جب سے وزیراعلیٰ پنجاب نے مریضوں کی شکایات اور عدم سہولیات کی وجہ سے میو ہسپتال کے ایم ایس کو عہدے سے ہٹایا ہے ڈاکٹروں نے وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف محاذ بنا کر سوشل میڈیا کمپین شروع کردی۔ انتہائی عجیب منطق پیش کی جا رہی ہے، ہسپتال کے پاس پیسے نہیں ہیں تو ہسپتال کو اس حالت میں پہنچانے والے بھی تو تم ہی ہو، میو ہسپتال کا سالانہ بجٹ آٹھ ارب کے لگ بھگ ہے پھر بھی مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔
تمام بڑے ٹیچنگ ہسپتالوں کا سالانہ بجٹ اربوں روپے ہے لیکن غریب عوام کو سرنج تک فری ملنا مشکل بنا دیا گیا۔ ہسپتالوں کو ملنے والی ڈونیشن اور فنڈنگ کے احتساب اور استعمال کا کوئی سسٹم ہی نہیں بننے دیا گیا۔ پیشنٹ ویلفئیر سوسائٹی کے فنڈز میں خرد برد عمومی رویہ ہے۔ لوکل پرچیز میں سب سے بڑا ڈاکہ مارا جاتا ہے جہاں فوری ضرورت کے نام پر پچاس روپے والی میڈیسن پانچ سو میں خریدی جاتی ہے۔ یوں لاکھوں روپے ماہانہ کمائے جاتے ہیں۔
ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل سٹاف کی طرف سے مریضوں کے لواحقین پر آئے روز تشدد عام رویہ بن چکا ہے۔چاہے دیہی مراکز صحت، تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال، ڈی ایچ کیو یا ٹیچنگ ہسپتال ہو، ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف ہسپتال کا احتساب اور آڈٹ تو دور کسی انتظامی آفیسر کو معائنہ تک نہیں کرنے دیتے۔ جس ہسپتال میں انتظامی افسران اور انکی ٹیم نے جب بھی آڈٹ کی کوشش کی ان پر نرسز اور سٹاف خواتین کو ہراساں کرنے کا الزام تو کسی پر ڈاکٹرز کے ساتھ غلط زبان استعمال کرنے کا الزام لگا کر ایمرجنسی وارڈ کا بائیکاٹ کرکے بلیک میل کیا جاتا ہے۔
دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں چیف ایگزیکٹو، ایم ایس، اے ایم ایس اور ڈی ایم ایس کی سیٹوں پر انتظامی افسران کی تعیناتی کی جاتی ہے نا کہ ڈاکٹرز خود سے ہی سی ای او اور ایم ایس بن جاتے ہیں۔ علاج معالجہ اور انتظامی معاملات یکسر مختلف مہارت والے کام ہیں۔ کسی بھی ہسپتال میں کوئی بھی ایم ایس آج تک ڈسپلن قائم نہیں کرسکا اور نہ ہی ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کی حاضری پوری کرسکا ہے۔ گھوسٹ ملازمین کی فوج ہے ہر طرف۔
شعبہ صحت میں بہتری کا واحد حل یہی ہے کہ ڈاکٹرز کو میڈیکل کالجز اور ہسپتالوں میں انتظامی عہدے دینے کی بجائے انتظامی سیٹوں پر انتظامی افسران کی تقرری کی جائے۔ اس سے نہ صرف انتظامی معاملات بہتر ہوں گے بلکہ سینئر اور سپیشلسٹ ڈاکٹرز کا قیمتی وقت مریضوں کے علاج معالجہ کے کام آسکے گا۔ انتظامی سیٹوں پر تعینات ڈاکٹر نان پریکٹس الائونس بھی لیتے رہے ہیں اور پریکٹس بھی کرتے رہے ہیں۔ پروفیسرز کیونکہ سینئر ہوتے ہیں اس لیے وہ اپنے سے جونیئر ایم ایس کو خاطر میں نہیں لاتے اور بمشکل ایک دو گھنٹے کیلئے ہی سرکاری ہسپتال آتے ہیں اور باقی وقت پرائیویٹ ہسپتالوں میں پریکٹس کرتے نظر آتے ہیں۔ سرکاری ڈاکٹروں کو پرائیویٹ پریکٹس کی اجازت نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ڈاکٹر سرکاری ہسپتال میں آنے والے مریضوں کو اپنے نجی ہسپتالوں کی طرف ’’ریفر‘‘ کر دیتے ہیں۔ غریب مریض علاج کروانے کی بجائے درد برداشت کرتے ہوئے اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ڈاکٹروں کو دینے کے لیے بھاری فیس نہیں ہوتی۔
ڈاکٹروں کی فیس کے بارے میں ہمارے ہاں کوئی قاعدہ قانون نہیں، جو جس قدر چاہے اپنی فیس خود مقرر کر لیتا ہے۔ جس سرکاری ہسپتال چلے جائیں مریضوں سے زیادہ میڈیکل ریپ لائن بنائے ڈاکٹر سے ملنے کے منتظر ہوتے ہیں۔ ڈاکٹرز کے پرائیویٹ کلینک میں اے سی سے لیکر میز اور دیگر اشیاء تک میڈیسن کمپنیاں فراہم کرتی ہیں۔ ڈاکٹر کے زیر استعمال کار اور بیرون ممالک دورے بھی دوا ساز کمپنی کا تحفہ ہوتا ہے۔ ان ساری آسائشوں کے بدلے فارما سوٹیکل کمپنیز کی غیر معیاری اور جعلی ادویات مہنگے داموں مریضوں کو دینے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے جس طرح پہلے سے تعینات مافیا بنے افسران کو ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ سے نکالا ہے اسی جرات و بہادری اور خدمت کے جذبے کے تحت عوامی مفاد کی پیش نظر انتظامی عہدوں پر ڈاکٹرز کی بجائے انتظامی افسران کی تقرری کرکے بلیک میلنگ، چوری اور زورزبردستی کے راستے بند کیے جائیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا سیاسی نامزدگیوں کے برخلاف میرٹ پر پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کئیر ڈیپارٹمنٹ میں نادیہ ثاقب کی بطور سیکرٹری تقرری بہترین فیصلہ ہے۔ سیکرٹری نادیہ ثاقب وزیراعلیٰ کے اعتماد پر پورا اترتے ہوئے، عون بخاری، بارک اللہ خان، رانا عدیل تصور، حسین رانا، سرمد حسین، محمد عامر اور شرجیل شاہد کی صورت اپنے ہی جیسی محنتی اور دیانتدار ٹیم کا انتخاب کرکے شعبہ صحت میں انتہائی قلیل وقت میں قابل تعریف حد تک بہتری لانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ اسی طرح سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر میں طارق محمود، ذیشان شبیر رانا، سجاد خان، اشفاق الرحمٰن، انور بریار، الطاف انصاری، بابر سلیمان اور طیب طاہر جیسے بہترین افسران کی پروفیشنلزم اور محنت کا نتیجہ ہے کہ مافیا کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے اور عام عوام تک سہولیات کی فراہمی کیلئے اچھی خبریں مل رہی ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے گزارش ہے کہ طلباء و طالبات کو اسی صورت سرکاری میڈیکل کالجز میں داخلہ دیا جائے جب وہ یہ شورٹی بانڈ سائن کرکے دیں کہ وہ کم از کم پانچ سال تک سرکاری ہسپتالوں میں پریکٹس کریں گے۔ افسوس ناک صورت حال ہے کہ سرکاری میڈیکل کالجز میں حکومتی خرچے پر تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر بیرون ملک چلے جاتے ہیں یا پرائیویٹ کلینک بنا لیتے ہیں۔ اسی طرح پرائیویٹ کالجز کیلئے مناسب فیس کی حد مقرر کی جائے۔
بشکریہ 92 نیوز
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں