھنز میں ڈیلیائی لیگ کی بڑھتی ہوئی آمرانہ قیادت تھی ۔ یہ لیگ اصل میں اہل فارس کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ بعد میں جمہوری یونان نے اپنے تمام اتحادیوں ، بالخصوص سپارٹا کی آزادی کو سلب کرنا چاہا جبکہ سپارٹا کی عسکریت پسند ڈکٹیٹر شپ حق خود اختیاری کی چیمپئن بن گئی ۔
460 ق م میں اہل ایتھنز دراصل تجارت کی وجہ سے کورنتھ اور پیلوپونیشے کی دیگر ریاستوں کے ساتھ جنگ آزما ہوئے ۔ ان ریاستوں میں ایجینا (Aegina) ریاست بھی شامل تھی جس کو محاصرے میں لے کر 457 میں فتح کر لیا گیا ۔ اس موقع پر سپارٹا نے اپنے پرانے اتحادی کے خلاف ہتھیار اٹھائے اور تھیبسس کے نزدیک تناگرا کے مقام پر ایک ایتھنی فوج کو شکست دی۔ لیکن پیریکلیز کی زیر قیادت ایتھنز مزید چند برسوں تک مسلسل کامیابی حاصل کرتا رہا۔
446 ق م میں سپارٹا اور دیگر ریاستوں نے ایتھنز کو پیچھے دھکیلا ۔ پیریکلیز نے دیکھا کہ ایتھنز کو جارحانہ پالیسیاں ترک کر کے ایک طاقتور فوج اور بحریہ والا منضبط تجارتی ملک بننا چاہیے ۔ اس نے ایتھنز اور اس کی بندرگاہ پائریٹس کے درمیان طویل دفاعی دیوار میں تعمیر کیں ۔ اس نے 445 ق م میں تیسں سالہ معاہدہ امن کیا۔ یوں پہلی پیلو پونیشیائی جنگ ختم ہو گئی ۔ معاہدہ امن بس ایک عشرے تک ہی چل سکا۔ دو ریاستوں کے درمیان جھگڑے میں ایتھنز کی مداخلت کے بعد 432 میں سپارٹا نے اعلان جنگ کر دیا ۔ اس نے ایتھنز کی جانب سے تیس سالہ معاہدہ امن کی خلاف ورزی کو وجہ بنایا ۔ یوں دوسری پیلو پونیشیائی جنگ شروع ہوئی جو تھیوسی ڈائیڈز کا موضوع ہے۔
تھیوسی ڈائیڈ ز 460 اور 465 کے درمیان تھریسی نسل کے ایک اعلی گھرانے میں پیدا ہوا۔ غالباً وہ ایتھنی جرنیل ملتیا دیس (550) تا489 ق م ، جس نے میراتھن کے مقام پر اہل فارس کو شکست دی تھی ) کے بیٹے سیمون (Cimon) کا رشتہ دار تھا۔ تھیوسی ڈائیڈز ایتھنز میں 429 کی وبا ( طاعون ) کا شکار ہوا مگر اس کی جان بچ گئی۔ وہ پیریکلیز کی غرض (Cause) کا ایک نوجوان حامی تھا۔
424 میں تھیوسی ڈائیڈز بھی دیگر نو افراد کی طرح جنرل منتخب ہوا۔ اسے شمالی بیڑے کی کمانڈ سونپی گئی ( امیرالبحر یعنی ایڈمرل ) اسی برس وہ اہم مقدونیائی شہر ایمفی پولس کو سپارٹائی براسیداس (Brasidas) کے قبضے میں جانے سے بچانے میں نا کام ہوا۔ تھیوسی ڈائیڈز اپنی تاریخ کی کتاب چہارم میں اس سارے معاملے کو تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ وہ براسیداس کی اعتدال پسندی اور نرم مزاجی کا معترف ہے۔ لیکن یہ اس کے جنگی کیریئر کا خاتمہ تھا۔ اسے گھر واپس بھیج کر مقدمہ چلایا گیا اور ناکامی کی پاداش میں ایتھنز سے 20 سال کے لیے جلا وطن کر دیا گیا ۔ وہ کتاب چہارم میں نہایت سچے انداز میں بتاتا ہے :
اس دور کی تاریخ ایتھنز کے تھیوسی ڈائیڈز نے بھی گرما اور سرما کے واقعات کی زمانی ترتیب میں لکھی ہے ۔ اس وقت سے لے کر جب لیسیڈ یمونیوں اور ان کے حلیفوں نے سلطنت ایتھنز کا خاتمہ کیا اور طویل دیواروں اور پائریٹس پر قبضہ کر لیا۔ یقیناً مجھے جنگ کے آغاز سے لے کر اختتام تک سب یاد ہے … میں نے یہ سارے واقعات خود دیکھے اور ان کی سچائی جاننے کے لیے پوری توجہ دی۔ ایمفی پولس میں فوج کی قیادت کرنے کے بعد 20 سال کے لیے اپنے علاقے سے جلا وطن ہونا میرا مقدر تھا (اس نے ان بیس برس کے دوران طویل سفر کیے اور آخر کا را تیتھنز واپس آنے کے بعد چند سال ہی زندہ رہ سکا ) ۔ دونوں فریقین میں اور بالخصوص اپنی جلا وطنی کے باعث پیلوپونیشیوں کے درمیان موجود رہنے کے باعث میں معاملات کا مشاہدہ کچھ زیادہ باریک بینی کے ساتھ کرنے کے قابل ہوا ۔
اس اقتباس میں ایک مورخ کے طور پر تھیوسی ڈائیڈزکا نرالا طریقہ کار واضح ہوتا ہے ۔ وہ خود کو معاصرانہ واقعات کے سچے محرر کے طور پر بیان کرتا ہے۔ وہ یہ بھی زور دیتا ہے کہ اس نے شعوری طور پر معاملات کا مشاہدہ کیا۔ وہ ہیروڈوٹس کے خلاف میدان میں اترتے ہوئے یہ ثابت کرنے کا مظاہرہ کرتا ہے کہ پیلوپونیشیائی جنگ فارس کے ساتھ جنگ سے زیادہ اہم تھی ۔ کم از کم اس لحاظ سے اس کا کہنا بجا تھا کہ اس جنگ نے یونانی تہذیب کے خاتمے کی صورت پیدا کر دی۔ ریاستوں کا ایک نیٹ ورک ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنے میں ناکام رہا اور انجام کار تباہی سے دوچار ہوا۔ بلا شبہ اپنی جلا وطنی کے احساس نے بھی تھیوسی ڈائیڈز کی معروضیت کو تیکھا پن عطا کیا: وہ کوئی برا سپہ سالار نہیں تھا ، اور اس کی ناکامی میں لا پروائی سے زیادہ بد قسمتی کا عمل دخل تھا۔ چاہے اس کی جلا وطنی منصفانہ تھی یا غیر منصفانہ، بہر حال اس کے نتیجہ میں ایک فن تاریخ معرض وجود میں آیا۔
مخصوص حوالوں سے تھیوسی ڈائیڈز میکیا ویلی کا نقیب اور پیش رو ہے۔ اس کی تحریر کا ایک تاریک پیغام یہ ہے کہ انسان ہمیشہ نیکی کی بجائے مصلحت کی راہ اختیار کرتے ہیں ۔ یہ بات اس امر کے پیش نظر مایوس کن ہے کہ اچھائی کی تبلیغ کرنے والا افلاطون ایتھنی وبا پھیلنے کے چند سال بعد پیدا ہوا تھا۔ یہ بات اور بھی زیادہ مایوس کن ہے کہ میکیا ویلی کی پیدائش عیسی مسیح کے 1,469 برس بعد ہوئی جنہوں نے تشدد کو مسترد کیا۔ لیکن بچوں کو سکول میں اس بات کی تعلیم نہیں دی جاتی ۔
تھیوسی ڈائیڈز کی نشر گنجلک، واقعات کا بیان قابل تعریف طور پر تیز ، کردار نگاری با مقصد ہے۔ وہ اپنے سے کافی بعد کے پلو ٹارک کی نسبت کردار کی کہیں زیادہ بہتر فراست رکھتا ہے۔ ہیروڈوٹس کے ساتھ رقابت کے باعث اس نے فارسی اثر کی اہمیت کو گھٹا کر بیان کیا ، اور اکثر مواقع پر اس کی رائے دیگر تمام مورخین کی طرح ناقص ہے۔ لیکن مجموعی طور پر وہ حیرت انگیز حد تک درست بیانی سے کام لیتا ہے۔ تھیوسی ڈائیڈز پہلا ایسا مورخ تھا جس نے تاریخ کو پڑھنے. نہ کہ سنانے کے لیے لکھا۔ اس کا مقصد قارئین کو آئندہ انسانی طرز عمل کے متعلق ہدایات دینا تھا۔ وہ میکیا ویلی کی طرح حقیقت کا ملول اور افسردہ پہلو پیش نہیں کرتا۔
تھیوسی ڈائیڈز نے ہومر کے انداز میں جو تقاریر شامل کیں ان کی درستی پر بہت بحث مباحثہ ہوا، کیونکہ وہ تسلیم کرتا ہے کہ اس کا حافظہ کمزور ہے اور صرف تخیل سے ہی کام لینا پڑ رہا ہے۔ اس نے واقعات کے درست بیان کی خاطر تخیل کے استعمال سے گریز بھی کرنا چاہا۔ یقیناً اس نے شعوری طور پر نوٹس لیے یا راویوں کے بیانات سے ، مگر ساتھ ہی ساتھ اپنے مواد کو ڈرامائی رنگ بھی دیا۔ اس معاملے میں وہ ماہر اور کامیاب رہا۔ کچھ واقعات کو اس نے شاندار طریقے سے پیش کیا ہے۔ المیہ فن اور حقیقت نگاری کو خوبصورتی کے ساتھ ملانے کے باعث وہ ہیروڈوٹس کا ہم پلہ ہے اور اس کی تحریر نے تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔ زیادہ تر لوگ ایمفی پولس کی شکست کا الزام تھیوی ڈائیڈز کی بجائے ایتھنیوں کو دیتے ہیں ۔ بہر حال یہ ایک نا کامی تھی جو تاریخ کے لیے نہایت سود مند ثابت ہوئی ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں