برصغیر میں ہندو جاتی اور شیڈول کاسٹ مسئلے کی جڑیں 2000 سال پہلے جب دھرم کو بنیاد بنا کر نسل اور پیشوں کی بناء پر کچھ ذات برادریوں،اور قبائل کو اچھوت، شودر، قرار دیا گیا اور ان پر فکری، شعوری، تعلیمی، سماجی ، معاشرتی، تہذیبی علمی،مذہیی اور سیاسی ترقی کے تمام دروازے بند کر دیے گئے۔۔ ہاں تاریخ کے کسی موڑ پرکبھی ترس کھا کر انھیں بچھڑے ہوئے کہا گیا۔ انھوں نے خود کو دلت اور سیاسی فوائد کے لئے انھیں ہریجن ( خدا کے لوگ ) بھی کہا گیا۔سارے مسئلے کا مذہبی پہلو ہمارا موضوع نہیں ۔ بس اس تاریخی واقعہ کے آج تک برصغیر خصوصاً پاکستانی معاشرے میں ایک چھوٹے مذہبی گروہ کے بارے میں چند حقائق و اعدادوشمار پیش خدمت ہیں۔ماضی قریب میں 1850 سے برطانوی راج میں اس پر آوازیں اٹھنی شروع ہوئیںں۔جسکے نتیجے میں مارلے منٹو ریفارم ودیگر کئی ریفارمز کمیشن قائم ہوئے جس جدوجہد کی بنیاد پر انڈین ایکٹ 1935 پاس ہوا۔جس میں 1937 میں ان پسماندہ 296 قبائل اور 821 ذاتوں کو شیڈول کاسٹ ڈیکلیئر کیا گیا اور انکے اعدادوشمار جمع کرنے کے بعد انکے لئے سیاسی اور سماجی ترقی کے لئے کوٹے مخصوص کئے گئے۔۔یہ ہی نظام دوسری وراثت کی طرح ہمیں بھی ملا۔ہماری مردم شُماری میں دیگر مذہبی شناختوں کے علاوہ ہندو جاتی اور شیڈول کاسٹ کے دو خانے بھی ہیں۔ گوکہ ہمارے پاس شیڈول کاسٹ ذاتوں اور قبائل کی تعداد 40 کے قریب ہی ہے۔۔
پاکستان کی پہلی تین مردم شماریوں 1951،1961،1972میں شیڈول کاسٹ ہندوؤں کی آبادی 2اعشاریہ 86فیصد سالانہ اوسطاً کی شرح سے بڑھ رہی تھی ۔ اور یہ بالترتیب مجموعی ہندو آبادی کا 70،67،اور 67 فیصد تھے۔1972 میں شیڈول کاسٹ آبادی 603369 تھی۔۔لیکن پھر پتہ نہیں کس وجہ سے 1981 کی مردم شماری میں سے شیڈول کاسٹ کا خانہ ہی ختم کردیا گیا۔ 1985 میں جداگانہ انتحابات کے ذریعے دو شیڈول کاسٹ بھی ایم این ایز بن گئے جن کے شور شرابے سے 17 سال بعد 1998 میں ہونے والی مردم شماری میں شیڈول کاسٹ کا خانہ شامل کیا گیا لیکن اس میں شیڈول کاسٹ گنے تو گئے لیکن الٹی گنتی سے جس کی وجہ سے 26 سال بعد وہ 26 سال پہلے والی آبادی سے بھی 271027 کم دکھائے گئے۔ انکی تعداد 342342 تھی۔۔انکے اس 26 سال کے بعد نئے اجتماعی جنم کے بعد پاکستان کی تاریخ کی 2017 میں ہونے والی متنازعہ ترین مردم شماری میں انکی تعداد 849614 تھی۔آج 2023 کی مردم شماری میں انکی تعداد 1349487 ہے۔۔ جو کہ مجموعی ہندو آبادی کا 26 فیصد ہے۔جبکہ 1972 میں وہ مجموعی ہندو آبادی کا۔67 فیصد ہوتے تھے۔ اگر یہ دھرتی واسی صرف اسی شرح سے بھی بڑھتے رہتے، تو آج انکی آبادی سرکاری کاغذات میں تقریباً 35 لاکھ ہوتی۔ جبکہ انکی ہر طرح کی پسماندگی ،خانہء بدوشی کی وجہ سے یہ مسلمہ حقیقت ہے۔۔ کہ وہ پاکستان بھر میں سب سے کم نادرہ رجسٹریشن کروانے والا انسانی گروہ ہے۔۔ اس لئے انکی تعداد 35 لاکھ سے بھی کہیں زیادہ ہونی چاہیے تھی۔۔ لیکن سرکاری کاغذات میں وہ صرف 13 لاکھ کے قریب ہی ہیں۔۔ انکے سیاسی سماجی ورکر جن کی تعداد لاکھوں نہیں تو ہزاروں میں ضرور ہے۔لیکِن ان میں سے شائد ہی کوئی 78 سال کی سات مردم شماریوں کا یہ المیہ متعلقہ اداروں تک ڈھنگ سے پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔ جبکہ ان میں سے اکثر ریاستی و حکومتی شخصیات سے اپنی انفرادی خود نمائی اور ترقی کے لئے ملتے نظر آتے ہیں۔۔اس المیے کا ذمہ دار کون ؟
1۔ غلطی یا ارادے سے یہ کاغذی نسل کشی کرنے والے
2۔ غلطی یا ارادے سے یہ کام کروانے والے ۔
3۔۔ شیڈول کاسٹ جمہوری غلام اور جمہوری غلامی کے طلب گار سیاسی ورکر۔
4 انکی محرومیوں کے سوداگر شیڈول کاسٹ ودیگر۔
آخری دونوں فریق جو یہ خود ہیں سب سے زیادہ بڑے مجرم ہیں۔ یہ دونوں فریق ان دھرتی واسیوں کی محرومیوں کے سوداگر ہیں۔۔ اسی لئے کوئی منظم آواز نہیں اٹھاتے۔ اور اجتماعی کی بجائے انفرادی ترقی وبقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔انکی اور ایسی دیگر مثلاً مسیحی جو سیاسی،نظریاتی اور شعوری طور پر انھی کی طرح پسماندہ ہیں۔ ( گوکہ وہ یہ ماننے کو قطعی تیار نہیں )انکے ساتھ بھی 2017 کی مردم شماری میں یہ ہی کاغذی نسل کشی کی واردات کی گئی ۔۔جسکا ثبوت یہ ہے کہ وہ پاکستان کی پہلے 51 سال میں ہونے والی 5 مردم شماریوں میں اوسط اقلیتی آبادی کا 46 فیصد ہوتے تھے۔۔ لیکن 2017 کی مردم شُماری میں یک لخت 10 فصید کم ہو کر کل اقلیتی آبادی 36 فیصد رہ گئے ہیں۔جس پر انکا ردعمل بھی آج تک شیڈول کاسٹ کے سیاسی سماجی ورکروں سے بھی بدتر ہے۔۔جبکہ انکے ممسر( مسیحی مذہبی سیاسی سماجی راہنما ) المعروف محرومیوں کے سوداگر، تیس تیس سکوں کے بیوپاری اور جمہوری غلاموں کے ۔۔شمالی امریکہ اور یورپی یونین کی ہر این جی اوز تک رسائی ہے۔ لیکِن ملک کے معروضی حالات کو جان کر منظم اور سنجیدہ کوششوں کی انکے ہاں بھی شدید کمی ہے ۔ ان المیوں جن سے ملک میں مزید المیے جنم لیتے رہتے ہیں،کا ایک حل ہے کہ اقلیتوں کے لئے پاکستان کے معروضی سماجی، معاشرتی معاشی، سیاسی،مذہبی، تاریخی حالات کے بغور جائزے سے پاکستان کی تقریبا ایک کروڑ مذہبی اقلیتوں کے لئے ایسا انتخابی نظام وضع کیا جائے،جس میں انکی مذہبی و قومی شناخت کی ترقی وبقاء کے پہلو کا خیال رکھا جائے ۔اس سے ایک ایسا خود کار نظام ان شہریوں، انکے سیاسی نمائندوں، حکومت اور ریاست کے درمیان قائم ہوجائے گا جو انکے ایسے دیگر مذہبی وسیاسی حقوق کے تحفظ کا ضامن ہوگا۔ یہ بے ضرر حکومتی و ریاستی اداروں کی نیک نامی کا بھی باعث ہوگا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں