میرا یہ لیکچر ذراتی طبیعیات کے بارے تو نہیں ہے لیکن اس شعبے کے تجربات میں کلسٹر کی کوانٹم حرکیات کے اطلاق سے متعلق کہنے کیلئے مجھے موضوع سے تھوڑا انحراف کرنا ہوگا۔ حال ہی میں دنیا نے ہگز نامی ذرے کی جنیوا کے لارج ہیڈران کولائڈر(ایل ایچ سی) میں دریافت کا جشن منایا ہے۔ یہ کولائڈر، سرن کا ایک بہت بڑا اور مہنگا تجربہ ہے جسکے ذریعے ذرات میں انتہائی زیادہ اسراع (ایکسلریشن) پیدا کیا جاتا ہے۔ ہگز کی دریافت بلاشبہ بہت اہم ہے اور پیٹر ہگز اسکے لئے نوبل انعام کے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے اس ذرے کی پیشگوئی چالیس سال پہلے کی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ یہ ذرہ سالوں کی محنت کے بعد بالآخر دریافت ہوگیا لیکن جسطرح یہ ذرہ دریافت ہوا اس طریقے کو لے کر میں ناخوش بھی ہوں۔ لارج ہیڈران کولائڈر نئی دریافتیں کرنے کے لئے اچھی مشین نہیں ہے۔ اس مشین میں پروٹانوں کو بہت زیادہ توانائی دے کر آپس میں ٹکرایا جاتا ہے اور ہر ٹکراؤ میں بہت سے ناپسندیدہ ذرات کے گچھے پیدا ہوتے ہیں جو پھر ڈیٹیکٹروں کو ڈھانپ لیتے ہیں۔ ان میں صرف ایک قلیل مقدار ایسے نایاب واقعات کی ہوتی ہے جن میں ہگز پیدا ہوتا ہے۔
ناپسندیدہ ذرات کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ مشین خود انکا تجزیہ نہیں کرسکتی۔ نایاب ہگز ذرات کو ڈھونڈنے کا واحد طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ڈیٹیکٹر کو کنٹرول کرنے والے پروگرام میں پہلے سے ہگز کے متعلق تفصیلی ہدایات دی جاتی ہیں تاکہ وہ صرف ہگز والے واقعات کو محفوظ کرے اور دیگر تمام واقعات کو نظر انداز کر دے۔ ہگزذرہ, اس مشین میں اسی لئے دریافت ہوسکا کیونکہ مشین کو پہلے سے پتا تھا کہ اسے کیا ڈھونڈنا ہے۔ بدقسمتی سے یہ لارج ہیڈران کولائڈر کی ایک خامی ہے کہ یہ غیرمتوقع دریافتیں نہیں کر سکتا۔ سائنس میں بڑی پیشرفت اکثر ایسی غیرمتوقع دریافتوں کی بدولت ہوتی ہے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ کلسٹر کی کوانٹم حرکیات کے طریقوں سے کولائڈر میں پیدا ہونے والے مواد کا تجزیہ ایسی غیرمتوقع دریافتیں کرسکتا ہے یا نہیں۔
بدقسمتی سے ہیڈران کولائیڈر میں پیدا ہونے والا مواد اسقدر الجھا ہوتا ہے کہ بنا کانٹ چھانٹ اس میں سے غیرمتوقع واقعات دریافت کرنا ممکن نہیں ہے چاہے کلسٹر کی حرکیات کو ہی تجزیے میں استعمال کیوں نہ کیا جائے۔ یہ خطرہ رہتا ہے کہ کانٹ چھانٹ کے عمل میں غیرمتوقع خزانہ بھی کھو نہ جائے۔ میرے خیال میں مستقبل کی ذراتی میکانیات میں زیرزمین غیر فعال ڈیٹیکٹروں کا استعمال ہوگا۔ یہ ڈیٹیکٹر بیرونی خلاء سے آنے والے زیادہ توانائی والے ذرات کی تلاش میں نایاب واقعات دیکھنے کا کام کرتے ہیں۔
فطرت، اسراع پیدا کرنے والی فلکیاتی مشینوں سے بھری پڑی ہے جو ہماری زمین پر موجود سب سے بڑی تجربہ گاہ سے بھی کہیں زیادہ توانائی کے ذرات پیدا کرتی ہیں۔ زیادہ توانائی والے نایاب ذرات کے ساتھ ساتھ کم توانائی والے بہت سے ذرات بھی فضا میں موجود ہوتے ہیں جو زیر زمین اتنی گہرائی تک سفر نہیں کرپاتے۔ زیرزمین ڈیٹیکٹروں کو کافی گہرائی میں رکھا جاتا ہے تاکہ قریباً تمام ناپسندیدہ واقعات ان تک نہ پہنچ سکیں۔ جو ذرات زیرزمین زیادہ گہرائی تک پہنچ جاتے ہیں وہ اتنے نایاب ہوتے ہیں کہ ڈیٹیکٹر میں پہنچنے والے ہر واقعے کو محفوظ کر کے اسکا تفصیلی تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر ڈیٹیکٹر میں نئی قسم کے تعامل یا ذرات کی نئی نسل پائی جاتی ہو تو اسے دریافت کیاجاسکتا ہے۔ ڈیٹیکٹر کو پہلے سےہدایات دینے کی ضرورت نہیں رہتی کہ اسے کیا ڈھونڈنا ہے۔ اگرچہ غیر فعال بڑے ڈیٹیکٹر کافی مہنگے ہوتے ہیں تاہم وہ لارج ہیڈران کولائیڈر کے مقابلے میں کافی سستے ہیں۔ اگر زیادہ توانائی کے ذرات پر تجربات میں غیرمتوقع واقعات کی نشاندہی مقصود ہے تو یہ شاید اس کا بہترین حل ہے۔
چوتھا حصہ: مصنوعی ذہانت کی شکست
اب میں ذراتی طبیعیات کی جانب انحراف سے واپس دماغ اور کمپیوٹر کی طرف آتا ہوں۔ میں اس مفروضے کی تصدیق یا تردید کے لئے ثبوت کی تلاش میں ہوں کہ دماغ ڈیجیٹل سے زیادہ اینالوگ مشین کی طرح کام کرتا ہے۔ اس بارے پہلا ثبوت مصنوعی ذہانت کی شکست ہے۔ ساٹھ سال پہلے جب ڈیجیٹل انقلاب شروع ہورہا تھا اور ڈیجیٹل کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے علمبردار مستقبل میں فتح کے خواب دیکھ رہے تھے تو ان میں سے ایک بڑا خواب مصنوعی ذہانت پیدا کرنا بھی تھا۔ مصنوعی ذہانت سے مراد یہ تھا کہ ایسی ڈیجیٹل مشین بنائی جائے جو انسانی دماغ کی طرح سوچے، عمل کرے اور تبادلہ خیال کر سکے۔ یعنی اس سے مراد ایسی مشین تھی جو انسان کی طرح ذہین ہو۔ بہت سے جوشیلے اور ذہین لوگوں نے اس خواب کو پورا کرنے میں زندگیاں صرف کر دیں۔ برطانوی حکومت نے میرے دوست سر جیمز لائٹ ہل سے درخواست کی کہ وہ سائنسی تحقیقی کونسل کو مصنوعی ذہانت میں تحقیقی معاونت کے لئے گذارشات پیش کرے۔
لائٹ ہل نے ایک مشہور رپورٹ مرتب کی جس کا عنوان ’’مصنوعی ذہانت کا ایک عمومی سروے‘‘ تھا۔ اس رپورٹ نے لائٹ ہل کے بہت سے مخالفین پیدا کردئیے۔ لائٹ ہل نے مصنوعی ذہانت کے عوامل کو تین شعبوں میں بانٹا۔ اول شعبے کو ایڈوانس آٹومیشن کہا جس میں آٹومیٹک کنٹرول مشینری کو عملی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ تیسے شعبے میں مرکزی اعصابی نظام پر تحقیق شامل تھی جس میں نیورولوجی اور نفسیات کے مطالعے میں کمپیوٹر کا استعمال شامل ہے۔ جبکہ دوسرا شعبہ پہلے اورتیسرے کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے۔ دوسرے شعبے میں ایسے روبوٹ بنانا شامل تھا جن کا کام صرف روزمرہ کے کاموں میں مدد نہیں بلکہ انسانی رویوں کی نقل کرنا بھی شامل ہو۔ لائٹ ہل نے 1972 تک ان شعبوں میں ہونے والی ترقی پر بات کی جس سال وہ ان تینوں شعبوں کے بارے لکھ رہا تھا اور اس نے اپنا نتیجہ پیش کیا۔ اس نے کہا کہ پہلے اور تیسرے شعبے کے تحقیقی پروگرام درست ہیں جن میں سے پہلا شعبہ انجینئرنگ سے اور تیسرا سائنس سے متعلق ہے۔ پہلے اور تیسرے شعبے کا کام متوقع رفتار سے بہرحال سست تھا۔
پہلے شعبے میں دواہم منصوبے، خودکار طریقے سے ترجمہ اور زبان کی شناخت شامل تھے اور یہ دونوں بری طرح شکست خوردہ تھے۔ تیسرے شعبے کے تین اہم مقاصد یادداشت ، سیکھنے اور بھولنے کا فہم حاصل کرنا تھا جن میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا۔ تاہم پہلے اور تیسرے شعبے میں مستقبل کے بارے ابھی بھی امید قائم تھی اوریہ شعبے مدد کے مستحق تھے۔ جبکہ دوسری قسم کے لئے کوئی سائنسی بنیاد موجود نہیں تھی یعنی پہلی اوردوسری قسم کے مابین کوئی ربط نہیں تھا۔ پہلی اور تیسری قسم کے شعبے الگ الگ کام کرتے تھے اور ان دونوں کو الگ الگ مدد اور وسائل درکار تھے جبکہ دوسری قسم کا شعبہ مدد کا مستحق نہ تھا۔ اب میں دوسرے شعبے پر لائٹ ہل کا لکھا ہوا خاکہ پیش کرتا ہوں۔
زیادہ تر روبوٹ ایک ایسی دنیا کے لئے بنائے جاتے ہیں جو بڑوں کے مطابق ایک بچے کی دنیا ہوتی ہے۔ وہ کھیلنے، پہیلیاں حل کرنے، اینٹوں سے ٹاور کھڑے کرنے، کتابوں میں تصاویر پہچاننے (جیسے قالین پرایسے ریچھ کی تصویر پہچاننا جس نے گیند پکڑی ہو) کا کام کرتے ہیں۔ اگرچہ بچے کی دنیا کا شدید جذباتی پہلو اس روبوٹ میں بالکل موجود نہیں ہوتا۔ روبوٹ اور اسکے بنانے والے کے درمیاں ماں جیسا ایک تعلق قائم ہوتا ہے۔ اب چالیس سال گزر چکے ہیں اور لائٹ ہل کا مصنوعی ذہانت پر موقف ابھی تک قائم ہے۔ ان چالیس سالوں میں پہلی قسم کے شعبے میں کافی کام ہوا ہے۔ اس شعبہ میں چالیس سال خون پسنہ بہا کر زبان کی شناخت والے بڑے پروگرام اب کچھ اچھا کام کر رہے ہیں اور خودکار تراجم کے پروگرام ابھی ادھورے نتائج پیدا کر رہے ہیں مگر وہ تیسری قسم کے شعبے میں کارگر ہیں۔ شعبہ تین میں کم ترقی ہوئی ہے جبکہ شعبہ دوم میں کوئی ترقی نہیں ہوئی۔
انسانی دماغ کے فہم کے بارے تمام معلومات یا تو مادی اوزار سے مل رہی ہیں جس میں ایم آر آئی شامل ہے یا جینوم کی سیکوئنسنگ سے ملی ہیں جبکہ نیوروسرکٹ جیسے نئے خیالات سے کم معلومات ملی ہیں۔ خودکار روبوٹ بنانے کی طرف زیادہ پیش رفت انسانوں کے بجائے کیڑے مکوڑوں کی نقل کرنے سے ہوئی ہے۔ مخلتف ممالک میں ساٹھ سال کی انتھک محنت کے باوجود، مصنوعی ذہانت ابھی تک شکست خوردہ رہی ہے۔ میرے کہنے کا مقصد ہے کہ مصنوعی ذہانت کی شکست ایک حادثہ نہیں ہے بلکہ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک اینالوگ مشین یعنی دماغ کی نقل ایک ڈیجیٹل مشین یعنی الیکٹرونک کمپیوٹر سے کر رہے ہیں۔ پہلے شعبہ میں کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ زبان اور گفتار دماغ کے ان خاص حصوں کا کام ہے جن میں ڈیجیٹل عوامل سے معلومات لینے کی قوت موجود ہے۔ اگر میں ٹھیک کہہ رہا ہوں توڈیجیٹل مشینوں کی مدد سے مصنوعی ذہانت کی کامیابی، دماغ کے ان خاص حصوں تک ہی محدود رہے گی۔
پانچواں حصہ: نقوش اور جذبات
دماغ کے بارے ایک اور اہم بات جو ہم جانتے ہیں وہ یہ کہ دماغ معلومات کو پراسیس کرنے کیلئے نقوش کا سہارا لیتا ہے۔ روشنی آنکھ کے ریٹینا سے ہوتی ہوئی دماغ کے مختلف حصوں میں جاتی ہے جہاں آنکھ کے سامنے موجود شے کے مطابق مختلف قسم کے نقشے دماغ میں بنتے ہیں۔ جلد میں موجود اعصابی ریشوں کی مدد سے بھی معلومات دماغ میں جاتی ہے جہاں معلومات اپنی شکل بدل کرجسم کے ادھورے نقشے بناتی ہے۔ دماغ نقشوں سے بھرا ہوتا ہے اور اسکی کارکردگی کا زیادہ حصہ ایک سے دوسرے نقشے میں معلومات کا تبادلہ کرنے میں صرف ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم نقشوں کے بارے اپنے روزمرہ تجربے سے واقف ہیں کہ ایک تصویر سے دوسری کا ربط قائم کرنا یا تواینالوگ طریقے سے ہوسکتا ہے یا ڈٰیجیٹل۔ کیونکہ اب ڈیجیٹل کیمرے سستے اور فلم والے کیمرے تیزی سے ناپید اور پرانے ہوتے جارہے ہیں تو کچھ لوگوں نے یہ خیال پیش کیا ہے کہ دماغ بھی ڈیجیٹل طریقے سے نقشوں کا ایک دوسرے سے ربط قائم کرسکتا ہے۔ لیکن دماغ لاکھوں سالوں سے ارتقاء پا رہا ہے اور یہ ہمارے عارضی طریقوں پر نہیں چلتا۔ ایک نقشہ دراصل اینالوگ آلہ ہے جو ایک تصویر کی وضاحت دوسری تصویر سے کرتا ہے۔ دماغ میں تصویر بننے کا عمل شاید براہ راست تصویروں کی مدد سے واضح ہوسکتا ہے بجائے اس کے کہ تصویروں کو ڈیجیٹل معلومات میں منتقل کر کے دیکھا جائے۔
ہمیں خودشناسی سے پتا چلتا ہے کہ ہمارا دماغ، فطری ماحول میں زندگی کی بقاء کے دو اہم کام انتہائی تیزی سے کرتا ہے۔ یہ دو کام، کسی مکان میں تصویریں پہنچاننا اور زمان میں آواز کے پیٹرن پہچاننا ہیں۔ ہم دوسرے انسان کا چہرہ پہچاننے یا گھاس میں چلتے سانپ کی سرسراہٹ سننے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگاتے۔ ہم کسی کے بولنے کی آواز یا چلتے ہوئے قدموں کی آواز دونوں فوری سن لیتے ہیں۔ کسی تصویر کو پہچاننے کے عمل میں ایک دی گئی شکل کو مختلف شکلوں کے بڑے ڈھیر یا ڈیٹابیس سے موازنہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بنا شعوری محنت کے یہ کام اتنی جلدی دماغ کیسے کرتا ہے، اس کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دماغ میں موجود یادداشت میں پڑی تصویروں کو سکین کرنا اینالوگ ڈیٹا کو سکین کرنے جیسا کام ہے نہ کہ ڈیجیٹل ڈیٹا سکین کرنے جیسا کام ہے۔ ایک اور بات جس کا ہمیں یقینی علم ہے کہ ہمارے حواس کی معلومات کا ہمارے جذبات سے گہرا تعلق ہے۔ دیکھنے، سننے اور سونگھنے کا عمل بہت پیچیدہ طریقے سے جذبات کے ساتھ گھل مل جاتا ہے۔ انسانی محنت اور تخلیق کا بڑا حصہ آرٹ سے تعلق رکھتا ہے۔ سننے کی قوت کا جذباتی پہلو سمجھنے کے لئے موسیقی کی مثال ہے۔ دیکھنے کی قوت کے جذباتی پہلو کو سمجھنے کیلئے مصوری اور تعمیری فنون مثالیں ہیں۔
ہمارے حواس کی معلومات کا زیادہ تعلق مقدار کے بجائے معیار سے ہے۔ موضوعی تاثرات سے شاید غلطی ممکن ہو مگر موسیقی یا خوبصورت قطہ ارض پر ہمارا جذباتی ردعمل بتاتا ہے کہ ہم آوازوں اور تصویروں کو اعداد کے بجائے تصویری طور سے سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ کسی صحرا میں طلوع آفتاب یا ایسی کوئی تصویر کا تعلق مکمل منظر سے ہے نہ کہ اسکے جزوی عناصر سے ہے۔ ایک عمومی اصول کے مطابق، حواس کے متعلق ہمارے تصورات بظاہر مسلسل (کنٹینیوس) لگتے ہیں نہ کہ منفصل (ڈسکریٹ)۔ مگر اس قانون میں ایک اہم استثناء زبان کے بارے ہمارا فہم ہے۔ بولی جانے والی زبان ڈیجیٹل ہے۔ معنی کی ترسیل کیلئے صوتیوں (فونیم) کی ایک محدود (ڈسکریٹ) تعداد استعمال ہوتی ہے۔

ہمارا سماعتی نظام اسطرح سے ترتیب پایا ہے کہ وہ آواز کے مسلسل بہاؤ کو منفصل صوتیوں میں تحلیل کرلیتا ہے اور پھر انہی منفصل صوتیوں کو لفظوں اور جملوں میں تبدیل کرتا ہے۔ دماغ میں کچھ مخصوص حصے جیسا کہ بایاں نصف کرہ ایسا ہے جہاں اس معلومات پر ڈیجیٹل کارروائی ہوتی ہے۔ لکھی جانے والی زبان بھی ڈیجیٹل ہے۔ دماغ کے دیگر کچھ حصوں میں بصری تصاویر کی حروف یا آئیڈیگرام کے ڈیجیٹل سلسلوں میں تبدیلی ہوتی ہے۔ بریل کی ایجاد، ڈیجیٹل عوامل کے ذریعے بصری معلومات کواندھے لوگوں کیلئے لمس کی معلومات میں تبدیل کردیتی ہے۔ یہ صلاحیتیں ہمیں ثبوت مہیا کرتی ہیں کہ دماغ کے کچھ حصے ڈیجیٹل ہوتے ہیں، جیسے صوتیات کا استعمال یا لکھی جانے والی علامتوں کا بطور منفصل اشیاء پایا جانا۔ لیکن زبان کے فہم میں جذبات اور احساسات بھی شامل ہیں جو اوازوں اور علامتوں کی پہچان سے آگے کی چیز ہیں۔ ہم زبان کو محض صوتیات کے سلاسل کی صورت میں نہیں سمجھ رہے ہوتے۔ (جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں