تعلیم، جنسی ہراسانی اور ہمارا معاشرہ/ نصیب باچا یوسفزئی

ملاکنڈ یونیورسٹی میں پیش آنے والا حالیہ واقعہ نہ صرف ایک فرد یا ادارے کی کوتاہی کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ یہ ہمارے تعلیمی نظام، سماجی ڈھانچے، اور قانونی کمزوریوں کا آئینہ دار ہے۔ یہ واقعہ ہمارے معاشرے کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہراسانی جیسے مسائل کسی ایک طبقے یا جنس تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے جس کا حل سماجی، تعلیمی، اور قانونی سطح پر ہی ممکن ہے۔ جیسا کہ فیض احمد فیض نے کہا تھا:
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکتا ہے تو جم جاتا ہے

ذرائع کے مطابق، ملاکنڈ یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے اپنے پروفیسر پر ہراسانی کا الزام عائد کیا ہے۔ طالبہ کے مطابق، پروفیسر نے اسے مسلسل ہراساں کیا اور بالآخر وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ اس کے گھر رشتہ مانگنے پہنچ گیا۔ اس کے بعد جھگڑا ہوا اور معاملہ مزید سنگین ہو گیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے پروفیسر کو معطل کر دیا اور ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے جو اس معاملے کی مکمل چھان بین کرے گی۔ تاہم، ایک افسوسناک پہلو ایک ویڈیو میں یہ بھی سامنے آیا کہ واقعے کے بعد ملزم کو مار پیٹ کر زخمی کر دیا گیا۔ یہ رویہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے، کیونکہ قانون کو ہاتھ میں لینا ایک خطرناک رجحان ہے جو معاشرے میں مزید مسائل کو جنم دیتا ہے۔

اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردعمل دیکھنے کو ملا۔ کچھ حلقے طالبہ کے حق میں کھڑے ہوئے اور پروفیسر کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا، جبکہ کچھ افراد نے زور دیا کہ معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیق ضروری ہے تاکہ کسی پر غلط الزام نہ لگایا جائے۔ ایسے حساس معاملات میں سوشل میڈیا پر جذباتی ردعمل کی بجائے قانونی طریقہ کار اپنانا زیادہ ضروری ہے تاکہ انصاف یقینی بنایا جا سکے۔

یہ واقعہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ہراسانی کے بڑھتے ہوئے مسائل کو واضح کرتا ہے۔ اس کے پیچھے کئی وجوہات ہیں، جن میں ایک بڑی وجہ والدین کی جانب سے بچوں کی صحیح تربیت اور ان پر نظر نہ رکھنا بھی شامل ہے۔ اگر والدین میں سے ایک اتنا سخت ہو کہ بچوں میں حدود کا احساس پیدا ہو، اور دوسرا اتنا زیادہ دوستانہ رویہ رکھے کہ بچے بلا جھجک اپنے مسائل اور جذبات شیئر کر سکیں، تو شاید ایسے مسائل کم ہو جائیں۔ ہمارے معاشرتی نظام میں والدین کا کردار انتہائی اہم ہے، لیکن بدقسمتی سے اکثر والدین یا تو حد سے زیادہ سخت ہو جاتے ہیں یا پھر بچوں کو مکمل طور پر آزاد چھوڑ دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔

ہراسانی جیسے مسائل کا ایک اور بڑا پہلو ہمارے معاشرتی اور مذہبی رویے بھی ہیں۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل کیے بغیر ہم صرف روایتی مذہبی سوچ میں الجھے ہوئے ہیں۔ فرقہ واریت سے نکل کر جدید تناظر میں اسلامی احکامات کی تشریح ضروری ہے تاکہ ہم اپنے معاشرے کو ایک متوازن اور محفوظ جگہ بنا سکیں۔ شاید یہ بات کچھ لوگوں کو ناگوار گزرے، لیکن اگر ہم سید ابوالاعلیٰ مودودی جیسے مفکرین کے افکار کو پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ ان پر ابتدا میں سخت تنقید کی گئی، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ ان کی فہم اور بصیرت کو تسلیم کرنے لگے۔ یہی معاملہ آج بھی درپیش ہے کہ ہم اپنی روایات پر سوال اٹھانے اور انہیں نئے زاویے سے دیکھنے سے گھبراتے ہیں۔

اگرچہ یہ واقعہ افسوسناک ہے، لیکن اس سے زیادہ پریشان کن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات کے بعد اکثر والدین اپنی بیٹیوں کو تعلیمی اداروں سے نکال لیتے ہیں، جو کہ ایک انتہائی غلط رویہ ہے۔ کسی ایک واقعے کی بنیاد پر خواتین کی تعلیم روک دینا پورے معاشرے کو علمی اور معاشرتی پسماندگی کی طرف لے جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خواتین کی تعلیم مردوں سے بھی زیادہ ضروری ہے، کیونکہ ایک تعلیم یافتہ عورت پورے خاندان کو تعلیم یافتہ بنا سکتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت اور حفاظت پر توجہ دیں، لیکن ان کی تعلیم کا راستہ نہ روکیں۔جیسا کہ نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا:
“عورت کو تعلیم دو، کیونکہ ایک تعلیم یافتہ عورت پورے خاندان کو تعلیم یافتہ بنا سکتی ہے”

مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں ہراسانی کے خلاف سخت قوانین نافذ کیے جائیں۔ ہر یونیورسٹی میں اینٹی ہراسمینٹ کمیٹیوں کو فعال کیا جائے، جن میں طلبہ و طالبات کی بھی نمائندگی ہو تاکہ وہ براہ راست اپنی شکایات پیش کر سکیں۔ اساتذہ کے لیے اخلاقی اور پیشہ ورانہ تربیت کو لازمی بنایا جائے تاکہ وہ اپنی حدود سے واقف رہیں۔ طلبہ کے لیے بھی ایک ایسا نظام وضع کیا جائے جہاں وہ بلا خوف و خطر اپنے مسائل یونیورسٹی انتظامیہ تک پہنچا سکیں۔

یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے معاملات پر سوشل میڈیا کے بجائے قانونی ذرائع اختیار کیے جائیں تاکہ ہر فریق کو انصاف مل سکے۔ قانون کو ہاتھ میں لینا ایک خطرناک رجحان ہے، جو معاشرے میں مزید انتشار پیدا کرتا ہے۔ کسی پر الزام لگتے ہی اسے سزا دینے کی بجائے، مکمل اور غیر جانبدار تحقیقات ضروری ہیں تاکہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔

آخر میں، ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسے مسائل کسی ایک فرد یا ادارے کی نہیں بلکہ پوری سماجی اور خاندانی تربیت کی خرابی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں کچھ بنیادی چیزیں رکھی ہیں، جن سے ہم انکار نہیں کر سکتے۔ ان مسائل کو نظر انداز کرنے یا خواتین کی تعلیم پر قدغن لگانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ مزید پیچیدہ ہو جائیں گے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی سوچ کو وسیع کریں اور معاشرے کو مثبت سمت میں لے جانے کے لیے اجتماعی کوشش کریں۔ اگر والدین اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھائیں، بچوں کی اخلاقی تربیت پر توجہ دیں اور تعلیمی ادارے ایک محفوظ ماحول فراہم کریں، تو یقیناً ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply