ہندی فلموں میں عورت کی پیش کش کے حوالے سے مختصر جائزے پر ہمارے ایک دوست نے سوال اٹھایا کہ اگر فلموں کی اکثریت عورت سے پدرشاہیت کے مطابق ڈھلنے کا مطالبہ کرتی ہیں تو کیا مزاحمتی عورت کی پیش کش میں بھی عورت سے یہی مطالبہ نہیں کیا جاتا؟ ـ اس کا مختصر جواب ہے؛ نہیں ـ اس “نہیں” پر مختصر بحث کر لیتے ہیں ـ
لڑکی اپنی پیدائش کے وقت محض انسان ہوتی ہے ـ مردانہ سماج اسے عورت بناتا ہے ـ اسے کیا کرنا چاہیے، کیا نہیں کرنا چاہیے، کیسے چلنا، اٹھنا، بیٹھنا اور سونا چاہیے ـ لباس کے انتخاب سے لے کر جنسی ساتھی چننے تک کے معاملات بھی مرد طے کرتے ہیں ـ اس پورے عمل میں وہ رفتہ رفتہ سماج میں رائج تصور کے مطابق عورت بنتی ہے ـ
ہندی فلمیں (دیگر سینما بھی) بھی ایک اچھی انسان نہیں بلکہ رائج تصورات و تعصبات کے تحت ایک اچھی عورت کا پروپیگنڈہ کرتی ہیں ـ
ہدایت کار محبوب خان کی فلم “انداز” میں جاگیردارانہ پدرشاہیت پر مبنی ریاستی قوم پرستی کے تحت نرگس کی آزادی کو بے راہ روی اور اعلی ہندوستانی اقدار و روایات کے مخالف قرار دے کر اسے نشان عبرت بنایا جاتا ہے ـ “انداز” فلم کی اسی تھیم کو استعمال کرکے ہدایت کار سورج برجاتیہ نے فلم “ہم آپ کے ہیں کون” میں مادھوری کو لبرل ہندو توادی قوم پرستی کے تحت ایک آئیڈیل بھارتی ناری کی صورت پیش کیا ـ فلم “بابل” (1950) دیکھ لیں جس میں فلم کی دونوں پروٹاگونسٹ منور سلطانہ اور نرگس جاگیردارانہ پدرشاہانہ اقدار و روایات کے تحفظ کی خاطر خود کو قربان کردیتی ہیں جسے فلم کا ہیرو دلیپ کمار بھی اپنی تائید بخشتا ہے ـ فلم “کچھ کچھ ہوتا ہے” کی کاجول کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اچھی عورت کا روپ اختیار کرنے اور مرد کی نگاہ میں قابلِ قبول محبوبہ بننے کے لئے اپنے لباس اور چال ڈھال کو بدل دے ـ
عورت کیسی ہونی چاہیے ؛ یہ ہندی فلموں کا محور رہا ہے اور آج بھی ہے ـ دوسری جانب مزاحمتی عورت کی پیش کش میں اسی رویے کے خلاف عورت کی بغاوت کی حمایت کرکے اس کا خود پر اعتماد بڑھانے کی کوشش نظر آتی ہے ـ
فلم “کیا کہنا” کی پریٹی زنٹا “ناجائز” بچے کی ماں بننے کے بعد سماج میں رائج تصور کے مطابق خودکشی کرنے یا معصوم انسانی جان لینے کی بجائے اسے اپنے پیار کی نشانی سمجھ کر پیدا کرنے کا جرات مند موقف اپناتی ہے ـ اس فلم میں بغیر شادی کے جنسی عمل کے نتیجے میں حمل کا ذمہ دار صرف عورت کو قرار دینے کی مذمت کی گئی ہے ـ اس فلم میں عورت سے مطالبہ نہیں کیا جاتا کہ اسے کیسا ہونا چاہیے بلکہ اس کے برخلاف یہ دکھایا گیا ہے مردانہ سماج کیسا ہے اور اس کے مطالبات کس قدر بے رحم ہیں ـ اس فلم میں مزاحمتی عورت کی لڑائی میں اس کا ساتھ دینے کا مطالبہ ملتا ہے ـ
فلم “مرتیوڈنڈ” کی شبانہ اعظمی سالوں تک اپنے نامرد شوہر کا پردہ رکھ کر بانجھ ہونے کا طعنہ برداشت کرتی ہے مگر پھر ایک دن وہ مقابلہ کرنے کا ٹھان کر نہ صرف “ناجائز” تعلق بناتی ہے بلکہ اس سے جب اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کے باپ کا پوچھا جاتا ہے تو وہ کہتی ہے “میں بانجھ نہیں ہوں اور یہ بچہ میرا ہے” ـ یہاں بھی مزاحمتی عورت کی پیش کش میں بیرونی مداخلت سے زیادہ عورت کی لڑائی میں اس کا ساتھ دینے کی وکالت نظر آتی ہے ـ
مزاحمتی عورت کی فلمی پیش کش میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ عورت کی لڑائی میں مرد اس کا مددگار ہے یا رائج تصور کے تحت اس کا محافظ ـ محافظ مرد دراصل پدرشاہانہ سماج کا خفیہ ایجنٹ ہوتا ہے جو عورت کی لڑائی کا رخ موڑ کر اس کے اٹھے سر کو دوبارہ اسی سماجی اقدار کے سامنے جھکانے کی کوشش کرتا ہے ـ اس کی ایک بہترین مثال فلم “پریم گرنتھ” ہے جس میں مادھوری کی مزاحمت کو رشی کپور کے کھاتے میں ڈال کر عورت کو ایک دفعہ پھر مردانہ سماج کی باندی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ـ اس قسم کی ایک مثال فلم “بمبئے” ہے جس میں مسلم منیشا کوئرالہ کی مزاحمت کو ہندو پدرشاہیت کی فتح کی صورت دکھایا جاتا ہے ـ فلم “بمبئے” کی یہ واردات “باجی راؤ مستانی” میں بھی دہرائی جاتی ہے ـ
مزاحمتی عورت کی فلمی پیش کش میں مرد گیٹ کیپر کی حرکات پر نظر رکھنا ضروری ہے ـ بقول سمیتا پاٹل یہ گیٹ کیپر بہت عیار ہوتے ہیں ، یہ اپنی شعبدے بازی کے ذریعے وومن امپاورمنٹ کو بھی مردوں کے نامہِ اعمال میں لکھنے کی کوشش کرتے ہیں ـ گیٹ کیپروں کی ایسی ہر کامیاب کوشش مزاحمتی عورت کی پیش کش قرار نہیں دی جاسکتی ـ فلم ناقدین کو ایسی دھوکہ دہی پر نظر رکھنی چاہیے ـ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں