خواتین شرق وغرب/شہزاد ملک

اتحاد ائر لائن کا جہاز شکاگو ائر پورٹ پر لینڈ کر چکا تھا ابو دھابی سے چلنے والی فلائٹ مسافروں سے بھری ہوئی تھی ہماری سیٹیں کھڑکی کے پاس جہاز کے درمیان میں تھیں لوگ جہاز سے اترنے کے لئے سیٹوں سے کھڑے ہوکر اپنے کیبن سے سامان نکال کر بیرونی دروازے کی طرف بڑھ رہے تھے ہمارا یہ دستور رہتا ہے کہ ہم جلد بازی میں پیچھے سے آنے والوں کے رش میں پھنسنے کی بجائے اپنی سیٹوں پر آرام سے بیٹھے رہتے ہیں تاکہ رش نکل جائے تو ہم آرام سے نکلیں شکاگو ائرپورٹ پر رش کم ہونے کے دورا نیے میں میں کھڑکی سے باہر کی چہل پہل اور لوگوں کی بھاگ دوڑ دیکھ رہی تھی مجھے دور سے ایک لحیم شحیم سیاہ فام خاتون آتی دکھائی دی وہ اتنی بھاری بھر کم جسم کی تھی کہ ایسا لگتا تھا بڑی مشکل سے اپنے وجود کو اٹھائے ہوئے چل رہی ہے میں نے ملک صاحب کو اس کی طرف متوجہ کرتے ہوئے تاسف بھرے لہجے میں کہا دیکھیں نا ! وہ خاتون بے چاری کتنی مشکل سے پیدل چل رہی ہے
جب پچھلی سیٹوں سے آنے والا آخری مسافر بھی گذر گیا تو ہم اپنی سیٹوں سے کھڑے ہوئے سامان اٹھایا اور بڑی سہولت سے جہاز سے باہر آگئے پاؤں میں موچ آنے سے میرا ذیادہ چلنا مشکل تھا تو ہم نے وہیل چیئر کی درخواست کر رکھی تھی جہاز سے اترتے ہی مجھے حیرت کا ذبردست جھٹکا لگا جب دیکھا کہ وہ بھاری بدن خاتون جس پر مجھے ترس آرہا تھا میرے لئے وہیل چیئر لئے کھڑی تھی
یا اللہ ! اس سے تو اپنا آپ اٹھانا مشکل ہے یہ میری وزنی وہیل چیئر کیسے گھسیٹے گی میں یہی سوچ رہی تھی کہ اس نے میرا نام پکارا اور مجھے چیئر پر بیٹھنے کا اشارہ کیا حیرت انگیز مستعدی سے میرا ہینڈ کیری پکڑ کر پیروں کے نیچے بنی جگہ پر رکھا ملک صاحب کو چلنے کا اشارہ کیا اور چلنے لگی وہ میرے وزن کو گھسیٹتی ہوئی اتنی رفتار سے چل رہی تھی کہ میں سوچ بھی نہ سکتی تھی جہاز سے لے کر ائر پورٹ سے باہر تک کے لمبے راستے میں ہم وہیل چیئر سمیت دوبار لفٹ میں اور پھر ٹرین میں داخل ہوئے مگر وہ کسی جگہ نہ رکی نہ تھکی بس چلتی گئی اور ہم وہاں پہنچ گئے جہاں سامان پہنچنا تھا مجھے ایک جگہ چھوڑ کر اس نے ملک صاحب کے ساتھ ہمارا سامان لینے میں بھی مدد کی اور پوری تسلی کرکے بڑی خوش اخلاقی سے ہم سے رخصت چاہی
اس کا معاوضہ تو ٹکٹ کی قیمت کے ساتھ ہی ادا ہو چکا تھا ملک صاحب نے الگ سے ٹپ دی تو بہت خوش ہوگئی وہ تو چلی گئی لیکن میرے لئے سوچ کے دروازے کھول گئی ہمارےخطے کی عام خواتین ڈھلتی عمر میں اتنے بھاری تن و توش کے ساتھ ایسی مشقت کا سوچ بھی نہیں سکتیں گھروں میں بیٹھ کر شوہر یا بیٹے کے سہارے سکون سے زندگی گذارتی ہیں امیر ہوں یا غریب ہمارے ہاں کے مرد مقدور بھر اپنی خواتین کو اتنے تکلیف دہ کام نہیں کرنے دیتے بہت ہی مجبوری پڑ جائے تو ادھیڑ عمر کی خواتین گھریلو کاموں میں مددگار کی حیثیت سے کام کر لیتی ہیں سلائی کڑھائی یا ہاتھ کا کوئی کام کرکے روزی کما لیتی ہیں
امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک ہمارے لوگوں کے لئے خوابوں کی جنت کا درجہ رکھتے ہیں جہاں ہر کوئی جانا چاہتا ہے لیکن وہاں عورت مرد کا فرق کئے بغیر ہر کسی کو کام کرکے ہی اپنا گذارہ کرنا پڑتا ہے جہاں تعلیم یافتہ خواتین ہر جگہ مردوں کے برابر کام کرتی ہیں وہاں کم تعلیم یافتہ خواتین کو جو بھی کام ملے انہیں کرنا پڑتا ہے چاہے عمر ڈھل رہی ہو یا جسم کی فربہی بڑھ گئی ہو
اس لازمی مشقت کے کچھ فوائد بھی ہیں وہ عمر کے آخری حصے تک بھی مستعد رہتی ہیں فراغت اور آرام کی سستی انہیں لاحق نہیں ہوتی اور چونکہ انہیں کام کے لئے فٹ رہنا ہے تو وہ اپنی صحت کا خیال بھی رکھتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے انہیں کام کرنا ہے تو تندرست رہنا ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply