صحافت اور حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ/آغر ندیم سحر

صحافی طاقتور گروہوں یا استعماری ہتھکنڈوں کا گماشتہ نہیں جو ان کی کٹھ پتلی بنا رہے، صحافی کسی مذہبی یا سیاسی جماعت کا نمائندہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ جو اپنے من پسند مولوی یا لیڈر کے گوبر کو بھی حلوہ ثابت کرنے لگے، صحافت کی کرسی بہت بڑی ذمہ داری ہے، صحافی کا قلم تلوار سے تیز اسی وقت ہوگا جب وہ حق اور سچ کا نمائندہ بنے گا، اگر ایک صحافی یا میڈیا پرسن سیاسی جماعتوں، اسٹیبلشمنٹ یا پھر کسی مذہبی گروہ کا ٹاؤٹ یا خصیہ بردار بنے گا تو اس کا وہی حشر ہوگا، جو درجنوں صحافیوں کا ہو چکا۔

یہاں یہ نکتہ بہرحال بہت اہم ہے کہ اگر صحافی واقعی حق سچ کی آواز بنے گا اور کسی بھی طاقتور گروہ کا گماشتہ بننے سے انکار کرے گا تو کیا یہ معاشرہ اس کے لیے محفوظ جگہ ہے، کیا وہ یا اس کا خاندان یہاں محفوظ ہوگا؟

اگر ایک صحافی اپنے مقصد پر ڈٹ جاتا ہے اور کسی بھی طرح کا پریشر قبول نہیں کرتا تو بدلے میں اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں (جو پاور سینیٹرز کی طرف سے کی جائیں گی) کا ازالہ ہماری عدالتیں کر سکیں گی؟

میرا خیال ہے صحافی اسی صورت حق سچ کا نمائندہ بن سکے گا جب عدالتیں اور ادارے اسے تحفظ دیں گے اور اگر ادارے اور طاقتیں اسے اپنا گماشتہ بنانا چاہیں گی تو ایک صحافی محض اس لیے مصلحت پر اتر آئے گا کہ اسے اس ملک میں رہنا ہے اور اسے حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ بھی چاہیے اور صد حیف یہ کہ اس ملک میں حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ بھی یہی طاقتور گروہ دیتے ہیں۔

صحافی ملک چھوڑ چکے، صحافی میڈیا ہاؤسز سے نکل گئے یا نکالے جا چکے، صحافی لکھنا اور بولنا چھوڑ چکے، صحافی اپنے چینل بنا کر گھر بیٹھ گئے، یہ سب کیوں ہوا؟

اس لیے کہ کچھ صحافی طاقتوں کا آلہ کار بنے اور یہ رسم ایسے چلی کہ جو آلہ کار نہیں تھے، انھیں ذبردستی آلہ کار بنانے کی ناکام کوشش کی گئی، اس کوشش میں کچھ غدار کہلائے گئے اور کچھ باغی۔

یاد رکھیں! ایک صحافی یا قلم کار اسی وقت باغی کہلائے گا جب وہ پاور سینٹرز کی جانب پشت کرے گا، پھر اسی پشت پر اتنے جوتے پڑتے ہیں کہ یا وہ ملک چھوڑ دیتا ہے یا دنیا، یا زبان بند کر لیتا یا زبان کٹوا بیٹھتا ہے، یہی ہے حب الوطنی کی کہانی۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply