خالق کائنات نے اپنے حبیب پر پہلی وحی کا نزول لفظ *اقراء* سے فرماء کر، رہتی دنیا تک یہ پیغام دیا کہ علم کائنات میں افضل ترین حیثیت کا حامل ہے، علم کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے کیا جا سکتا ہے کہ، “علم نور ہے” , جس کا وصف تاریکیوں کو منور کرکے راہنمائی و راہبری کرنا ہے، قرآن کریم فرقان حمید سورۃ الزمر آیت نمبر 9 میں پروردگار عالم کا فرمان ہے کہ، کیا جاہل اور عالم برابر ہیں ہر گز نہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ، علم کی عطاء کردہ آگہی و شعور انسان کو دیگر لوگوں سے ممتاز کرتی ہے، اسے مدبر اور قابل بناتی ہے،

علم کی اہمیت کو ایک تحریر میں قلمبند کرنا ناممکن ہے، علم کے اوصاف میں سب سے شاندار وصف یہ ہے کہ، علم انسان کو انسان بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، اسے اچھے برے کی تمیز کرنے کی قوت بخشتا ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ، علم انسان کو احترام آدمیت عطاء کرتا ہے، لوگوں کے مابین ہر طرح امتیاز اور طبقاتی تقسیم کی نفی کرتا ہے، کیونکہ جو علم انسانوں میں کسی طرح بھی تقسیم یا امتیاز کا باعث بنے وہ رحمان کے عطاء کردہ علم کا ترجمان ہر گز نہیں ہو سکتا، کیونکہ رحمان اپنی مخلوق کے مابین محبت اور ایثار کا خواہاں ہے،
ارض پاک پاکستان، میں ویسے تو کثیر جہتی طبقاتی نظام موجود ہیں، مگر یہاں پر موجود نظام تعلیم از خود طبقاتی تقسیم کا باعث ہے، آج کے اس مہنگائی کے مشکل ترین دور میں ،تعلیمی اخراجات اور غربت کی دو طرفہ جنگ میں ایک معصوم اور قابل طالبعلم بستہ چھوڑ کر چھابڑی لگانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔کئی ایک قابل بچے میڑک کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہتے ہیں ۔ کئی قابل طلباء اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے پہلے ہی کسی مکینک کی دکان کا حصہ بن جاتے ہیں۔ غریب خاندان تعلیمی اخراجات نہ اٹھانے کی وجہ سے اپنے خوابوں کی تعبیر نہیں دیکھ پاتے،کئی غریب والدین اپنے بچوں کو اعلی منصب پر فائز دیکھنے کی چاہ میں زندگی کے نام پہ سزا کاٹتے ہیں، ہمارے معاشرے میں کئی ایسے بوڑھے باپ ہیں جو اپنے بیٹے کی تعلیم کے لئے دن کی مشقت کے بعد رات بھر چوکیداری کرتے ہیں، کئی مائیں جھاڑو پوچھا کر تی ہیں تاکہ ان کی بیٹیوں کو مستقبل میں یہ سب کچھ نہ کرنا پڑے! کیا مثالی تعلیم کا حصول اتنا دشوار ہو جانا ستم ظریفی نہیں؟ کیا تعلیم کے حصول کی جنگ بھی لڑنی پڑے گی؟ کیاہمارے ہاں اب تعلیم کی بھی تقسیم ہوچکی ہے؟ اعلی تعلیم، مناسب تعلیم، موزوں تعلیم، برائے نام تعلیم، امیروں کی تعلیم ، غریبوں کی تعلیم، سرکاری اسکولوں کی تعلیم، پرائیویٹ اسکولوں کی تعلیم، مہنگی تعلیم ، سستی تعلیم۔۔۔ ایسا ہی تو ہے۔، ہمارے معاشرے میں ایسا ہی تو چل رہا ہے۔! تعلیم کسی بھی معاشرے کی وہ بنیادی اکائی ہے جس پہ کامیابیوں کے تسلسل کا انحصار رہتا ہے ۔ ہمارے معاشرے میںتعلیم کے فقدان کا المیہ تو ہے ہی لیکن مساوی تعلیم کا عدم وجود اس سے بھی بڑا المیہ ہے۔ اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو متعدد اسکول نظر آتے ہیں جن کا نصاب ، سلسلہ ء تعلیم، اور امتحانات کا طریقہ کار اپنے اپنے متعین نظام کے تحت کار فرما ہے۔ اے لیول، او لیول،میٹرک سسٹم،صوبائی اور فیڈرل بورڈز سمیت کئی ایک الگ صنف اور اقسام کے تعلیمی سلسلے ہیں جنھیں سمجھنا ایک عام فرد کے بس کی بات نہیں ہے۔بحیثیت قوم ہماری اشتراکیت کا سب سے زیادہ حق‘ تعلیم اور نظام تعلیم کو درکار ہے۔ سرکاری اسکول اور اس کے طلباء ایک الگ قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں جن کا کوئی نہ تو پرسانِ حال ہوتا ہے اور نہ ہی معاشرے میں سرکاری اسکول کے نظام تعلیم پر کوئی فرد اظہار اطمینان لئے بیٹھا ہے۔اس طرح جب ایک نسل اپنی بنیادی تعلیم کی تکمیل کے بعد معاشرے ثانوی اداروں میں جاتی ہے تو یہ تقسیم بڑھتی چلی جاتی ہے اور عملی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی کئی طبقات وجود میں آچکے ہوتے ہیں،
پاکستان کے نظام تعلیم میں گورنمنٹ سیکٹر کے ساتھ ساتھ، پرائیویٹ سیکٹر کی خدمات کو بھی کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، لیکن ان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ، یہ طبقاتی تقسیم کو بڑھاوا دینے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں، یہاں بات اگر پرائیویٹ سائنس اکیڈمیوں کے حوالے سے کی جائے تو بے شک یہ محض ایک کاروبار کے علاؤہ کچھ نہیں ہے، اس دور کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر طبقہ اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا خواہاں ہے، تو ایسے میں اپنے بچوں کو بہتر گریڈز اور نمبر دلانے کی سعی میں وہ انہیں نجی اکیڈمیوں میں داخل کرواتے ہیں تاکہ، ان کی تعلیمی حالت میں سدھار لایا جا سکے،
اب جہاں یہ اکیڈمیاں تعلیم دے رہی ہیں وہ یہ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلباء و طالبات مقابلے کی فضاء پیدا کرنے کے نام پر معاشرتی تقسیم کرتی دکھائی دیتی ہیں،
اگر ایک کلاس میں 100 بچے ہوں تو یقیناً ان میں 5 سے 10 بچے نہایت ذہین اور محنتی ہونگے، ان اکیڈمیوں میں ان بچوں پر دیگر بچوں سے زیادہ توجہ اور محنت کی جاتی ہے، ان کے ٹیسٹوں اور اندرونی (ادارہ جاتی) امتحانات میں بھی انکو الگ اور مخصوص کمروں میں بٹھایا جاتا ہے ، ان کے حل شدہ پرچوں پر کو بہت باریک بینی سے چیک کیا جاتا ہے، جبکہ ان کے ساتھ پڑھنے والے دوسرے بچوں کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے ، اساتذہ انکے حل کیے ہوئے ٹیسٹوں کو یا تو چیک ہی نہیں کرتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو ایک خاص نقطہء نظر سے کرتے ہیں کہ یہ تو ہیں ہی نکمے، ان بچوں کو اساتذہ مختلف معروف القابات جیسے کہ، تو فارغ ہے ،تو نکما ہے، تیرا کچھ نہیں بننا ، تو نالائق ہے، سے نوازتے ہیں ،
جبکہ وہ بچے جو ان کی نظر میں قابل ہیں، ان کے ساتھ وی آئی پیز کی طرح کا سلوک کیا جاتا ہے کیونکہ یہی وہ بچے ہوتے ہیں کہ جو ان اکیڈمیوں کے لیے اچھے نتائج دے کر، انکے مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزمنٹ کے بڑے بڑے بل بورڈز کی زینت بنتے ہیں، ہم لاکھ انکار کر لیں مگر پرائیویٹ اکیڈمیوں کی اکثریت کا یہی طرز عمل ہوا کرتا ہے، کیونکہ انہیں محض اپنے کاروبار کی ترقی اور سرمایہ اکٹھا کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ، پرائیویٹ اکیڈمیاں ایک انڈسٹری کی صورت اختیار کر چکی ہیں، یہ ہر سال لاکھوں روپے اپنی تشہیری مہمات پر لگاتے ہیں، تاکہ اپنے بچوں کے بہترین مستقبل کے خواہاں والدین یہ تشہیری بل بورڈز دیکھ کر اپنے بچوں کو ان اداروں میں بھیجیں، یہاں ہمارے نظام تعلیم اور اس سے جڑے چیک اینڈ بیلنس پر لاکھوں سوالات اٹھتے ہیں، کہ اگر 100 میں سے 10 بچوں پر ہی بھرپور محنت کرنی ہے تاکہ وہ ان کا برانڈ ایمبیسڈر بن سکیں تو دیگر بچوں کے مستقبل کا ذمہ دار کون ہے، انکے وقت اور انکے والدین کے پیسوں کا حساب کون دے گا، پاکستان جیسا ملک جہاں قوم پہلے ہی زبان ،فرقہ،قومیت، معاشی حالت اور ذات پات کی بنیاد پر منقسم ہے، وہاں تعلیمی اداروں میں جہاں کہ اصولی طور طبقاتی نظام کو ختم کرنے کی سعی کی جانی چاہیے اس کے برعکس یہ ادارے ہمارے معاشرتی نظام کو بنیادی ،ثانوی و اعلیٰ تعلیم کی سطح ہمارے بچوں کو ایک دوسرے سے تقسیم کرنے کا باعث بنتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ مہذب اور ترقی یافتہ اقوام عالم میں، ہر قسم کے طبقاتی نظام کو نہایت ناپسند کیا جاتا ہے اور وہ کسی کے بھی ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی گردانتے ہیں،
پاکستان میں نظام تعلیم کو مزید بگاڑ سے بچانے کے لیے مؤثر قانون سازی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، ملک میں ہر سطح پر ایسے تمام اداروں کے کڑے احتساب کی اشد ضرورت ہے جو کہ تعلیم کو محض ایک کاروبار کی حیثیت سے لیتے ہیں، چاہے وہ پرائیویٹ میڈیکل کالج ہوں، یونیورسٹیاں ہوں، پرائیویٹ کالجز ہوں، پرائیویٹ سکول سسٹمز ہوں یا پھر گلی محلوں میں جگہ جگہ پھیلی اکیڈمیاں ہوں، سب کی کڑی نگرانی درکار کرتی ہیں، ہمارے ملک کے تعلیمی نظام کو اسلامی اصولوں اور بقائے باہمی کے اصولوں پر استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں طبقاتی نظام کی بیج کنی کی جائے اور معاشرے میں ہر ایک کو اس کا جائز مقام مل سکے۔
*خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے،*
*وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو*
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں