اس مرتبہ بھی پنجاب اور سندھ میں ڈسٹرکٹ اور تحصیل بار کونسل ایسوسی ایشنز اور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشنز کے سالانہ انتخابات کے نتائج کا پیٹرن دیکھنے سے یہ پتا چلتا ہے کہ اکثر بار ایسوسی ایشنز میں نوجوان وکلاء کے ووٹوں نے نہ صرف فیصلہ کن کردار ادا کیا بلکہ اکثر بار ایسوسی ایشنز کے منتخب ہونے والے صدور اور جنرل سیکرٹری سینئر وکلاء کی بجائے نوجوان اور کم تجربہ کار وکلاء ہیں –
پنجاب اور سندھ کی اکثر بار ایسوسی ایشنز میں جیتنے والے پینلز کا تعلق ایسے وکلاء سے ہے جو موجودہ ہائبرڈ رجیم میں شامل سیاسی جماعتوں کی قیادت اور اسٹبلشمنٹ کی موجودہ قیادت سے سخت اختلاف رکھنے والوں سے ہے –
پنجاب میں بار ایسوسی ایشنز میں نوجوان وکلاء کی بہت بڑی تعداد کا واضح جھکاؤ پاکستان تحریک انصاف کی طرف نظر آتا ہے-
لاہور ، راولپنڈی ، ملتان ، بہاولپور ، ڈی جی خان ، ساہیوال ، گوجرانوالہ، فیصل آباد، سرگودھا کی بار ایسوسی ایشنز میں جیتنے والے صدر اور جنرل سیکرٹری کھلے عام موجودہ ہائبرڈ رجیم کے مخالف ہیں –
لاہور ہائیکورٹ بار ، ملتان ہائیکورٹ بار ، اسلام آباد ہائیکورٹ بار ، بہاولپور ہائیکورٹ بار میں پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ صدر اور جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے ہیں –
کراچی اور ملیر بار ایسوسی ایشنز میں اس مرتبہ نوجوان وکلاء نے ایسے عہدے دار منتخب کیے ہیں جو ایک طرف تو سندھ میں قوم پرستانہ ابھار پہ مبنی سیاسی رجحان کے حامی ہیں دوسری طرف وہاں نوجوانوں نے اپنے جنرل سیکرٹری نوجوان وکلاء کو منتخب کیا ہے – سندھ میں ایک طرف تو 26ویں آئینی ترمیم کے مخالفت نوجوان وکلاء میں بہت نمایاں نظر آئی تو دوسری طرف پنجاب میں چھے نہروں کی تعمیر کے منصوبے کے خلاف جذبات بہت عروج پر ہیں –
پنجاب اور سندھ میں نوجوان وکلاء میں فوجی اسٹبلشمنٹ کے خلاف بھی جذبات عروج پر ہیں ۔ نوجوان وکلاء سندھ میں اکثریت میں پی پی پی کی قیادت کے خلاف یہ تاثر رکھتے ہیں کہ وہ فوجی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ چل رہی ہے –
وکلاء سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کہہ رہے ہیں کہ اگلے مرحلے میں پنجاب بار کونسل اور سندھ بار کونسل کے انتخابات میں نوجوان وکلاء کے ووٹ نتائج میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گے اور اکثریت امیدوار وہ ہوں گے جو موجودہ ہائبرڈ رجیم اور اس میں شامل سیاسی جماعتوں کی قیادت کے سخت ناقد ہوں گے ۔
پنجاب میں نوجوان وکلاء کی اکثریت روایتی طور پر ترقی پسند سمجھے جانے والے وکلاء دھڑے جن میں عاصمہ جہانگیر گروپ ، پیپلز لائرز فورم ، احسن بھون گروپ اور مسلم لیگی تارڈ گروپ وغیرہ کی قیادت کے سخت خلاف ہیں اور یہ مخالفت ان دھڑوں کے حمایت یافتہ پنجاب بار کونسل کے امیدواروں کو سخت نقصان پہنچائے گی – نوجوان وکلاء ان دھڑوں پر فوجی اسٹبلشمنٹ کی حمایت کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں – لاہور بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں عاصمہ جہانگیر گروپ، تارڈ گروپ اور احسن بھون گروپ کے حمایت یافتہ پینلز شکست سے دوچار ہوئے تھے –
پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ نظریاتی ہم آہنگی رکھنے والے پنجاب میں وکلاء کی اکثریت بھی اپنی پارٹی کی قیادت کی سیاسی لائن سے سخت اختلاف رکھتی ہے اور ان کی بہت بڑی تعداد نے بار ایسوسی ایشنز کے انتخابات میں پی ایل ایف کی لائن سے اختلاف کرتے ہوئے ان کے حامی پینلز کو ووٹ نہیں دیے تھے –
میں پنجاب کی بار ایسوسی ایشنز میں ایسے سینکڑوں وکلاء سے واقف ہوں جو گزشتہ پانچ سالوں میں پی پی پی کی سیاست سے مایوس ہوئے ہیں اور انھوں نے آزاد روش اختیار کی ہے –
پنجاب میں پیپلزپارٹی گزشتہ دس سالوں میں مسلسل بار ایسوسی ایشنز میں اپنا اثر و رسوخ تیزی سے گنوا رہی ہے اور یہی حال پاکستان مسلم لیگ نواز کا ہے ۔ دونوں سیاسی جماعتوں نے پنجاب کی بار ایسوسی ایشنز میں نوجوان وکلا کی اکثریت میں اپنی حمایت ختم ہوجانے کے خلاف کوئی ایسی موثر حکمت عملی اختیار نہیں کی جس سے ان کا اثر و رسوخ بحال ہوتا ۔
پنجاب کی وکلاء سیاست مجموعی طور پر پنجاب کی عمومی سیاست کا عکس نظر آتی ہے جہاں نوجوانوں کی بہت بڑی اکثریت پی پی پی اور مسلم لیگ نواز سے نالاں نظر آتی ہے اور اس کا فائدہ براہ راست پاکستان تحریک انصاف کو ہوتا نظر آ رہا ہے –
بلوچستان میں وکلاء کی بھاری اکثریت بلوچ قومی تحریک کی حامی ہے اور بلوچ یک جہتی کمیٹی کے ساتھ ان کی ہمدردیاں بہت واضح ہیں
دیکھا جائے تو بلوچستان ، سندھ ، خیبرپختون خوا میں ریڈیکل قوم پرستانہ سیاست سب سے مقبول رجحان بن کر سامنے آیا ہے اور وکلاء سیاست بھی اسی کے زیر اثر نظر آرہی ہے ۔
ملک بھر کی جامعات میں بھی نوجوانوں میں سیاسی رجحان موجودہ ہائبرڈ رجیم کے خلاف ہی نظر آرہا ہے – کچھ ایسی ہی صورت حال کشمیر اور گلگت بلتستان میں نظر آ رہا ہے ۔
مسلم لیگ نواز پنجاب اور وفاق میں نوجوانوں کی اکثریت کی طرف سے سخت تنقید اور مخالفت کا سامنا کر رہی ہے ۔ فوجی اسٹبلشمنٹ نوجوانوں میں اپنے خلاف رجحان کے مقبول رجحان بننے کے سبب شدید پریشان نظر آتی ہے – وہ جامعات اور کالجوں میں مداخلت کر رہی ہے اور اس کے اعلی عہدے دار بشمول کورکمانڈرز تک یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تقریبات میں شرکت کرکے انھیں اپنے مخالف رجحانات سے دور کرنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں لیکن اس میں انھیں کامیابی ملتی نظر نہیں آرہی ۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ اپنے سربراہ کے خلاف نوجوانوں میں بننے والی ایک عمومی مخالفانہ روش سے دور کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے – اس کے لیے سوشل میڈیا ، فلم ، ڈراموں کے میڈیم کو بھی آئی ایس پی آر کے زریعے پوری طاقت اور وسائل سے استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اسے اس میں کوئی خاص کامیابی ملتی نظر نہیں آرہی –
پنجاب میں مریم نواز شریف نے کھربوں روپے کے متعدد منصوبے اور پرکشش اسکیمیں شروع کی ہیں اور ان کے لیے میڈیا کے ایک بہت بڑے سیکشن کو اشتہارات کی مد میں بہت پیسہ بھی دیا ہے لیکن یہ سب کرنے کے باوجود وہ پنجاب میں نوجوانوں کی اکثریت میں مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہیں۔
مسلم لیگ نواز پنجاب میں اپنی عدم مقبولیت کے خوف کے سبب بلدیاتی انتخابات کرانے سے بھی گریز برت رہی ہے- مسلم لیگ نواز پنجاب میں اضلاع کو بیوروکریسی کے زریعے چلانے کی جس روش پہ عمل پیرا ہے اس نے مزید منفی نتائج پیدا کیے ہیں –
ہائبرڈ رجیم کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ ڈنڈے کے زور پہ وفاق اور پنجاب کی حکومتوں کو چلا رہے ہیں ۔
پیپلزپارٹی کے بارے میں پی ڈی ایم ون کی حکومت میں شمولیت سے لیکر موجودہ حکومت میں شامل ہوئے بغیر اس کی حمایت کرنے کے سبب یہ تاثر عام ہے کہ اس کی قیادت فوجی اسٹبلشمنٹ کے زیر سایہ چلنے میں عافیت محسوس کر رہی ہے اور اس سے عمومی عوامی رائے ہی اس کے خلاف نہیں ہوئی ہے بلکہ خود اس پارٹی کے عام کارکن میں بھی اس پارٹی کی قیادت کے خلاف جذبات عروج پر ہیں –
حال ہی میں میر مرتضٰی بھٹو کے بیٹے کو سندھ میں بالخصوص اور پنجاب میں سرائیکی وسیب کے اندر پی پی پی کے کارکنوں اور ہمدردوں کی ایک بڑی تعداد نے جو پذیرائی بخشی اس سے خود اس پارٹی کی قیادت میں بھی پریشانی کے آثار نمایاں ہیں – پیپلزپارٹی کا جو جو روایتی فائٹر اور مزاحمتی امیج تھا وہ اس کی قیادت کی پالیسیوں سے بری طرح مجروح ہوا ہے۔
پی پی پی نے قومی اسمبلی اور سینٹ میں حال ہی میں جس طرح سے 26ویں آئینی ترمیم کو منظور کرایا ، پیکا ایکٹ کی منظوری کے حق میں ووٹ دیے اور صدر زرداری نے ان بلوں پر جس عجلت میں دستخط کیے اور انھوں نے فوجی گرین انشی ایٹو کے اجلاسوں کی صدارت کی اس نے پی پی پی کے امیج کو بری طرح سے متاثر کیا ہے –
پی پی پی کی قیادت نے بلوچستان میں جس طرح سے فوج کی بنائی حکومت کو اپنایا اور وہاں سیٹ اپ کو اپنا نام دیا اس نے بلوچستان میں پی پی پی کو اتنا غیرمقبول کیا ہے کہ اتنی غیرمقبول تو وہ ذوالفقار علی بھٹو کے 74ء میں بدنام ترین آپریشن سے نہیں ہوئی تھی – بلوچستان میں عام آدمی میں انھیں شدید نفرت کا سامنا ہے اور مجھے یقین ہے کہ پی پی پی کا یہ فیصلہ تاریخ کا بدترین بلنڈر ثابت ہوگا- بلوچ عوام پی پی پی کی قیادت کو اپنے اوپر ڈھائے جانے والے بدترین مظالم اور نسل کشی میں شریک سمجھ رہے ہیں ۔
ہائبرڈ رجیم اس وقت عوام سے لڑ رہا ہے اور پوری ریاست کی جابرانہ مشینری کو عوام کے خلاف استعمال کر رہا ہے اس کا خمیازہ اسے بھگتنا ہوگا – ہائبرڈ رجیم ملک کو بلقنائزیشن کی طرف دھکیل رہا ہے اور قوم پرستانہ رجحان کی مقبولیت پاکستان کو بدترین خلفشار کی طرف لے کر جا رہی ہے اور اس کی زمہ داری ہائبرڈ رجیم پر عائد ہوتی ہے ۔اس رجیم کی عوام میں بالکل جڑیں نہیں ہیں –
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں