• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا دماغ اینالوگ ہے یا ڈیجیٹل؟ (پہلی قسط)- لیکچر: فری مین ڈائسن/ ترجمہ: علی شہباز

کیا دماغ اینالوگ ہے یا ڈیجیٹل؟ (پہلی قسط)- لیکچر: فری مین ڈائسن/ ترجمہ: علی شہباز

  (یہ عوامی لیکچر پروفیسر فری مین ڈائسن نے 19 مئی 2014ء کو ڈبلن کے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے میں دیا جس کا اردو ترجمہ قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔)

پہلا حصہ: شروڈنگر کو خراج عقیدت

فروری 1943 میں جب یورپ جنگ کی آڑ میں تھا تو ڈبلن امن کا ایک جزیرہ تھا۔ یہ ان چند مقامات میں سے ایک تھا جہاں سنجیدہ مفکرین اور علماء پناہ لے سکتے تھے۔ آئرلینڈ اور آئی ایم ڈی ای اے کی مہمان نوازی کا شکریہ۔ شروڈنگر بھی یہاں رہ چکا ہے۔ اس نے کیمبرج کے ٹرینٹی کالج میں ’’زندگی کیا ہے‘‘ کے عنوان سے سات خطبے پیش کئے۔ ان خطابات میں چار سو سے زائد سامعین شامل تھے۔ شروڈنگر بڑے فخر سے ہمیں بتاتا ہے کہ اسکے سامعین منتشر نہیں ہوئے۔ وہ شاید پہلا شخص ہے جو کوانٹم فزکس کا اطلاق حیاتیات کے بنیادی مسائل پر کرنے کے بارے سوچ رہا تھا۔ اسکی انگریزی بھی بہت اچھی تھی۔ خوش قسمتی سے اسکے خطابات کیمبرج یونیورسٹی سے 1944 میں شائع ہو گئے اور میں خوش بخت تھا کہ اسکی پہلی اشاعت ہونے والی کتاب مجھے 1945 میں مل گئی۔ جنگ (جنگ عظیم دوم) کی گرما گرمی میں یہ کتاب میرے لئے ٹھنڈک کا باعث تھی۔ اس نے حیاتیات کی نئی صبح کا آغاز کرنے والی سورج کی پہلی کرن کا کام کیا۔ میں شروڈنگر کی کتاب کے شروع سے کچھ اقتباس آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔

’’ہم نے اپنے آباؤ اجداد سے تمام علوم کی یکجائی کرنے کی جستجو میراث میں پائی ہے۔ ان اعلٰی تعلیمی اداروں کا نام ہی یاد دلاتا ہے کہ زمانہ قدیم اور بعد کی بیشتر صدیوں تک سب سے زیادہ قدر صرف مکمل تناظر کو ہی ملی ہے۔ لیکن گزشتہ ایک سو سال میں ہونے والی علم کی شاخوں کی وسعت اور گہرائی ہمیں ایک المیے پر لے آئی ہے۔ ہمیں اب جاکر معلوم ہوا ہے کہ ہم مکمل علم تک پہنچنے کے لئے درکار معتبر مواد کی دریافت کا ابھی بس آغاز ہی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ تقریباً ناممکن ہے کہ صرف ایک ذہن اس سارے علم کی کسی خاص شاخ سے زیادہ علم حاصل کرسکے۔ اس المیے کا واحد حل یہی ہوسکتا ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ مختلف حقائق اور نظریات کا اجتماع کریں، چہ جائیکہ ہمیں ان کا مکمل علم نہ بھی ہو اور یوں ہم خود کو بیوقوف بنانے کا خطرہ بھی اٹھائیں‘‘

معذرت کہ مجھے اتنا کچھ کہنا پڑا۔ بہرحال یہ شروڈنگر کی بات تھی۔ میں اب شروڈنگر کی اس بات سے حوصلہ لیتے ہوئے اپنی بات کرتا ہوں۔ اسی کی مانند میں بھی ایک طبیعیات دان ہوں اور اسکی طرح حیاتیات کے شعبے میں قدم رکھنے کی بیوقوفی کرنے کا خطرہ مول لے رہا ہوں۔ اس کا سوال کہ زندگی کیا ہے، ایک بروقت اور بے انتہا فائدہ مند سوال تھا۔ اگرچہ اس نے جواب نہیں دیا۔ میں بھی ایک سوال کر رہا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ میرا سوال بھی بروقت اور فائدہ مند ہو۔ اسکی جرات مندانہ قیاس آرائیوں کے مقابلے میں میری باتیں معمولی ہیں۔ اس نے سات لیکچر دیے اور اپنے موضوع پر گہرائی میں بات کی۔ میں ایک لیکچر ہی دوں گا اور اپنے موضوع کا سطحی سا خاکہ ہی پیش کرپاؤں گا۔ ڈبلن انسٹیٹیوٹ اور آئرلینڈ کے شکریے کے ساتھ اب میں اپنی بات شروع کرتا ہوں۔ میں پہلے آپ کو فہرست بتاتا ہوں تاکہ آپ کو پتا ہو کہ اس لیکچرمیں کس بارے بات ہوگی۔ پہلے حصے میں شروڈنگر کو خراج عقیدت، دوم وہ رستہ جو اپنایا نہ گیا، سوم کلسٹر کی کوانٹم حرکیات، چہارم مصنوعی ذہانت کی شکست، پنجم نقوش اور جذبات، ششم اینڈیکوٹ ہاؤس میٹنگ، ہفتم فطرت کے مطالعے میں ریاضی کا استعمال اور ہشتم کوانٹم اینالوگ کمپیوٹنگ۔ پہلا حصہ ہوچکا اب یہ دوسرا اس راہ کے بارے جو اختیار نہ کی گئی۔

دوسرا حصہ: وہ رستہ جو اپنایا نہ گیا

میری تقریر کا موضوع ہے کہ دماغ اینالوگ ہے یا ڈیجیٹل۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے جیسی مخلوقات کے پاس معلومات کو پراسیس کرنے کے دومختلف نظام ہیں۔ ایک جنیوم ہے اور دوسرا دماغ۔ جینوم تو ڈیجیٹل ہے اور ہم اپنے جینوم کی معلومات کو ڈیجیٹل مشینوں میں بآسانی منتقل کرسکتے ہیں۔ لیکن ہم اپنے دماغ کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے۔ ہمارا دماغ معلومات کو کیسے پراسیس کرتا ہے یہ ابھی تک ایک عظیم معمہ ہے۔ میں حقیقی دماغ اور لوگوں کی بات کروں گا اور ایک سوال قائم کروں گا جس کے عملی نتائج بھی ہوں گے اگر ہم اس کا جواب ڈھونڈ لیں۔ بلاشبہ میرے پاس اسکا جواب نہیں ہے۔ میں صرف موجودہ ثبوتوں کا جائزہ لے سکتا ہوں اور وضاحت کرسکتا ہوں کہ مجھے کیوں لگتا ہے کہ دماغ بنیادی طور پر اینالوگ ہے۔

رابرٹ فراسٹ نے کہا تھا کہ کسی جنگل میں دو سڑکیں ہوں جو دو مختلف راستوں کی طرف جاتی ہوں تو میں وہ راستہ چنتا ہوں جس پر کم لوگ جاتے ہیں اور اس سے بہت فرق پڑتا ہے۔ 1930 میں پانچ قسم کے کمپیوٹر تھے جو سنجیدہ حساب کر سکتے تھے۔ ان میں سے دو ڈیجیٹل تھے جنہیں مارچ کہتے تھے اور درست حساب کا کام کرتے تھے۔ اور کچھ ہولڈ کارڈ پنچ مشینیں تھیں جن سے بڑی تعداد میں ڈیٹا کے جدول تیار ہوتے تھے۔ اسکے علاوہ تین اینالوگ کمپیوٹر تھے۔ ایک سلائیڈ رولر تھا جو تیزی سے حساب کرتا اور اسکی درستی تین ہندسوں تک تھی۔ دوسرا بش ڈفرینشل اینالائزر جو کہ ڈفرینشل مساواتیں حل کرنے میں استعمال ہوتا تھا۔ تیسرا لاما فوٹوالیکٹرک نمبر سی آئی وی تھا جو اعداد پر مشتمل مساواتیں حل کرنے اور بڑے نمبروں کے فیکٹر نکالنے کا کام کرتا تھا۔ لاما مشین اگرچہ اعداد پر کام کرتی تھی مگر یہ اینالوگ مشین تھی۔ یہ اعداد کا پتا لگانے کے لئے پہیے میں سوراخوں کی تعداد گنتی تھی نہ کہ ڈیجیٹل کوڈ کی مدد سے ایسا کرتی تھی۔

پھر1936 میں ایلن ٹیورنگ نے اعداد کی گنتی پر مقالہ لکھا جس سے پتا چلا کہ ڈیجیٹل کمپیوٹنگ کس قدر خوبصورت اور طاقتور طریقہ ہے جو مجرد منطقی تشکیل رکھتا ہے۔ اس کے بعد اینالوگ کمپیوٹر آہستہ آہستہ ناپید ہوتے گئے۔ اینالوگ کمپیوٹر وہ راہ ہے جو اختیار نہ کی گئی۔ میں اسی کی دہائی تک سلائیڈ رولر سے اپنی آمدنی کا ٹیکس نکالنے کا کام لیتا تھا پھر نیوجرسی کی ریاست میں ٹیکس جمع کرنے والوں نے چار ہندسوں تک درستی کا مطالبہ کردیا (سامعین ہنس پڑے)۔ مجھے مجبوراً ڈیجیٹل کیلکولیٹراستعمال کرنا پڑا۔ اب ہم ڈیجیٹل کمپیوٹر کی دنیا میں اسقدرمگن ہیں کہ ان چیزوں کا گمان کرنا بھی مشکل ہے۔ اگر یہ درست ہے کہ دماغ اینالوگ ہے تو ہمیں جلد یا بدیر وہ راہ اختیار کرنا ہوگی جو ایلن ٹیورنگ اختیار نہ کرسکا۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اینالوگ کمپیوٹر کیا کرسکتا ہے۔

ایسی بہت سی وجوہات ہیں جو بتاتی ہیں کہ بیسویں صدی میں تجارت اور سائنس میں ڈیجیٹل کمپیوٹر کی مانگ کیوں بڑھی۔ کیونکہ ڈیجیٹل کمپیوٹنگ میں رفتار، درستی اور پائیداری بہت بہتر ہے۔ زندگی کے بہت سے شعبوں میں تین ہندسوں کی درستی کافی نہیں ہے۔ سائنس میں تو کچھ چیزوں کی پیمائش میں بارہ ہندسوں کی درستی بھی کافی نہیں ہے۔ ڈیجیٹل کمپیوٹر کہیں نہیں جانے والے۔ دوسری طرف دماغ کے بڑے فوائد میں اس کی پیچیدگی اور لچک شامل ہے۔ دماغ ایک ہی وقت میں کسی طرح درجنوں مختلف کام کرلیتا ہے، جیسے کہ دیکھنا، سننا، چلنا، بولنا، سوچنا اور دیگر اہم افعال سرانجام دینا۔ بنا کسی الجھن کے، اگر یہ درست مان لیا جائے کہ دماغ اینالوگ ہے تو ہم ایسی دیگر اینالوگ مشینیں تیار کرسکتے ہیں جو دماغ کی طرح پیچیدہ اور لچکدار ہوں۔ میری تقریر اسی امکان کے گرد گھومتی ہے۔

تیسرا حصہ: کلسٹروں کی کوانٹم حرکیات

جدید دنیا کے غیرحل شدہ بڑے مسائل میں سے ایک معلومات کو تفہیمات میں تبدیل کرنا ہے۔ یہ مسئلہ سائنس، کاروبار اور معشیت وغیرہ میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ان شعبوں میں معلومات تو بہت زیادہ مقدار میں موجود ہے لیکن اس کا فہم بہت کم ہے۔ ڈیجیٹل تکینیک کی تیز ترقی کے باعث معلومات اکٹھا کرنا، تفہیم کے مقابلے بہت سستا عمل بن چکا ہے۔ حال ہی میں ایک نیا طریقہ کلسٹروں کی کوانٹم حرکیات کے نام سے ایجاد ہوا ہے جو معلومات کے بڑے ڈھیر میں سے چند قابل فہم باتیں اکٹھی کرنے کا کام کرتا ہے۔ میں اپنے دوست ماروین وائنسٹین کا شکر گزارہوں جواس نئے طریقے کے موجدوں میں سے ہیں، انہوں نے مجھے بتایا کہ کیسے اس طریقے کا بنیادی کام ایک بڑے ذخیرہ مواد میں سے معلومات کو انسانی فہم کے قابل بنانے کے لئے ایک ریاضیاتی الگورتھم کا استعمال ہے جو اس معلومات کو تصویروں کی ایک فلم بنا کر پیش کرتا ہے۔ یہ الگورتھم ذرات کی کوانٹم حرکت کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ کوانٹم حرکت کو روزمرہ زندگی کے کسی مظہر کی طرح متصور نہیں کیا جا سکتا، اسلئے یہ تصویری فلم خیالی ہے اور اس کو صرف اسلئے استعمال کیا گیا ہے تاکہ معلومات کے بڑے ذخیرے کو قابل فہم بنایا جا سکے۔

انسانی ذہن، متحرک تصویروں کی دنیا کے لئے اجنبی نہیں ہے۔ یہ ان متحرک تصویروں میں سے باآسانی اور بہترین ساختیں اخذ کر لیتا ہے۔ کلسٹروں کی کوانٹم حرکیات کا طریقہ بھی ایسی ساختیں اخذ کرتا ہے۔ اور جب انہیں انسان کے لئے آسان فہم انداز میں تبدیل کر دیا جاتا ہے تو ڈیجیٹل عوامل کے ذریعے اسکا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ انسانی آنکھ اور ذہن کو ڈیجیٹل پروگرام میں ثانوی درجے کا کام دیا جاتا ہے جس میں انسانی ذہن کی خاص مہارت سے زمان و مکاں میں ہونے والی حرکات میں سے ساختوں کی تلاش کی جاتی ہے۔ وائنسٹین کے مقالے میں، جو کہ شاید 2013 میں شائع ہوا تھا، کلسٹر کی کوانٹم حرکیات کے طریقے کو پانچ بڑے شعبوں پر منطبق کیا گیا ہے جن میں نینو کیمسٹری، کنڈینسڈ میٹر فزکس، بیالوجی، ارضیات اور فنانس شامل ہیں۔ ہر شعبے میں موجود مواد میں سے اس طریقے کی مدد سے اہم معلومات کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اگر ڈیٹا کو ڈیجیٹل عوامل کی مدد سے تجزیہ کیا جا رہا ہو تو معلومات بذات خود مخفی رہتی ہے۔ نینو کیمسٹری کی مثال لیجئے۔ ایک قدیم رومی برتن کا ایک ٹکڑا زیر مطالعہ ہے جس کا خفیہ ڈھانچہ لوہے کے آکسیڈائزڈ اور رڈیوسڈ ریشوں کی تقسیم پر مشتمل ہے۔ ایسا ہی ڈھانچہ لیتھیم آئن بیٹری کے الیکٹروڈز، انسانی ہڈیوں اور رومی برتنوں میں پایا جاتا ہے۔ ریشوں کی موجودگی بتاتی ہے کہ ان تینوں میں ایک جیسے کیمیائی تعاملات پائے جاتے ہیں۔ کیمسٹری میں لیتھیم آئن بیٹری کو سب سے پہلے سمجھا گیا اور پھر اس سمجھ کو ہڈیوں اور برتنوں کے مطالعے میں استعمال کیا گیا کیونکہ یہ ہڈیاں اور برتن وافر مقدار میں تجربہ گاہوں میں موجود نہیں ہوتے۔

وائنسٹین کے مطابق کلسٹر کی کوانٹم حرکیات کے طریقے کا کام ایسا ہی ہے جیسے گھاس پھوس میں سے ایک سوئی کی تلاش کرنا، اسے پہچاننا اور پھر اسکو سمجھنا ہے۔ اس طریقہ کی طاقت یہ ہے کہ سوئی ڈھونڈنے سے پہلے اس کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ڈھونڈنا کیا ہے۔ آپ کو اپنے الگورتھم میں سوئی کے بارے تفصیلی معلومات دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ انسانی ذہن، ایسی چیزیں دریافت کر لیتا ہے جن کی کوئی توقع نہیں ہوتی۔ بہرحال، یہ طریقہ معلومات کے سمندر میں چھپے تفہیم کے ذخیروں کو ڈھونڈنے کی طرف پہلا قدم ہوسکتا ہے۔ مزید ترقی کے لئے ہمیں نہ صرف انسانی ذہن کی معجزاتی قوتوں کو دریافت کرنا ہے بلکہ یہ بھی جاننا ہے کہ وہ کیسے کام کرتی ہیں۔ کلسٹرکی کوانٹم حرکیات کے معلوماتی ذخائر میں عملی فوائد کے ساتھ ساتھ ہمیں انسانی ذہن کے نیورولوجیکل فہم کے لئے بھی کام کرنا ہے۔

پہلا بڑا معمہ یہ معلوم کرنا ہے کہ دماغ میں یادداشت کی مادی بنیاد کیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یادداشت کے دو نظام دماغ میں کام کرتے ہیں جن میں سے ایک مختصر مدت جبکہ دوسرا طویل مدت کی یادداشت ہے۔ ہمیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ دماغ میں کونسے کیمیائی یا مادی عوامل سے یادداشت محفوظ ہوتی ہے۔ جب یہ معمہ حل ہوجائے گا تو اگلا مرحلہ یہ جاننا ہے کہ اس یادداشت کو دوبارہ دماغ کیسے سامنے لاتا ہے۔ ہماری یادداشت کا منطقی ڈھانچہ اشتراکی نوعیت کا ہے۔ ہم کسی یادداشت کو سامنے لانے کے لئے خیالات کا ربط بناتے ہیں جو اسے کسی دوسری یادداشت سے جوڑتا ہے۔ لیکن اس ربط کو قائم کرنےکے لئے دماغ کونسی زبان اختیار کرتا ہے اس بارے ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ اگر ہم کلسٹر کی حرکیات کا ایسا ماڈل تیار کرسکے کہ جو خیالات کا ربط بنا سکے تو یہ معلومات کو فہم میں بدلنے کے لئے نہایت طاقتور اوزار کا کام کرے گا۔

julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply