• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • روشنیوں کا شہر کراچی بدانتظامی، کرپشن اور محرومیوں کی تصویر/شیر علی انجم

روشنیوں کا شہر کراچی بدانتظامی، کرپشن اور محرومیوں کی تصویر/شیر علی انجم

پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا، 2023ء کی ڈیجیٹل مردم شماری میں اس شہر کی آبادی 1 کروڑ 91 لاکھ 24 ہزار ریکارڈ ہوئی ہے۔ جبکہ اس حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں کا دعویٰ ہے مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو جان بوجھ کر کم دکھایا گیا ہے۔ بدقسمتی سے روشنیوں کا شہر کراچی آج بدانتظامی، کرپشن اور بنیادی سہولیات کی کمی کی وجہ سے اندھیروں میں ڈوب چکا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف اکنامک ڈویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق کراچی، پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا 25 فیصد اور ٹیکس ریونیو کا 65 فیصد پیدا کرتا ہے۔ یہ شہر ملکی معیشت کا حب ہے، جہاں صنعت، تجارت، بینکاری، اور خدمات کے مختلف شعبے فعال ہیں۔ کراچی کی بندرگاہیں بین الاقوامی تجارت کا مرکزی دروازہ ہیں، جو پاکستان کی اقتصادی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔معاشی حب مگر بنیادی سہولیات سے محرو م کراچی غریبوں کی ماں کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، جہاں ملک کے ہر کونے سے لوگ روزگار کی تلاش میں آتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے، یہ شہر جسے ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے، بجلی، گیس، پانی، سیوریج، اور ٹرانسپورٹ جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہوگیا ہے۔کراچی کے شہری روزانہ گھنٹوں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ اور گیس کے کم پریشر اور لودشیڈنگ کا سامنا کرتے ہیں، جس نے گھریلو زندگی اور صنعتوں کو بری طرح متاثر کیا ہوا ہے۔ اسی طرح پانی کا بحران اس شہر کے بڑے مسائلوں میں شمار ہوتا ہے اور اس شہر کے پانی پر بھی مافیا کا راج ہے۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (KWSB) کی سالانہ آمدنی 22 ارب روپے سے زائد ہے، لیکن پھر بھی 70 فیصد آبادی کو صاف پانی میسر نہیں۔کراچی واٹر کارپوریشن کی دسمبر 2024 میں ماہانہ آمدنی 1.86 ارب روپے رہی، لیکن شہریوں کو پانی فراہم کرنے میں یہ ادارہ مکمل طور پر ناکام ہے۔ٹینکر مافیا سرکاری پانی چوری کر کے مہنگے داموں فروخت کرتا ہے، جس سے عام شہری مشکلات کا شکار ہیں۔تباہ حال سڑکیں اور ناکام ٹرانسپورٹ سسٹم کی وجہ سے کراچی کی سڑکیں کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں، اور پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام مکمل طور پر تباہ ہے۔ سڑکوں پر بغیر فٹنس سرٹیفکیٹ کے خستہ حال بسیں، مزدا ٹرک، اور کوسٹروں کی بھرمار ہے، جو روزانہ حادثات اور اموات کا سبب بن رہے ہیں۔ اسی طرح چوری، ڈکیتی، اور راہزنی کی وارداتیں روز کا معمول بن چکی ہیں۔ محض ایک موبائل فون چھننے کے لیے انسانی جان لے لی جاتی ہے، اور موٹر سائیکل سواروں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کب کسی ڈمپر کی زد میں آ کر اپنی جان گنوا دیں گے۔بھتہ مافیا شہر کے ہر بازار میں سرگرم ہے، جو ٹھیلے والوں اور دکانداروں سے روزانہ لاکھوں روپے وصول کرتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس شہر سےبھکاری مافیا سالانہ 32 ارب روپے کماتا ہے، جبکہ پارکنگ مافیا روزانہ لاکھوں روپے بٹورتا ہے، لیکن یہ رقم عوام کی فلاح پر خرچ ہونے کے بجائے افسران اور مافیاز کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ حال ہی مئیر کراچی مرتضیٰ وہاب نے پارکینگ فری کرنے کا اعلان کیا جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ شہر بھر میں پارکینگ ہی ختم کردیا۔ ٹریفک پولیس نے آنکھ بند کرکے موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کو اُٹھانا شروع کردیا جس کے نیچے شہری ایک نئی پریشانی میں مبتلا ہوگیا لیکن کو پوچھنے والا نہیں۔ عوامی نمائندوں کی سیاسی بے حسی اور نااہلی حال یہ ہے کہ کراچی میں مسائل کے حل کے لیے منتخب کیے گئے نمائندے اپنے علاقوں کو چھوڑ کر پوش علاقوں یا بیرون ملک منتقل ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف سندھ میں برسوں سے حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی دعویٰ کرتی ہے کہ وہ عوام کوروٹی، کپڑا، اور مکان دے رہی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کا خفیہ منشور کراچی کے انفراسٹرکچر کو تباہ کرنا ہے۔میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے بلدیہ عظمیٰ کراچی (KMC) کی آمدنی کو 20 کروڑ سالانہ سے 22 کروڑ ماہانہ تک بڑھا دیا ہے، اور 2 ارب روپے شہر کے انفراسٹرکچر پر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ لیکن زمینی حقائق کچھ اور کہانی بیان کرتے ہیں، کیونکہ عوام کو کسی قسم کا کوئی فائدہ نظر نہیں آ رہا۔ المیہ یہ بھی ہے کہ شہری بطور ایک سول سوسائٹی اپنے حقوق کے لیے اکھٹے ہونے کے بجائے لسانی اور سیاسی تقسیم کا شکار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی کے انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے شفاف فنڈنگ اور احتسابی نظام قائم کیا جائےاورپانی، بجلی، اور گیس کے بحران کے مستقل حل کے لیے حکمت عملی بنائی جائے۔ اسی طرح ٹرانسپورٹ اور سڑکوں کی بہتری کے لیے میگا پراجیکٹس پر کام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ورنہ اگلے چند سالوں میں کراچی کی سڑکوں پر گاڑیاں نکالنا مشکل ہو جائے گا۔ پانی کے مسائل، بھتہ مافیا، ٹینکر مافیا، اور دیگر کرپٹ عناصر کے خلاف سخت کارروائی کیلئے وفاقی حکومت کی اشتراک سے ایک ادارہ قائم ہونا چاہئے جو پاکستان کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہرجسے حکمران اشرافیہ کی لاپرواہی اور کرپشن نے ایسے مسائل کی دلدل میں دھکیل دیا ہے باہر نکال سکے۔ اگر ہنگامی بنیادوں پر اس شہر کو انتظامی، معاشی، اور سماجی انصاف فراہم نہ کیا گیا، تو یہ بحران پورے ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ کراچی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو روکا جائے، اور اسے ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنایاجائے۔کیونکہ کراچی پاکستان کا معاشی دل اورصنعت، تجارت، اور خدمات کے شعبوں میں ملک کی ترقی کا محور ہے۔ شفافیت اور احتساب، بلدیاتی اداروں (KMC, KWSB) کے بجٹ کا آزاد آڈٹ، فنڈز کو انفراسٹرکچر پر مرکوز کرنا۔پانی کے بحران کی حل کیلئے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تعمیر، ٹینکر مافیا کے خلاف اعلیٰ عدالتوں کے ذریعے کارروائی اورتوانائی کے شعبے میں اصلاحات سولر انرجی پر سرمایہ کاری، گیس اور بجلی کے نیٹ ورک کی جدید کاری کے ساتھعوام کی سہولت اور سڑکوں پر ٹریفک کا بوجھ کم کرنے کیلئے کراچی سرکلر ریلوے اور میٹرو بس سسٹم کو نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری سے بحال کرنا ہوگا۔اسی طرح شہر میں امن امان کی صورتحال کو بہتر بنانے اور کاروبار دوست ماحول بنانے کیلئے بھتہ مافیا، پارکنگ مافیا کے خلاف اینٹی ٹیررازم کورٹس کے ذریعے مقدمات، پولیس میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی اہم ضرورت بن چُکی ہے۔ شہر کے قدیم روایات کی بحالی کیلئے میرٹ پر مبنی بھرتیاں، تعلیمی اداروں میں شہری نوجوانوں کو ترجیح سماجی انصاف اور یکجہتی نسلی تناؤ کا خاتمہ، بین المذاہب اور بین النسلی مکالمے کو فروغ دینا وقت  کی ضرورت ہے تاکہ کراچی حقیقت میں دوبارہ روشنیوں والا شہر بن سکے۔کراچی کی بحالی کیلئے وفاقی، صوبائی، اور شہری حکومت کے درمیان ہم آہنگی   بھی ضروری ہے اسی طرح بین الاقوامی ادارے جیسے ورلڈ بینک یا ADB کی شراکت داری سے انفراسٹرکچر پراجیکٹس کو تیز کیا جا سکتا ہے۔ عوامی دباؤ اور میڈیا کی کردار اہم ہے تاکہ حکمران احتساب سے بچ نہ سکیں۔ یقیناکراچی کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنانے کا واحد راستہ رنگ نسل مذمب مسلک اور لسانیت سےپاک سول سوسائٹی کا قیام عوامی شعور، سیاسی دیانتداری، اور اداروں کی اصلاح ہے۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply