ایک ہوتی ہے مالی بددیانتی
کوئی آپ سے غلط بیانی کر کے پیسے ہتھیا لیتا ہے، آپ سے فلاحی کاموں کے لیے دس روپے لے کر، دو کا کام کرتا ہے اور آٹھ جیب میں ڈال لیتا ہے۔ کسی خوشنما کورس کے فوائد گنوا کر فیس لیتا ہے اور مطلوبہ معلومات نہیں دیتا۔۔
یا اسی طرح کا کوئی اور دھوکہ
یہ سب ہے مالی بددیانتی کہ مالی معاملات میں اس بندے نے آپ کے ساتھ ہیر پھیر کر لی۔
ایک ہوتی ہے علمی بددیانتی
کہ جس نے دو کتابیں پڑھ لی ہیں یا چار مشکل لفظ لفظ یاد کر لیے ہیں وہ کسی بھی موضوع پہ ادھوری معلومات کو جوڑ توڑ کر اپنی مرضی کا مفہوم دے کر آپ کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ اپنے من گھڑت قصوں کو مستند معیاری علم بنا کر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھ کر آپ پہ تھوپ رہا ہوتا ہے۔ یعنی وہ آپ کو یقین دلا رہا ہوتا ہے کہ وہ بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے لیکن اس کی باتیں ادھوری ہوتی ہیں یا جھوٹی ہوتی ہیں۔
ایسا شخص معلومات کے نام پہ علمی زہر بانٹ رہا ہوتا ہے۔ دینی علم ہو یا دنیاوی، وہ اپنی معلومات کو خوش رنگ لبادہ پہنا کر آپ کی ذہن سازی کر رہا ہوتا ہے تاکہ آپ کو بھی وہی ٹھیک لگنے لگے جو اسے ٹھیک لگتا ہے، تاکہ آپ اس کی ہر بات پہ واہ واہ کرنے لگیں۔ وہ درحقیقت آپ کو گمراہ کر رہا ہوتا ہے لیکن آپ کو احساس نہیں ہو رہا ہوتا۔
سوشل میڈیا پہ دونوں طرح کے لوگوں کی بہتات ہے۔ مالی بددیانتی سے بچنے کا تو آسان سا طریقہ ہے کہ جب بھی کوئی آپ سے پیسے مانگے تو رک جائیں اور دوبارہ سے اس شخص پہ تحقیق کر لیں۔
اگر وہ فلاحی کام کر رہا ہے تو کیا وہ پوری تفصیل سے فلاحی کاموں میں ہوئی لین دین کے معاملات عام عوام کے سامنے رکھ رہا ہے؟
اگر نہیں رکھ رہا تو قوی امکان ہے کہ وہ کوئی فراڈیا ہی ہو گا۔ آپ کو فلاحی کام کرنے ہیں، کسی کی مدد کرنی ہے تو اپنے اردگرد کسی غریب کی مدد کر دیجیے، کسی رشتہ دار کا سہارا بن جائیے، یہ آنلائن فراڈیوں کا پیٹ بھرنے سے اچھا ہے۔
اگر کوئی اپنا کورس بیچ رہا ہے تو رک کے یہ دیکھیں کہ اس کی اپنی اہلیت کیا ہے، کیا وہ اس کورس کو کروانے کے قابل بھی ہے یا نہیں۔ اگر اس کی اہلیت بس فیس بکی باتیں یا فیس بک پہ لوگوں کی واہ واہ ہے تو سنبھل جائیں، قوی امکان ہے کہ وہ کورس کے نام پہ آپ کو اپنی باتیں ہی بیچے گا، کوئی علم نہیں۔
دوسری ہے علمی بددیانتی، مجھے ذاتی طور پہ لگتا ہے کہ علمی بددیانتی زیادہ بڑا مسئلہ ہے، یہ معاملہ زیادہ زہریلا ہے۔ مالی بددیانتی کا تو لوگوں کو وقتی نقصان ہوتا ہے لیکن علمی بددیانتی تو دیر تک لوگوں کو نقصان پہنچاتی رہتی ہے۔ بعض اوقات تو ان کو پوری عمر کے لیے ہی گمراہ کر دیتی ہے۔
علمی بددیانتی سے بچنے کا آسان سا طریقہ یہی ہے کہ بات کرنے والے کی اہلیت دیکھیں، اس کے لفظوں کی خوبصورت بُنت نہیں۔ علمی بات اس کی سنیں، جو مستند متعلقہ علم رکھنے والا ہو۔ اور جس کی بات منطقی ہو۔ صرف خوبصورت لفظوں کے جوڑ سے دوسروں کو عالم مت سمجھیں۔ جیسے کوئی موٹیویشنل سپیکر چاول کے دانے سے آپ کو بریانی کی دکان بنا کر دے رہا ہو تو یہ بات سننے میں بہت اچھی لگتی ہے لیکن منطقی اعتبار سے ممکن نہیں۔
اسی طرح اگر کوئی آپ سے کہے کہ کینسر نام کی بیماری دنیا میں موجود ہی نہیں یہ سب بس ڈاکٹروں کا کمائی کا ذریعہ ہے تو یہ بات سننے میں اچھی لگے گی لیکن کینسر کے لاکھوں مریض اس کی بات کو جھوٹا اور منطقی اعتبار سے غلط قرار دیں گے۔
سوشل میڈیا کو علم کا ذریعہ مت سمجھیں یہاں کہی ہر بات درست نہیں ہے، یہاں خوبصورت لفظوں کے پیچھے لوگ اپنی دکان چمکا رہے ہوتے ہیں، اپنا مال بیچ رہے ہوتے ہیں۔ دوسروں کو اپنی ذہن سازی کرنے کا اختیار نہ دیں۔ جب بھی کسی نے علمی بات شئیر کی ہو تو اس کو اپنے طور پہ سرچ کر کے دیکھ لیا کریں کہ اس میں کتنی حقیقت ہے۔ اب تو آسان سا طریقہ موجود ہے کہ اس پوسٹ کو کاپی کر کے چیٹ جی پی ٹی میں بھیج کر پوچھ لیں کہ کیا یہ باتیں درست لکھی ہوئی ہیں۔
ویسے تو ان دونوں کے علاوہ ایک اخلاقی بددیانتی بھی ہوتی ہے، جیسے دوسروں کی تحریریں کاپی کر کے ان پہ اپنا نام لکھ دینا یا اپنے ذاتی مفاد کے لیے کسی پراڈکٹ یا شخصیت کی جھوٹی تعریفیں کرنے لگ جانا۔
لیکن اس پہ بات پھر کبھی سہی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں