• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مقدمہ “ابلیس کی مجلسِ شوریٰ: پرولتاریہ تنقید(1)- کامریڈ فاروق بلوچ

مقدمہ “ابلیس کی مجلسِ شوریٰ: پرولتاریہ تنقید(1)- کامریڈ فاروق بلوچ

*ابتدائیہ
(زیر نظر تحریر اقبال کی نظم کی پرولتاریہ تنقید کا مقدمہ ہے جس کو حتی المقدور اختصار کے ساتھ مرتب کیا ہے. مقدمہ کے بعد مزید پانچ اقساط میں نظم کی پرولتاریہ تنقید کی اشاعت ہو گی)

نظم محض الفاظ کا ایک سلسلہ نہیں، یہ فکر کی روشنی ہے، جو تاریکی میں بھٹکتے قافلوں کو راستہ دکھاتی ہے۔ حکیم الامت، شاعر مشرق اور پاکستان کے قومی شاعر سر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی “ابلیس کی مجلسِ شوریٰ” ایک ایسی ہی فکر انگیز روشنی ہے جو وقت کے چہرے پر پڑی نقابیں الٹتی ہے اور تہذیب کی خیرہ کن چمک دمک کے پیچھے چھپے اندھیروں کو آشکار کرتی ہے۔ یہ محض ایک ادبی تخلیق نہیں بلکہ ایک فکری دستاویز ہے، جو استحصالی طاقتوں کی حکمتِ عملی کو بے نقاب کرتی ہے۔ اس میں مذہب، سیاست، معیشت اور اقتدار کے وہ ازلی اصول بیان کیے گئے ہیں جو ہر دور میں ایک نئی شکل اختیار کرکے اپنا وجود برقرار رکھتے ہیں۔

نظم مذکورہ کلی طور پہ مختلف کرداروں کے مکالمہ کا احاطہ کرتی ہے. یہ مکالمہ کسی شاہی دربار میں نہیں، کسی دانش گاہ میں نہیں، کسی منبر پر نہیں،یہ مجلسِ شوریٰ ہے، مگر ابلیس کی۔ یہاں فیصلے ہوتے ہیں، سازشیں بنتی ہیں، حکمتِ عملی طے کی جاتی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ دنیا کا نظام کون چلائے گا، بلکہ یہ ہے کہ دنیا کے انسان کو کیسے چلایا جائے گا۔ سرمایہ داری ہو یا اشتراکیت، جمہوریت ہو یا مذہب،ہر شئے کو کس طرح ایک مخصوص طبقے کے اقتدار کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، یہی اس مجلس کا اصل ایجنڈا ہے۔

*تحلیلِ نفسی (Psychoanalysis) میں اقبال کا پورٹریٹ

اقبال کی شخصیت اور فکر کو کسی ایک زاویے سے متعین کرنا ممکن نہیں، کیونکہ ان کے ہاں فکری، شعری اور فلسفیانہ رجحانات ایک مسلسل ارتقائی سفر پر گامزن ہیں۔ اگر “ابلیس کی مجلسِ شوریٰ” جیسے شاہکار کو تحلیلِ نفسی کے زاویے سے دیکھا جائے، تو اقبال کے ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی عناصر میں ایک ہمہ گیر تنوع، داخلی کشمکش اور فکری تضادات کی ہم آہنگی نمایاں ہوتی ہے۔ وہ خودی کے پیامبر بھی ہیں اور درویشی کے اسرار شناس بھی، عملیت کے داعی بھی اور تفکر کے دلدادہ بھی، فرد کی آزادی کے علمبردار بھی اور امت کے اجتماعی شعور کے داعی بھی۔ ان کا یہ فکری تضاد درحقیقت ایک گہرے فلسفیانہ ارتقا کا مظہر ہے، جہاں عقل اور وجدان، استدلال اور جذب، اور انفرادیت و اجتماعیت ایک دوسرے میں پیوست نظر آتے ہیں۔

یہی “توازنِ تضادات” اقبال کے فکر کو محض شاعری سے آگے بڑھا کر ایک نفسیاتی، روحانی اور فلسفیانہ تجربہ بنا دیتا ہے۔ وہ تسلیم و رضا کی تلقین بھی کرتے ہیں اور کائنات کی تسخیر کا حکم بھی دیتے ہیں، جو ان کی “دوئیِ فکر” (Duality of Thoughts) کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ فکری دوئی کسی ابہام کی علامت نہیں بلکہ ایک متحرک اور جستجو میں مصروف ذہن کی نشانی ہے، جو کسی حتمی نتیجے پر رکنے کی بجائے مسلسل نئے سوالات کے در کھولتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کے افکار جامد نہیں بلکہ ایک مسلسل فکری اور روحانی حرکت میں ہیں—کبھی وجد و حال میں گم، کبھی عقل و شعور میں محو، کبھی درویشانہ استغنا، اور کبھی قیصری جلال کا آئینہ۔

ان کی داخلی کشمکش جذباتی اور نفسیاتی بھی ہے، جس میں ناکام ازدواجی زندگی، تنہائی اور روحانی تجربات نے گہرا اثر چھوڑا۔ بیسویں صدی کی بدلتی دنیا میں، جہاں قدریں اور نظریات ایک نئے سانچے میں ڈھل رہے تھے، اقبال کا ذہن بھی اسی بےچینی میں گرفتار رہا۔ وہ مغربی علوم اور مشرقی روحانیت کے امتزاج کے ساتھ نہ مکمل طور پر روایت پسند تھے، نہ محض جدت کے علمبردار۔ یہی فکری ہمہ گیریت ان کی شخصیت کو پیچیدہ مگر پرکشش بناتی ہے۔

اقبال کسی ایک نظریے کے پابند نہیں، بلکہ فکری سفر کے سالک ہیں۔ ان کے ہاں جو تضاد نظر آتا ہے، وہ کسی فکری الجھاؤ کا نتیجہ نہیں بلکہ ارتقا کی علامت ہے۔ یہی مسلسل جستجو، فکری حرکت، اور تضادات میں ہم آہنگی اقبال کی اصل شناخت ہے، جو “ابلیس کی مجلسِ شوریٰ” جیسے کلام میں اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔

*ابلیس: ایک کردار یا ایک نظام؟

یہاں ابلیس محض ایک دیومالائی کردار نہیں، بلکہ وہ طاقت کا استعارہ ہے جو تاریخ کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کی گفتگو میں وہ تمام حکمتِ عملی نظر آتی ہے جو کسی بھی نظامِ استبداد کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ وہ خود کو ایک فرد نہیں، بلکہ ایک مستقل نظریہ سمجھتا ہے—ایک ایسی قوت جو اقتدار کے ایوانوں میں سازشوں کے تانے بانے بنتی ہے اور ہر انقلابی لہر کو اس کے منبع میں ہی دبا دیتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس کی مجلسِ شوریٰ کا ایک بنیادی ایجنڈا پرولتاریہ انقلاب ہے۔ وہ جانتا ہے کہ تاریخ کا دھارا بدل سکتا ہے، کہ جبر کا ہر نظام، خواہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو، آخر کار زوال پذیر ہوتا ہے۔ مگر وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اگر اقتدار کے ایوانوں میں چند بیدار دماغ موجود ہوں، تو تاریخ کے دھارے کو موڑا جا سکتا ہے۔

*سرمایہ داری اور مذہبی استحصال—ابلیس کا بہترین ہتھیار

دنیا کی طاقتور ترین سلطنتیں کبھی تلوار سے قائم ہوتی تھیں، پھر نظریے سے اور اب سرمائے سے۔ اقبال کی نگاہ ان تینوں قوتوں سے گزرتی ہے اور ان کے پیچھے موجود اصل روح کو دیکھتی ہے— ابلیس کی حکمتِ عملی۔

یہ نظم بتاتی ہے کہ سرمایہ داری محض ایک اقتصادی نظام نہیں، یہ ذہن کی ایک تشکیل ہے۔ اگر انسان کو اپنے ہی ہاتھوں بیچنے کی عادت ڈال دی جائے تو غلامی کے طوق کو وہ زیور سمجھ کر پہن لیتا ہے۔

“میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا
میں نے منعِم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں”

یہ محض ایک شعر نہیں، ایک مکمل جدلیات ہے۔ تقدیر کے اسباق سے صبر سکھایا جاتا ہے اور سرمایہ داری کے جنون سے استحصال کا جواز پیدا ہوتا ہے۔ اقبال ہمیں بتاتے ہیں کہ ابلیس نے دولت کو ترازو میں نہیں، ضمیر میں رکھ دیا ہے۔ چنانچہ انصاف میزان میں نہیں، قیمت میں تولا جانے لگا۔

*اشتراکیت—ایک سرخ طوفان یا محض دھواں ؟

ابلیس کے سامنے سرمایہ داری کے دفاع کرنے والے مطمئن بیٹھے ہیں، مگر ایک آواز ابھرتی ہے—سوشلزم کا تذکرہ۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو غریب کے ہاتھ میں قوت دیتا ہے، انقلاب کی نوید ہے، اور امارت و غربت کے جھوٹے توازن کو زمین بوس کرنے کا خواب دکھاتا ہے۔ مگر اقبال کی بصیرت اس کے جوہر کو پرکھتی ہے اور ایک ایسی حقیقت پیش کرتی ہے جو عام آنکھوں سے اوجھل ہے:

“وہ کلیمِ بے تجلّی، وہ مسیحِ بے صلیب
نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب”

یہ نظم کا سب سے پیچیدہ اور گہرا مقام ہے۔ کارل مارکس (سوشلزم) پیغمبر نہیں مگر الوہی کتاب رکھتا ہے، یعنی اس کے پاس نظریہ تو ہے مگر وحی نہیں۔ وہ انقلاب تو چاہتا ہے مگر اس کے پیچھے کوئی اخلاقی و روحانی قوت نہیں۔ اقبال کے بقول سوشلسٹ جدو جہد کے نتیجے میں انقلاب آتا ہے، تخت گرتے ہیں، پرچم بدلتے ہیں، مگر استحصال کا نیا روپ جنم لیتا ہے۔ سرمایہ دار کی جگہ ریاست آ جاتی ہے، بادشاہ کی جگہ پارٹی، اور امیروں کی جگہ حکمران بیوروکریسی۔ مگر عام انسان؟ وہ وہیں رہتا ہے جہاں تھا۔

*جمہوریت—جمہور کے بغیر ایک نظام

بنظر اقبال اگر سرمایہ داری ایک انتہا تو اشتراکیت دوسری انتہا ہے اور تو جمہوریت ان کے بیچ کا ایک ایسا فریب ہے جس میں آزادی کا سراب دکھا کر غلامی کی زنجیریں پہنائی جاتی ہیں۔

“ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر”

اقبال سکھاتے ہیں کہ جمہوریت ایک ایسا کھیل ہے جس میں حکمرانی عوام کے نام پر ہوتی ہے مگر عوام کو کچھ نہیں دیا جاتا۔ ابلیس کا سب سے کامیاب جال یہی ہے کہ وہ لوگوں کو یہ یقین دلا دے کہ وہ آزاد ہیں، جبکہ وہ درحقیقت محض مہرے ہیں۔

*امتِ مسلمہ—ابلیس کا سب سے بڑا خوف

نظم کے آخری حصے میں اقبال کا ابلیس ایک لمحے کے لیے پریشان ہوتا ہے۔ یہ پریشانی نہ سرمایہ داری کی وجہ سے ہے، نہ اشتراکیت کے عروج سے، نہ جمہوریت کے فریب سے—یہ پریشانی کسی اور چیز کی ہے:

“ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو”

*قرآن اور تاویلات کی زنجیر

ابلیس ایک اور چال بھی کھیل چکا ہے،اس نے قرآن کو مباحثوں میں الجھا دیا ہے، اسے عملی کتاب سے نظری مباحث کا مجموعہ بنا دیا ہے یہی ابلیس کی اصل کامیابی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply