چلیے مان لیتے ہیں کہ مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیرسیکولر نہیں تھے ، لیکن کیا آپ سب ، جو اِن دنوں اورنگزیب کے نام پر ہنگامہ مچائے ہوئے ہیں ، جو چلتی ٹرین میں ضعیف العمر افراد کو صرف اس لے مار پیٹ رہے ہیں کہ وہ بھی اسی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں جس مذہب سے اورنگزیب تھے ، اور وہ جو صرف اس لیے رکن اسمبلی ابو عاصم اعظمی کو ایوان سے نکالنے پر تُلے ہوئے ہیں کہ ان کی زبان سے اورنگزیب کے بارے میں ایک سچ بات نکل گئی ، واقعی سیکولر ہیں ؟ یہ سوال مہاراشٹر کے موجودہ وزیراعلیٰ فڈنویس سے بھی ہے ، نائب وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے سے بھی ہے اور سابق وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے سے بھی ہے ، جو اورنگزیب کے نام پر آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں ۔ کیا یہ کل تک ادھو ٹھاکرے کی ، جو خود کو سیکولر کہلوانے اور سمجھوانے کی ایک چاہ تھی ، وہ بس یونہی تھی ؟ کیا وہ خود کو سیکولر کہہ سکتے ہیں ؟ کیا اُن کے والد سیکولر تھے ؟ کیا یہ شندے ، جو اسمبلی کے الیکشن میں اپنی پارٹی کے لیے مسلمانوں کے ووٹ چاہتے تھے کبھی سیکولر رہے ہیں ؟ فڈنویس تو پہلے بھی آر ایس ایس کے پرچارک تھے اور آج بھی سنگھی ہیں ۔ جس طرح سے اورنگزیب کے نام پر سارے ملک کے سیاست دانوں کے چہرے ’ بھگوئے ‘ رنگ سے پُت گیے ہیں ، دیکھ کر شرم آ رہی ہے ! کیسے اس ملک کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے ، کیوں اسے سیکولر سمجھا جاتا ہے ، کیوں کہا جاتا ہے کہ یہاں سب کیا ہندو ، مسلمان اور دلت و عیسائی قانون اور حکومت کی نظر میں یکساں ہیں ، سب کو مذہبی آزادی ہے ، بولنے کی آزادی ہے ، اپنی بات اور اپنی رائے دینے کی آزادی ہے ؟ مجھے یقین ہے کہ یہ نفرت بھرے سیاست داں ان سوالوں کا تشفی بخش جواب نہیں دے سکتے ۔ سوال اور بھی ہیں ، مثلاً یہ سوال کہ کیوں اورنگ آباد کا نام بدل کر سنبھاجی نگر رکھا گیا ؟ کیوں اس ملک میں مسلمانوں کو بابر کی اولاد کہا جاتا ہے ؟ کیوں ملک کی سب سے بڑی عدالت مسلمانوں کو ’ میاں تیاں ‘ کے نفرت بھرے الفاظ سے مخاطب کرنے کی چھوٹ دے دیتی ہے ؟ اس کا نتیجہ تو انکلیشور میں ایک چلتی ٹرین میں ایک باریش مسلمان کو ، جو ایک مدرسہ کے مہتمم ہیں ’ پاکستانی ‘ کہنے کہ صورت میں سامنے آ ہی گیا ہے ، آنے والے دنوں میں نہ جانے کتنے لوگوں کو ’ پاکستانی ‘ کہا جائے گا ، ’ میاں تیاں ‘ کا طعنہ دیا جائے گا اور جگہ جگہ ذلیل کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ اورنگزیب کو اب ایک علامت بنا لیا گیا ہے ، نفرت اور گھن کی علامت ۔ اب زبان بندی کی جا رہی ہے ، کہ نہیں کوئی اورنگزیب کو ’ اچھا اور متقی اور انصاف پسند ‘ نہیں کہہ سکتا ، اور اگر کہا تو اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا ۔ سوچیں اگر اورنگزیب نے اپنے دور میں یہ سب کیا ہوتا تو کیا ہوتا ؟ لیکن اورنگزیب نے یہ سب نہیں کیا اور یہی اورنگزیب کی عظمت کی سب سے بڑی نشانی ہے ۔ اورنگزیب نے ایک شہنشاہ ہوتے ہوئے بھی سیکولر کردار کا مظاہرہ کیا تھا ، اور ہندوستان کو ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک جوڑا اور مضبوط کیا تھا، اور یہ اورنگزیب ہی کی حکومت تھی جس میں راجپوت ہی نہیں مراٹھے بھی حکومت کا اہم حصہ تھے ، کبھی کبھی یہ حکومت میں پچاس فیصد تک ہوجاتے تھے ۔ آج جو سرکاریں ہیں ان میں مسلمان کتنے فیصد حصہ دار ہیں ، یہ لوگ خوب جانتے ہیں لہذا اورنگزیب پر انگلی اٹھانے سے پہلے آپ سب اپنے گریبانوں میں جھانک لیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں