سو ٹکے کے سوال اور ملک احمد خان/ڈاکٹر سعدیہ بشیر

بات صرف ڈاکٹر، استاد، سرکاری ملازم یا عام عوام کی نہیں ہے۔بات ہے اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کی۔ اس سوال کی جو کم زور کی طرف سے بھیجا تو جا سکتا ہے لیکن اسے وصولنے کی کہیں اجازت نہیں۔ یہ سوال وہ خط بن چکے ہیں، جن کا جواب کبھی نہیں ملتا۔ لیکن سوال کی گٹھڑی کھولنے پہ ہزار قدغن ملتی ہے۔ جہاں سوال اٹھانے والوں کے مائیک بند کر دیے جاتے ہوں۔جہاں ہر طرف سوال کی خندق کھودی جاتی ہو اور اسے پاٹنے کے لیے جواب کی کمک راستہ بھٹکانے پر مامور ہو۔ جہاں گروہان فضیلت سوال کی ہر سیڑھی پر تماشا کا اہتمام کرتے ہوں۔ جہاں لوگ جوق در جوق تماشا دیکھنے میں مگن رہیں اور مداری اگلے زینہ پر قدم رنجہ فرماتے جاتے ہوں۔جہاں اونچائی پر موجود منبر کو خطرہ سے بچانے کے لیے سوالات کی فوج کو زمین پر ہی رکھا جاتا ہو۔جہاں سوال کو عمومی طور پر بے ادب تصور کیا جاتا ہو اور اسے راہ راست پر لانے کے لیے کبھی حوروں کا تصوراتی جلوہ بکھیرا جاتا ہو اور کبھی خود ساختہ کہانیوں کی طویل و عریض سیریز شروع کی جاتی رہے۔ ایسی کہانیاں جو زمین کا گز تو ہیں لیکن اس گز سے زمینی مسائل ماپنا آسان نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپا دھاپی کے اس دور میں سوالات کی نسل تربیت سے قطعی عاری ہے۔ سوالات کو جو زمین چاہیے تھی وہ ہنوز بنجر ہے اور اسے بنجر رکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ فصل جہاں اگ رہی ہے،وہاں سوال کا گزر ممنوع ہے۔ایسے عالم میں وہ لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں جو سوال کو صرف منطق اور فلسفہ نہیں سمجھتے بلکہ ریاضی کے سوالات کی طرح رف عمل اور حل شدہ جواب کا تقاضا کرتے ہیں، جو خود سے بھی سوال کرتے ہیں اور اس سوال سے منسلک مضمرات کو عوام کے سامنے رکھ کر سوالات کی گٹھڑی کھولنے کی سعی بھی کرتے ہیں۔ہماری پارلیمنٹ کی مچھلی منڈی میں جہاں صرف تقاریر کی لفاظی اور جوش خطابت کو کافی سمجھا جاتا ہے۔محترم سپیکر ملک احمد خان جیسے دانش مند غنیمت سے زیادہ نعمت ہیں۔جن کے سوالات اپنے جلو میں جوابات کی کمک لیے آتے ہیں۔ کزن میرج پر بات کرتے ہیں تو اس سے منسلک نتائج و عواقب پر بھی روشنی ڈالتے اور حل تجویز کرتے ہیں کہ کیونکر سانحات جنم لیتے ہیں۔ اس کا جواب ملک احمد خان نے کان اور آنکھیں بند کیے سماج پر چھوڑ دیا ہے جہاں تحقیق کو گمراہی کا نام دے کر اپنی ماندہ روش جاری رکھی جاتی ہے۔ملک احمد خان کی گفتگو سن کر اطمینان ہوتا ہے کہ صرف عوامی نہیں،فلاحی ترجمان اسمبلی میں موجود ہیں جو حقیقی مسائل کا ادراک رکھتے ہیں۔ جن کا موٹو ہے کہ ہر بحث کا لب لباب الزام تراشی نہیں ہونا چاہیے۔ہمیں شفافیت اور ہم آہنگی کے لیے ایک نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے۔اور مسائل پر بات کرنے کے لیے قوت برداشت کی ضرورت ہے۔ مکالمہ اور بین الثقافتی کانفرنسز کی ضرورت ہے۔جس کے ذریعہ حقیقی آزادی کی نہیں، حقیقی شعور کی کوشش کی جانا چاہیے۔پانی کی کمی پر بات کرتے ہوئے ملک احمد خان نے اراکین اسمبلی کو سیاسی پارٹیاں بننے کی بجائے قوم کے لیڈر بننے کی صلاح دی۔کہ آپسی لڑائیوں کا انجام کھیت کی تباہی ہے۔ انھوں نے کہا آپ اپنی سیاسی لڑائیوں میں پڑے رہیں۔پندرہ سال بعد آپ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہوں گے۔جہاں پانی ہونا چاہیے تھا وہاں کی زمین شوگر ملز کو دے دی ہے۔نتیجتاً قدرتی وسائل برباد ہو کر رہ گئے ہیں۔ پنجاب کو پانی کا لیول دیکھ کر نیند اڑ جانا چاہیے۔یہ نتیجہ بھی سامنے رکھا کہ پانی کی کمی میں ہائیبرڈ بیجوں کا بھی کردار ہے۔ہائیبرڈ چاول کے ایک کلو پہ تین ہزار لیٹر پانی خرچ ہوتا ہے۔ملک احمد خان کہتے ہیں کہ معیشت کے لیے صنعت کاری بہت اہم ہے لیکن زراعت اور زرعی وسائل کی حفاظت کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔اس لیے ملک سے نفرت اور انتشار کی سیاست کو ختم کر کے مسائل کے حل کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔اس کے لیے انھیں میڈیا اراکین کے درد اور مشکلات کا بھی احساس ہے اور وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پنجاب ایجوکیشن انیشی ایٹو مینجمنٹ اتھارٹی (پیما) کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر چوہدری بشیر احمد کا تعلق بھی قصور سے ہے۔وہ ملک احمد خان کو طویل عرصہ سے جانتے ہیں۔ملک احمد خان کے بارے میں انھوں نے کہا، ” ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے۔” انھوں نے ملک احمد خان کو اپنے علاقہ کے لیے رحمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ آنے والے کارواں کے رہنما ہیں۔

بشیر صاحب نے کہا کہ ملک احمد خان وہ سیاست دان ہیں جن کی جڑیں اپنی زمین سے منسلک ہیں اور وہ انھیں شروع سے ہی نہ صرف اپنے علاقہ، بلکہ پاکستان کے لیے بہترین رہنما مانتے ہیں۔ کیونکہ ان کی نظر مسائل کے بجائے وسائل کو بروئے کار لانے پر ہوتی ہے۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر (پیما)بشیر احمد نے بتایا کہ تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے ملک احمد خان نے قصور یونیورسٹی کے قیام کا خاکہ پیش کر دیا ہے۔امید واثق ہے کہ جلد قصور کی سرزمین پریونیورسٹی قائم ہو جائے گی۔معیشت کی مضبوطی کے لیے ملک احمد خان کی ذاتی دلچسپی اور کوششوں سے براستہ لاہور بہاولپور موٹر وے کی منظوری بھی ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ ملک احمد خان قصور سے ملحقہ تمام ذیلی سڑکوں کو بھی کارپٹ کروا رہے ہیں۔ بشیر صاحب کہتے ہیں کہ ملک احمد خان ناصرف اپنے حلقے بلکہ ضلع قصور کے لیے کسی رحمت سے کم نہیں۔جن کی نظر رستے کی کجی پر نہیں منزل کی روشنی پر ہوتی ہے۔ جناب سپیکر ایک نظر اساتذہ کے حال پر بھی۔ہم آپ کے منتظر ہیں۔ کچھ نے تاروں کو رہنما جانا، کچھ نے تاروں کی رہنمائی کی۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply